اطاعتِ رسولؐ کی ضرورت و اہمیت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ)’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الذاریات)
اسلام کی تعلیم کے مطابق عبادت محض نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا نام نہیں، بلکہ عبادت کا مفہوم نہایت وسعت کا حامل ہے، اور معاملات و معاشرت اور حقوقِ باہمی کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے اور اس کی منشا کو مدنظر رکھنا بھی عبادت کے مفہوم میں شامل ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان کو بجالانے اور جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان سے رک جانے کا نام عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوامر و نواہی کی تعلیم دینے اور ان کی طرف راہنمائی کے لیے اپنا ایک نظام قائم فرمایا ہے، وہ نظام رسالت و وحی کے نام سے موسوم ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کسی برگزیدہ بندے پر وحی کے ذریعے ہدایات کا نزول فرماتے ہیں، اور وہ برگزیدہ شخصیت ان ہدایات کی روشنی میں اس نظام کا نظم ونسق چلانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ اس کو رسول و پیغمبر کہا جاتا ہے۔
دنیا میں ایسے بے شمار لوگ گزرے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ممتاز یا انفرادی حیثیت رکھتے تھے، جنہوں نے نظام عالم کو چلانے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف شاہانِ عالم اور سپہ سالاران افواج ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل ڈالنے کے دعوے دار ہیں۔ دوسری جانب شعراء، حکما اور فلاسفہ کا طبقہ ہے جو اپنے اشعار و الفاظ کی آرائشوں اور حکمتوں کی موشگافیوں سے نظام عالم کو درست رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایک اور طبقہ تاجروں، صنعت کاروں اور دولت مند حضرات کا ہے، جن کا خیال یہ ہے کہ تمام دنیا کا سماجی اور معاشرتی نظام انہی کے سہارے ارتقا پذیر ہے۔ فی الحقیقت اس میں کوئی کلام بھی نہیں کہ ان تمام طبقوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق تعمیر ملّت اور فلاحِ قوم میں اپنا حصہ شامل کیا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ انہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے حسنِ عمل کا کوئی خوش نما نمونہ نہیں چھوڑا۔
بنی نوع انسان کی بھلائی، ان کے اخلاق کی اصلاح، ان کے دلوں کی صفائی اور ان کا رشتہ اللہ سے جوڑنے کے لیے کوئی کامیاب کوشش اگر کسی نے کی ہے تو وہ صرف انبیائے کرام اور رسولانِ عظام علیہم السلام ہی کا طبقہ ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اسی مقصدِ عظیم کے لیے دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے جن میں صحیح احکام اور درست عقائد کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ گزشتہ زمانوں میں جو انبیائے کرام مبعوث ہوتے رہے ان کا دائرۂ کار اپنے اپنے علاقے کے لوگوں اور اپنے اپنے زمانے تک محدود تھا، اسی بنا پر ان کی تعلیمات کو دوام حاصل نہیں تھا۔ اس لیے ایک کے بعد ایک انبیاء تشریف لاتے رہے اور اولادِ آدم کو نورِ نبوت سے فیض یاب فرماتے رہے، ان سب انبیائے کرام کی شریعتوں کے اصول ایک ہی تھے، البتہ فروع میں ان کے زمانے کے حالات اور لوگوں کی طبیعتوں کے لحاظ سے فرق تھا۔
سب سے آخر میں اللہ تعالیٰ نے محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ پر سلسلۂ نبوت و رسالت ختم کردیا گیا۔ اسی لیے آپؐ خاتم الانبیاء ٹھیرے، چنانچہ اب قیامت تک نہ کوئی اور نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی شریعت۔ آپؐ کو جو کتاب عطا ہوئی وہ بھی تمام سابقہ کتب کے لیے ناسخ اور احکاماتِ الٰہیہ کی جامع و مکمل ہے۔ آپؐ کو جودین اسلام دیا گیا وہ تمام سابقہ ادیان کے لیے ناسخ اور ہر لحاظ سے جامع ومکمل دین ہے۔ اب قیامِ قیامت تک آپؐ ہی کی شریعت باقی و برقرار رہے گی۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’اور ہم نے آپؐ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے، لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے‘‘۔(سباء:28)
’’آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی، اور میں نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا‘‘۔ (المائدہ:3)
جب یہ فیصلہ ہوچکا کہ اب قیامت تک اگر کوئی دین قابلِ عمل ہے، اگر کوئی مذہب اللہ تعالیٰ کی جانب سے پسندیدگی کی سند رکھتا ہے اور جس پر عمل پیرا ہوکر کامیابی کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے تو وہ فقط اسلام ہے، لہٰذا اسلام اور صاحبِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ضروری ہونا بدیہی ہوا۔ خود قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اور اگر تم آپؐ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے‘‘۔ (النور:54)
نیز فرمایا:اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی لیے بھیجا تاکہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے‘‘۔ (النساء:64)
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہری و باطنی تمام کمالات سے کامل و اکمل طور پر آراستہ فرما کر دنیا میں بھیجا، تاکہ آپؐ لوگوں کے سامنے ہر دور کے لیے زندگی کے ہر شعبے کا عملی نمونہ پیش کرسکیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’البتہ تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں ایک بہترین نمونہ موجود ہے‘‘۔ (الاحزاب:21)
لہٰذا آپؐ کے تمام اقوال و افعال پوری امت کے لیے حجت اور مشعلِ راہ ہیں، اور اتباعِ رسالت یہی ہے کہ(باقی صفحہ 33پر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرمانوں پر ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سمجھ کر دل و جان سے عمل کیا جائے، اگر کوئی شخص پیغمبر کے احکام نہ مانے اور آپؐ کے فیصلے کو پس پشت ڈالے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، کیونکہ اللہ کے رسول کے احکام کو نہ ماننے کا مطلب خود اللہ تعالیٰ کے احکام سے انکار ہے۔
(سید عزیز الرحمٰن،’’تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آج کے زندہ مسائل‘‘ سے انتخاب)

مجلس اقبال
اس کی تقدیر میں مظلومی و محکومی ہے
قوم جو نہ کر سکی اپنی خودی سے انصاف

پاکستان کے آج کے قومی نقشے اور ریاستی اور حکومتی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ شعر علامہ کی جانب سے ”الہامی تبصرہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے علامہ نے یہ شعر آج لکھ کر بھیجا ہو۔ اقبالی عدالت ِ فکر کے قاضی کا کیا ہی خوب صورت فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکے، اُس کا انجام مظلومی و محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ غور کیجیے کہ انسانی اور زمینی نعمتوں سے مالامال سرزمین پاکستان کی نااہل، بدقماش اور بدعنوان قیادتوں نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کے پاسپورٹ کی عزت نہ انسان کی۔ قرضوں کا لامتناہی ناروا بوجھ، سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی تشویش ناک صورتِ حال، قومی غربت بھی بے مثل اور حکمرانوں کی بے وفائی بھی لاشریک۔ علامہ درسِ خودی فرد اور قوم دونوں کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ آج فکر ِ اقبال پر قائم ریاست کے لیے اہم ترین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ فرد اور قوم اپنی خودی کو پہچانیں۔