تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور سے اپنا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آئے لیکن غیر متوقع طور پر انہوں نے اپنا دھرنا منسوخ کردیا۔ عمران خان چھ دن کی مہلت دے کر جہاں سے آئے تھے اسی عافیت کدے میں لوٹ گئے مگر اپنے پیچھے وہ یہ دھمکی چھوڑ گئے ہیں کہ اس عرصے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہوا تو وہ لانگ مارچ کے ساتھ دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔
تحریک انصاف کی دھرنا سیاست اور ملک میں ہونے والے سیاسی لانگ مارچ کے فیصلوں کا نہایت باریک بینی اور غیر جانب دارانہ تجزیہ اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بے مقصد اور ذاتی اقتدار کی لڑائی کا عمل ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی تنزلی کا باعث بن رہا ہے۔
ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر گیا، گرمی سے بجلی کی طلب ریکارڈ سطح پر جا پہنچی۔ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب 28200 میگاواٹ ہے، جبکہ رسد 21200 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے اور بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرگیا ہے، اسی لیے 10 سے 12 گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ زیادہ لائن لاسز والے علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے، دوسری جانب حقائق یہ ہیں کہ سابق حکومت کی جانب سے بروقت تیل اور گیس نہ منگوانے کے باعث متعدد پلانٹ بند ہیں۔ یہ ہے ہمارا معاشی منظرنامہ، اور نتیجہ یہ ہے کہ قرض دینے والے ممالک اب بہت زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔ آئندہ مالی سال پاکستان کو 36 سے 37 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی اور اس وقت تمام راستے آئی ایم ایف کی جانب جارہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک ہماری مالی امداد کے لیے تیار ہیں لیکن یہ سب آئی ایم ایف اور پاکستان کے معاہدے کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پاجاتا ہے تو اس سے ورلڈ بینک اور چین سمیت دوست ممالک سے فنڈز حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ صورت حال ایسی ہے کہ حکومت عالمی بانڈ مارکیٹ اور کمرشل بینکوں سے بھی فنڈز نہیں لے سکتی۔ وفاقی بجٹ 2022-23ء پر غور کے لیے مختلف تجاویز ہیں مگر پیسہ نہیں ہے، اور ملک میں ایسے حقائق کے باوجود سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے لانگ مارچ میں شدت لانے کے لیے جہاد جیسے الفاظ کا استعمال بھی ملک کے نہایت سنجیدہ طبقے سے ان کا تجزیہ مانگ رہا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنے اہلِ خانہ کو محفوظ رکھ کر جان کی بازی لگانے کے لیے غریب اور سادہ لوح کارکنان کا استعمال کیوں کرتی ہے؟ کارکن کے ساتھ اس قیادت کا رشتہ خیر خواہی کا ہے یا استحصال کا؟ سیاسی قائدین جو چیز اپنی اولاد کے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے کیوں پسند کرتے ہیں؟ حالیہ لانگ مارچ میں جو قیمتی جانیں گئی ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ خونِ خاک نشیناں تو تھا لیکن یہ بھی تو معلوم ہو کہ یہ کس اعلیٰ اصول کی خاطر رزقِ خاک ہوا؟ کبھی کسی نے سوچا کہ وہ بچہ جو ابھی باپ کی شفقت بھی پوری طرح دیکھ اور سمجھ نہ سکا ہو اُس کا باپ لانگ مارچ کی وحشتوں میں زندگی سے محروم ہوجائے تو اس معصوم وجود پر کیا گزرتی ہوگی؟ اس بچے کی ماں کے دکھ کی گہرائی کا اندازہ کرسکتے ہیں جس کی ویران آنکھوں میں اترے آنسوؤں کو یہ بھی خبر نہ ہو کہ انہیں بیوگی کے دکھ میں بہنا ہے یا لاچار ممتا کے؟ ہمارے ملک کی پولیس کا غیر انسانی رویہ بھی ایک المیہ ہے، لیکن محض اس پر سارا ملبہ ڈال دینا بھی سراسر غلط ہے۔ عمران خان کے دوست اور ہمدرد شیخ رشید احمد کے یہ رجز ابھی بھولے نہیں بلکہ یاد ہیں کہ لانگ مارچ خونیں ہوگا۔ یہ فیصلہ اب سماج کے اجتماعی شعور کو کرنا ہوگا کہ ’خونیں مارچ‘ ان کا اندیشہ تھا یا مطلوب و مقصود؟ اب ایک نئی صف بندی ہورہی ہے کیونکہ آزادی مارچ کے بعد تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے بیشتر رہنماء اپنے لیے نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور مستقبل کی نئی صف بندی کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں لانگ مارچ منظم نہیں ہوسکا۔ پنجاب میں صرف شاہ محمود قریشی ہی کسی حد تک متحرک رہے اور جنوبی پنجاب میں بھی دیگر رہنماء غائب رہے۔ راولپنڈی میں فیاض چوہان اور شیخ رشید احمد ہائی ایس وین کی سواریوں کے برابر لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان دونوں کو اسلام آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔ شیخ رشید نے پشاور جاکر عمران خان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا مگر انہیں وقت نہیں دیا گیا، انہیں کہا گیا کہ ملاقات کے لیے پشاور آنے کی ضرورت نہیں۔ عمران حکومت کے متعدد رہنماء اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہیں جہاں سے ابھی تک انہیں سبز جھنڈی نہیں دکھائی گئی۔ لانگ مارچ کی ناکامی کا اندازہ تو عمران خان کو صوابی انٹرچینج پر پہنچ کر ہی ہوگیا تھا، جہاں صوبے میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود شرکاء کی تعداد قابل ذکر نہیں تھی، اُس وقت بھی عمران خان شدید برہم ہوئے تھے۔ صوابی میں ایک تجویز دی گئی کہ اسلام آباد میں پارٹی کارکن توڑ پھوڑ کررہے ہیں اس لیے راستے کی بندش کی آڑ لے کر اٹک پل سے واپس چلے جائیں۔ لیکن اسی دوران سپریم کورٹ نے حکم جاری کردیا کہ پشاور سے آنے والے جلوس کو نہ روکا جائے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد عمران خان کے لیے اسلام آباد نہ پہنچنے کا کوئی جواز باقی نہ بچا اور بہ امر مجبوری اسلام آباد کی طرف مارچ کو جاری رکھنا پڑا۔ اس کے بعد اسلام آباد پہنچ کر جو کچھ ہوا وہ تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس طرح عمران خان واپس پشاور گئے اور ڈی چوک میں کارکنان انتظار ہی کرتے رہ گئے یہ سب کچھ عمران خان کی مجبوری تھی۔ لانگ مارچ کی ناکامی پر پشاور پہنچنے کے دوسرے روز عمران خان نے پارٹی اجلاس بلایا اور برہم ہوئے۔ تحریک انصاف کے بیشتر رہنمائوں نے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا کہ ’’ہم نے لانگ مارچ کا اعلان نہ کرنے کی تجویز دی تھی کہ سازگار حالات نہیں ہیں، لیکن ہماری تجویز رد کردی گئی تھی، تحریک انصاف کی قیادت کے فیصلوں کے بعد یوٹرن اور اس کے نتیجے میں سبکی ہوتی رہتی ہے، عمران خان کو چاہیے کہ اب اپنی صفوں میں منحرفین میر جعفر اور میر صادق کو پہچان کر انہیں الگ کریں اور نامعقول فیصلوں پر نظرثانی کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ بچ جانے والے وفادار انحراف پر مجبور نہ ہوں، عمران خان کو اب سمجھ میں آجانا چاہیے کہ سیاست اور حصولِ اقتدار کے لیے جذباتی باتوں، انتقام، مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرنے اور دوسروں کی عقل کے سہارے نہیں بلکہ صبر و تحمل، بردباری، شائستگی، برداشت و رواداری ہی بنیادی اصول ہیں، یہ بات طے شدہ امر ہے کہ افراتفری اور انتشار کی سیاست سے ملک معاشی طور پر برباد ہوسکتا ہے۔ سنجیدہ طبقہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اس ملک میں سیاست اور جمہوریت تنزلی کا شکار ہیں، سیاست گندی گالی اور جمہوریت بدترین آمریت کی صورت اختیار کررہی ہے، عدم برداشت نے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں بدل دیا ہے، جھوٹ سیاسی ایمان کا بنیادی جزو بن گیا ہے۔ جھوٹ، فریب، تضحیک، تمسخر، الزام، دھمکیوں اور انتقام کو سیاست کی بنیاد تصور کیا جانا غلط ہے۔
ہماری تاریخ کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ جب بھی تزویراتی صف بندی ہو یا ہماری داخلی سیاست میں میدان لگیں، قوم کی سیاسی رہنمائی کے آداب ہی بدل جاتے ہیں اور گھیرائو جلائو کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ طرزعمل اچھی بصیرت اور خیر خواہی قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہمارے ہاں سیاسی ایشوز پر بہنے والے لہو کو رومانوی حیثیت دی جاتی ہے لیکن قیادت کے اپنے اہلِ خانہ اس مہم جوئی سے دور ہی رہتے ہیں۔ چار عشروں سے ملک لانگ مارچ کی سیاست کی لپیٹ میں ہے، جس کے نتیجے میں اسلام آباد کا شہری نظام اور عام آدمی کی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔ اگرچہ پُرامن احتجاج، دھرنے اور لانگ مارچ سیاسی کارکنوں کا بنیادی حق ہیں تاہم پاکستان میں ان ہتھکنڈوں کا معیار مختلف ہے۔ دھرنا سیاست کا کلچر پاکستانی سیاسی نظام کی غیر فعال نوعیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نظام میں خلل ڈالنے والی سیاست کی ایک شکل ہے جس میں سیاسی کارکن اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اسٹریٹ پاور اور اشتعال انگیز حربے استعمال کرتے ہیں۔
ہماری ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں تیل کے نرخ مقرر کرنے کی آزادی سے محروم ہیں، ہر فیصلے کے لیے وہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی جانب دیکھ رہی ہوتی ہیں، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے پیٹرول اورڈیزل کی قیمت میں تازہ اضافے سے مہنگائی کے مزید بڑھنے کو تسلیم کیا ہے مگر اقدام کا جواز بھی پیش کیا ہے، تیل کے بعد اب بجلی کے فی یونٹ نرخ بڑھائے جائیں گے، بجلی کے نرخ سات روپے فی یونٹ اور گیس کے نرخ بھی پچاس فی صد تک بڑھائے جانے کی اطلاع ہے۔ ان اقدامات کا نتیجہ ظاہر ہے کہ مجموعی مہنگائی میں نہایت ہولناک اضافے کی شکل میں سامنے آئے گا اور کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقوں ہی کے لیے نہیں بلکہ کھاتے پیتے متوسط گھرانوں کے لیے بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا محال ہوجائے گا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ جون تک آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوجائے اور اس کے بعد پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی نئی قسط مل جائے۔ حکومت کی خیرات دیکھیے کہ ایک کروڑ40 لاکھ پاکستانی گھرانوں کو وزیراعظم کی اسکیم کے تحت دو ہزار روپے ماہانہ کی مالی معاونت کا اعلان ہوا ہے۔ یہ رقم بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سے الگ ہوگی۔ 28 ارب روپے مالیت کی اس اسکیم سے نہ صرف 73لاکھ گھرانے جو بے نظیر اسکیم میں رجسٹرڈ ہیں، ان کے علاوہ 67لاکھ وہ گھرانے بھی فائدہ اٹھائیں گے جو بے نظیر اسکیم میں شامل نہیں مگر ان کی غربت کی سطح37 درجے سے کم ہے۔ 28 ارب روپے کا امدادی پیکیج عام آدمی کو مہنگائی کے منہ زور سیلاب کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے یقیناً کافی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس رقم کو آٹے، چاول، دالوں، گھی، تیل، چینی سمیت بنیادی اشیائے خورو نوش، سوتی کپڑے کی کم قیمت اقسام اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کو عام آدمی کی دسترس میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ آئندہ قومی بجٹ وزیر خزانہ کے مطابق دس جون کو پیش کیا جائے گا۔ امید ہے کہ غریب پروری کا احساس اس میں نظر آئے گا۔ حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پریشان ہے اور کوئی شک نہیں کہ اس سے دیگر اشیاء بالخصوص روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر معاہدے پر عمل کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیا جاتا تو اُن ممالک سے جو پاکستان کو امداد اور آسان شرائط پر قرضے دینا چاہتے ہیں، وہ بھی نہیں مل سکیں گے اور ایسی خطیر رقوم جو مذکورہ ممالک سے ملنی ہیں اسی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ روس سے تیل کے معاہدے کے بارے میں عمران خان سے فوری دریافت کرے اور اگر روس سستا تیل دینے پر آمادہ ہو تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو فائڈہ اٹھانا چاہیے ورنہ سابق حکومت کا سچ جھوٹ سامنے آجائے گا۔