آئی ایم ایف کا شکنجہ

قرضوں کی معیشت اور بھکاری ریاست ،کیا پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے؟ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا چشم کشا تجزیہ

پاکستانی معیشت عالمی سودی نظام کے شکنجے میں ہے وطن عزیز بدترین معاشی زبوں حالی کا شکار ہے، عوام کی تلخ زندگی میں ہمارے حکمراں مزید زہر بھر رہے ہیں، بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ روپے کی قدر گرتی جارہی ہے اور ڈالر مہنگا ہوتا جارہا ہے، مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے اور جلد ہی مزید اضافہ بھی یقینی نظر آرہا ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کا تو پہلے ہی برا حال تھا، اب کھاتے پیتے متوسط گھرانوں کے لیے بھی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے ، آئندہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قرضوں کی معیشت کے ذریعے ریاست کو بھکاری بنادیا ہے۔ ہم کبھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے در پر، تو کبھی سعودی عرب اور چین کے در پر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ برسوں میں لیا گیا کھربوں ڈالر کا قرضہ کہاں چلا جاتا ہے ؟ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کہاں خرچ ہوا اور کہاں ہو رہا ہے؟

ان کی معاشی پالیساں اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہی ہیں اس وقت قرضوں میں جکڑی پاکستان کی معیشت بے بسی کی تصویر بن چکی ہے۔آئی ایم ایف کے کہنے پر گیس، بجلی اور بنیادی ضرورتوں کے نرخ مقرر کیے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہی غریبوں کو مختلف مدات میں دی جانے والی رعایت ختم کی جارہی ہیں ۔

یا سارا کھیل ایسے ہی نہیں ہے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اصل میں دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے اصل تو وہ نشانے پر ہے ،قرضوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اسرائیل سے تعلق بڑھانےاور کشمیر کے معاملے پر پیچھَے ہٹنے اور پسپائی مجبور کیا جارہا ہے۔

 ان ملک دشمن حکمرانوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں والا معاملہ ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ ہم نے ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے کچھ بنیادی مگر آج کے عام آدمی کے سوالات پوچھے جو پاکستانی معیشت اور اس کے مستقبل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی جو منفرد اور آسان زبان میں  تجزیہ پیش کرتے ہیں اور معیشت کو تاریخ اور حال کی روشنی میں بڑی عمیق نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اِس وقت آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس (کراچی) کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابلِ قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں چار سو سے زائد مقالے و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی پہلا سوال کیا کہ پاکستانی معیشت ”انتہائی نگہداشت“ کے وارڈ میں ایک عرصے سے ہے۔ اس کے بگاڑ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ تو آپ کا کہنا تھا:

پاکستان کی معیشت کو اشرافیہ کی معیشت بنادیا گیا ہے، یعنی بیشتر معاشی و مالیاتی پالیسیاں اشرافیہ بشمول مافیا کے مفاد میں یا اُن کے دبائو کے تحت بنائی جاتی ہیں خواہ اس کے لیے نئی قانون سازی کرنا پڑے یا قانون توڑنا پڑے۔ اس ضمن میں مختلف وفاقی و صوبائی حکومتوں، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، اعلیٰ عدلیہ بشمول وفاقی شرعی عدالتوں وغیرہ کا کردار رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں معیشت میں جو زبردست تباہی و بربادی آئی اس کی پانچ بنیادی وجوہات ہیں:

-1 اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے وفاقی حکومت کی مشاورت سے کوویڈ19- کی آڑ لے کر مارچ سے جون 2020ء کی مدت میں ڈسکائونٹ ریٹ کو 13.25 سے کم کرکے 7 فیصد کردیا، تقریباً 2073 ارب روپے کا ایک پیکیج دیا۔ اس سے فائدہ اٹھا کر بڑے پیمانے پر سستی شرح سود پر بینکوں سے قرضے لے کر گاڑیاں اور غیر ضروری درآمدات کی گئیں جس سے تجارتی خسارہ بڑھا، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گری مگر لمبے عرصے تک ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔ آئی ایم ایف شرح سود میں اتنی کمی کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے تقریباً 21 ماہ تک آئی ایم ایف کے پروگرام کو معطل رکھا گیا۔

-2 وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے حزب مخالف کی احتجاجی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے تحریری معاہدے کی بلاجواز خلاف ورزی کرتے ہوئے 28 فروری 2022ء کو پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ نرخ 30 جون 2022ء تک منجمد رہیں گے۔ آئی ایم ایف اس پر سخت ناراض ہوگیا اور مذاکرات مشکلات کا شکار ہوگئے۔ اگر عمران خان اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے یہ معاہدہ نہ توڑتے تو آئی ایم ایف سے تقریباً 900 ملین ڈالر کی قسط مل جاتی اور سعودی عرب اور دوست ممالک سے امداد ملنے کی راہ ہموار ہوجاتی اور پاکستان انٹرنیشنل مارکیٹ سے قرض حاصل کرسکتا تھا، چنانچہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جاتے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 180 روپے ہوجاتی۔ مندرجہ بالا دونوں اقدامات کی وجہ سے جولائی 2021ء سے اپریل 2022ء تک کے مندرجہ ذیل اعداد و شمار چشم کشا ہیں:

(i) تجارتی خسارہ 39.2 ارب ڈالر، یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا اور گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے خسارے سے 15 ارب ڈالر زیادہ تھا۔

(ii) ملکی درآمدات 65 ارب ڈالر۔ یہ پاکستان کی درآمدات کا کسی بھی مالی سال کے حجم سے زیادہ تھا اور گزشتہ مالی سال کی اسی مدت سے 21 ارب ڈالر زیادہ تھا۔

(iii) 28 فروری 2022ء سے 20مئی 2022ء کے تقریباً تین ماہ میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں لگ بھگ 6.3 ارب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔

(iv) 28 فروری 2022ء سے 27مئی 2022ء کے صرف 2 ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 23 روپے کی کمی ہوچکی ہے۔ یہ اعداد و شمار معیشت کے سنگین بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ناجائز فائدہ پہنچانے کی وجہ سے ہوئے۔ ان اقدامات سے قومی خزانے کو جو نقصان ہورہا تھا اس کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے وزارتِ خزانہ کی حمایت سے بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع میں زبردست کمی کردی جس کی وجہ سے ان کروڑوں کھاتے داروں کو تقریباً 800 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ شرح منافع میں یہ زبردست کمی بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی شقوں 40-A اور 2C-A(4) کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان تمام اقدامات سے امریکہ کے ’’نیوگریٹ گیم‘‘ کے مقاصد میں بھی معاونت ہورہی ہے۔ ہمیں اس بات میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ 28 فروری 2022ء اور مارچ سے جون 2020ء کے مندرجہ بالا اقدامات اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں اور قومی سلامتی کمیٹی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ نوٹس اب لیا جائے۔

-3 وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کے لیے مذاکرات سے پہلے پاکستان کی مذاکراتی ٹیم اچانک تبدیل کردی۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر سے استعفیٰ لے کر ان کی جگہ ڈاکٹر رضا باقر کو جو مصر میں آئی ایم ایف کی ملازمت میں تھے اسٹیٹ بینک کا گورنر بنادیا۔ اسی طرح اپنے وزیر خزانہ کو تبدیل کرکے آئی ایم ایف کے سابق افسر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنادیا جو پہلے بھی فوجی حکمران پرویزمشرف اور پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر خزانہ رہ چکے تھے اور پیپلزپارٹی کے دور میں ان سے استعفیٰ لیا گیا تھا۔ یہ دونوں شخصیات آئی ایم ایف سے مذاکرات سے چند دن پہلے تک پاکستان میں رہائش پذیر نہیں تھیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف سے تباہ کن شرائط پر معاملات طے کیے جن پر عمران خان کی حکومت نے عمل نہیں کیا اور اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ بات راز ہی ہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے مذاکرات سے پہلے اچانک مذاکراتی ٹیم کو کیوں تبدیل کی۔

-4 تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر عمران حکومت کی برطرفی سے پہلے پاکستان کے وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ وہی تھے جو 2008ء اور 2009ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں ان ہی دونوں پوزیشنز پر فائز تھے اور انہوں نے فرینڈز آف پاکستان گروپ کے اعلانیہ کے ضمن میں غلط بیانیاں کی تھیں۔ ہم نے اپنی کتاب ’’پاکستان اور امریکہ… دہشت گردی، سیاست و معیشت‘‘ میں اسے ’’عظیم دھوکا‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مالی سال 2009-13ء کے 5 برسوں میں پاکستانی معیشت کو دہشت گردی کی جنگ سے 59.28 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا، جبکہ اس سے قبل 2002-08ء کے 7 برسوں میں 36.54 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ بعد میں شوکت ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں نے ’’اپنی غلطی‘‘ تسلیم کرلی تھی۔ کیا اس ضمن میں احتساب کے تقاضے پورے کیے جائیں گے؟ جولائی 2021ء سے اپریل 2022ء تک کے جو اعداد و شمار میں نے بتائے ہیں، یہ معیشت کی تباہی کی جو داستان سناتے ہیں وہ فرینڈز آف پاکستان کے اعلانیہ کے ضمن میں غلط بیانیوں کا ہی تسلسل ہے۔

-5 تحریک انصاف کی 2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے پہلے جو 10 نکاتی حکمت عملی جاری کی گئی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ(الف) پاکستانی معیشت کی بحالی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے پاس موجود ہے۔ تحریک انصاف کی ٹیم نے معیشت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے 10 نکاتی اقتصادی منصوبہ تیار کیا ہے جس پر فوری طور پر کام شروع کیا جائے گا۔

(ب) اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 100 روز کے اندر معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کی جائے گی۔

(ج) حکومتی شعبے کے اہم اداروں میں انقلاب کی بنیاد تحریک انصاف نے شوکت ترین کو وزیر خزانہ اور سینیٹر بنایا۔ شوکت ترین نے عمران حکومت کے خاتمے کے صرف تین روز کے اندر کہا کہ جب تحریک انصاف 2018ء میں اقتدار میں آئی تو ’’اس کے پاس معیشت کی بحالی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا‘‘۔ یہ عمران حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دورِ اقتدار میں معیشت سے کھلواڑ کرتی رہی اور طاقتور طبقوں کو غیر ضروری مراعات دیتی رہی، اور وقتاً فوقتاً اپنی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کی دعوے کرتی رہی۔ کیا اس غلط بیانی پر احتساب نہیں ہونا چاہیے؟

ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شوکت ترین نے 2021ء میں ایک نجی ٹیلی ویژن پر کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور معیشت کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اس بیان کے چند ہفتوں کے اندر اپریل 2021ء میں شوکت ترین صاحب کو عمران خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ مقرر کردیا گیا اور اس کے بعد جولائی 2021ء میں معیشت کے بیرونی شعبے میں جو تباہ کاریاں آئیں ان کے اعداد و شمار ہم پیش کرچکے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ بہت دنوں سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بات ہورہی تھی، حکومت نے بالآخر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کردیا ہے اور اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ کیا حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا؟
اس پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ شہبازشریف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان 27مئی 2022ء سے کردیا ہے۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ مالی سال 2023ء میں متعدد بار پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اس کا انحصار عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں پر ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ اگلے مالی سال کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی یعنی بھتے کا تاریخی حجم رکھا جاسکتا ہے، یعنی 410 ارب روپے۔ مالی سال 2018ء کے بجٹ میں یہ حجم 100 ارب روپے تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور نوازشریف کے دیرینہ ساتھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح طور پر کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ اضافہ درست فیصلہ نہیں ہے۔ اس امر میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر آئی ایم ایف کی شرط پوری کی جاسکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی مندرجہ ذیل حکمت عملی ملک میں صرف ہم ہی تواتر کے ساتھ پیش کرتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے 2019ء میں انتہائی کم شرح ٹیکس پر ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا تھا۔ اس اسکیم کے اجرا کے بعد ایف بی آر کی جانب سے جو اشتہارات قومی اخبارات میں شائع کرائے گئے تھے ان میں تنبیہ کی گئی تھی کہ جو لوگ اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کے ملک کے اندر اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان ناجائز اثاثوں کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ملک کے اندر ناجائز آمدنی سے بنائے گئے ان اثاثوں کو ضبط کرلیا جائے گا۔ ہم تواتر کے ساتھ تقریباً دو برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ اگر ملک کے اندر موجود ان اثاثوں پر ملکی قانون کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے تو چند ماہ میں حکومت کو تقریباً 900 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔ طاقتور طبقوں کے دبائو پر تحریک انصاف کی حکومت نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے اس وصولی سے گریز کیا۔ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا تھا۔ ناجائز اثاثوں کے ضمن میں انہوں نے بھی اسی قسم کے دعوے کیے تھے، اب شہباز حکومت نے بھی ناجائز اثاثوں پر ٹیکس کی وصولی کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے کا راستہ چنا ہے۔ یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ مختلف ماہرین بھی پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا دفاع کررہے ہیں۔ کچھ طبقوں کی طرف سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے مگر اس بات کا ادراک نہیں کیا جارہا ہے کہ اگر ملک کے اندر موجود اثاثوں پر ٹیکس نہیں لیا جاتا تو اضافے کے فیصلے کو واپس لینے سے چند ماہ بعد مہنگائی بڑھے گی، کیونکہ بجٹ خسارہ بڑھائے گا۔

میں نے پوچھا کہ اب مہنگائی کی جو ہوشربا صورت حال ہے اس میں متوسط طبقے کا مستقبل کیسا نظر آرہا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی اونچی شرح غریب اور متوسط طبقے کے افراد پر ظالمانہ ٹیکس کے مترادف ہوتی ہے، چنانچہ اس مہنگائی سے ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ متوسط گھرانوں کے سربراہ اپنے اہلِ خانہ کو مناسب غذا اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرپاتے اور نہ ہی اپنے بچوں کو مناسب تعلیم دلواسکتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 27 مئی 2022ء کو غریب افراد کو جو ریلیف پیکیج دیا ہے اس سے ہر فرد کو موجودہ مالی سال میں صرف 400 روپے ملیں گے۔ اگلے مالی سال میں معیشت کی شرح نمو تقریباً 4.5 فیصد رہے گی جبکہ مہنگائی کی شرح بہت زیادہ اونچی رہے گی، چنانچہ نظر تو یہی آتا ہے کہ متوسط طبقے کی مشکلات برقرار رہیں گی۔ خوش قسمتی سے متوسط طبقے کے افراد کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ ان کا مستقبل خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ افراد عوام کو بیدار کرنے کے لیے منظم تحریک چلائیں تو حکومت پر دیانت دارانہ اور منصفانہ پالیسیاں وضع کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ مستقبل میں متوسط طبقے کے کچھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔
میرا ایک اور سوال تھا: کہا جارہا ہے کہ آج آئی ایم ایف مجبوری ہے۔ اگر آئی ایم ایف آج مجبوری ہے تو مستقبل میں اس سے چھٹکارا کس طرح ممکن ہے؟

اس پر آپ نے فرمایا: تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو تباہ و برباد کرکے شہبازشریف کی حکومت کے حوالے کیا ہے۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ موجودہ حکومت کو ہر حالت میں آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا ہوں گے اور حکومت اسی پالیسی پر گامزن بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام ستمبر 2022ء کی مدت کے لیے ہے اور اُس وقت تک موجودہ حکومت کو قرضے کی مد میں 3 ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ 1958ء سے مختلف حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرضوں کے 22 پروگرام طے کیے تھے۔ جن حکمرانوں یا وزرا کے دور میں یہ معاملات طے کیے گئے ان میں ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، معین قریشی، ڈاکٹر محبوب الحق، ملک معراج خالد، نوازشریف، بے نظیر بھٹو شہید، پرویزمشرف، زرداری، گیلانی اور عمران خان شامل ہیں۔ فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ ستمبر 2008ء میں اور آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات طے کیے گئے ان کے بیانیہ کے ضمن میں شوکت ترین وزیر خزانہ اور شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ نے تواتر سے غلط بیانیاں کیں۔ ہم نے ان غلط بیانیوں کو عظیم دھوکا قرار دیا تھا۔ ان بیانات کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو جو نقصانات اٹھانا پڑے ان کا تقابلی جائزہ چشم کشا ہے۔ مثلاً
٭مالی سال 2006ء سے مالی سال 2008ء تک تین برسوں میں پرویزمشرف کے دور میں معیشت کو 956 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
٭ مالی سال 2009ء سے مالی سال 2011ء کے تین برسوں میں پیپلزپارٹی کے دور میں معیشت کو 3385 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

یہ بات حیران کن ہے کہ عمران خان کے دور میں اپریل 2021ء سے عمران حکومت کے خاتمے تک شوکت ترین وزیر خزانہ اور شاہ محمود قریشی روزِ اوّل سے وزیر خارجہ رہے۔ ان دونوں شخصیات نے فرینڈز آف پاکستان گروپ کے اعلانیہ کے ضمن میں جو زبردست غلط بیانیاں کیں ان کی تفصیل ہم نے 2011ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’پاکستان اور امریکہ… دہشت گردی، سیاست اور معیشت‘‘ میں پیش کردی اور ان دونوں شخصیات نے اپنی غلطی مان بھی لی تھی۔ عمران خان کے دور میں معیشت میں جو بحران آیا اور آئی ایم ایف کا پروگرام 28 فروری 2022ء کے بعد مشکلات کا شکار ہوگیا وہ دراصل فرینڈز آف پاکستان کے اعلانیہ اور اقدامات کا تسلسل ہے۔ اور ان اقدامات سے امریکہ کے نیو گریٹ گیم کے مقاصد میں معاونت ہی ہوئی ہے۔ حکومت اور قوم کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے شعبے میں ترقی کرہی نہیں سکتا۔ ادائیگیوں کے توازن کے لیے آئی ایم ایف کی معاشی پالیسیوں سے منسلک شرائط پر عمل کرکے معیشت کی شرح نمو سست اور افراطِ زر کی شرح اونچی رہتی ہے اور معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا روپ دھار ہی نہیں سکتا۔ آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی کہ حکومت پارلیمنٹ اور چاروں صوبوں کی اجازت کے بغیر آئی ایم ایف سے نہ قرضے کی درخواست کرسکتی ہے اور نہ ہی شرائط منظور کرسکتی ہے۔ مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ کی پاس داری بھی لازمی کرنا ہوگی۔ بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے وفاق اور صوبوں کو مقررہ حد سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کرنا ہوگا اور وصول کرنا ہوگا، معیشت کو دستاویزی بنانا ہوگا، پراپرٹی کی مالیت مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانا ہوگی، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا ہوگا، ہر قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں پر پابندی لگانا ہوگی، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 11(C4) کو منسوخ کرنا ہوگا، غیر پیداواری اخراجات میں زبردست کمی کرنا ہوگی، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کی شرح 22 فیصد، ملکی بچتوں کی شرح 30 فیصد رکھنا ہوگی، ملکی سرمایہ کاری کے تناسب میں اضافے کو اولیت دینا ہوگی، تعلیم، صحت اور تحقیق و ترقی کے لیے مجموعی ملکی پیداوار کا 9.5 فیصد مختص کرنا ہوگا، ترقیاتی اخراجات کی مد میں جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنا ہوگا، ملکی درآمدات کو ممکنہ حد تک برآمدات کے حجم کے اندر رکھنا ہوگا، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ سیکٹر کی برآمدات میں تیزی سے اضافے کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی، انڈر انوائسنگ، اوور انوائسنگ اور اسمگلنگ پر ممکنہ حد تک قابو پانا ہوگا، تجارتی خسارے کی مالکاری کے لیے ترسیلات کو استعمال کرنے کے بجائے ترسیلات کے بڑے حصے کو ملکی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی مالی اور انٹی لیکچوئل کرپشن پر ممکنہ حد تک قابو پانا ہوگا، نیب کا مؤثر احتساب کرنا ہوگا، ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہنا ہوگا اور غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی اور احتجاج و دھرنا کلچر سے پرہیز کرنا ہوگا۔ اگر ان سفارشات پر عمل نہ کیا گیا تو پاکستانی معیشت اور سلامتی کے لیے خطرات بڑھتے رہیں گے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے جب یہ کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ بھی ہوجائے پاکستان دیوالیہ نہیں ہوسکتا، چین سمیت عالمی قوتوں کو اس کی ضرورت ہے۔ اس خیال سے آپ کس حد تک متفق ہیں؟

اس پر آپ کا کہنا تھا: میں خود نائن الیون کے بعد سے کہتا رہا ہوں کہ پاکستان جیسا ملک ڈیفالٹ نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے کھیتوں، گھروں کے لان میں سبزیاں کاشت کرکے بھوکے رہے بغیر بیرونی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع دفاعی اور تجارتی لحاظ سے انتہائی شاندار ہے۔ دنیا کے چار ملکوں سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں۔ چین کے پاس امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں زیادہ ذخائر ہیں۔ چین دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور اپنے ملک میں غربت میں کمی کرنے کے لیے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ سی پیک منصوبہ اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین سی پیک کے خلاف ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کی پوزیشن میں آبھی جائے جس کا فی الحال امکان نہیں ہے تو مغرب یہی کہے گا کہ یہ سی پیک کی وجہ سے ہے۔ چین اس صورت حال میں وقت سے پہلے ہی پاکستان کی مدد کرے گا، یعنی اسٹیٹ بینک میں چند ارب ڈالر جمع کرادے گا جس پر وہ سود لے گا۔ اسی طرح اگرچہ مغربی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم اور اس کی معیشت کو کمزور اور اپنا دستِ نگر رکھنا چاہتی ہیں مگر افغانستان کے معاملات میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے، جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ اور استعماری مقاصد سے مغربی طاقتیں ناخوش ہیں۔ بھارت کو امریکہ کی مقرر کردہ ’’ریڈ لائن‘‘ عبور کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ ہمیں یہ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی کہ حالات میں کسی بڑی تبدیلی سے پہلے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرلیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ 10جون کو پاکستان کا بجٹ آرہا ہے، وہ کسیا ہوگا اور کیسا ہونا چاہیے؟
اس پر آپ کا کہنا تھا:وفاقی حکومت نے ابھی 10 جون 2022ء کو مالی سال 2022-23ء کی بجٹ تجاویز کو حتمی شکل نہیں دی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق پیٹرولیم لیوی کی مد میں 410 ارب روپے کی وصولی کا ہدف رکھا جائے گا، جبکہ مالی سال 2018ء کے بجٹ میں پیٹرولیم لیوی یعنی بھتے کی مد میں 180 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ ترقیاتی اخراجات کی مد میں انتہائی کم رقوم مختص کی جاسکتی ہیں جبکہ مختلف ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ٹیکس چوری روک کر ٹیکسوں کی مد میں قابلِ قدر اضافہ شاید نہ کیا جاسکے۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ ٹیکسوں کی مد میں وفاق کو جو رقوم وصول ہوں گی ان میں صوبوں کا حصہ (این ایف سی ایوارڈ کے تحت) دینے کے بعد جو رقوم بچیں گی ان سے قرضوں و سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات بھی پورے نہ ہوسکیں گے، یعنی دفاع کے لیے بھی ہم قرضہ لیں گے جو کہ سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ وفاق صوبوں سے درخواست کرے کہ وفاق سے ملنے والی رقوم کو مکمل طور پر خرچ نہ کریں تاکہ بجٹ خسارہ قابو سے باہر نہ ہو۔ ہماری تجویز ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کریں، معیشت کو ممکنہ حد تک دستاویزی بنانے کا عمل شروع کریں، ترقیاتی اخراجات میں اضافہ اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 11(C4) کو منسوخ کیا جائے، پراپرٹی کی مالیت مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لائی جائے، ہر قسم کی ٹیکس ایمنسٹی سے اجتناب کیا جائے اور وفاق و صوبے تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 9.5 فیصد لازماً مختص کریں۔

ڈاکٹر شاہد حسن تجزیہ ہمیں بہت کچھ بتارہا ہے ،اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں قیادت کا بحران ہے،اور یہ بحران اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ان عالمی قوتوں سے جان نہیں چھٹے گی کیونکہ یہ طاقتیں ہی ہماری آزادی پر کنٹرول قائم کیے ہوے ہیں ان کے ایجنٹ اور کرائے کے لیڈرز ہم پر مسلط ہیں جن سے نجات کی صورت میں ہی معیشت کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ،قوم کو سسک سسک کے نہیں جینا تو قرضوں  کے کھیل کو ختم ہونا ہوگا اور عزت کی زندگی انہیں ہی ملتی جو عزت سے مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ،یہی اصل تبدیلی اور اس کے دیر پر اثرات راستہ ہے ۔اب حکمرانوں کو بھی فیصلہ کرلینا چاہئِے کے انہیں مغرب کے اُن کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا قوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔
nn