اسلام اپنی مملکت کے تمام شہریوں کو قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق دیتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو قرآن اور حدیث میں یہ صاف وضاحت ہے کہ اپنے حقوق اور واجبات میں وہ سب برابر ہیں۔ ’’مومن تو آپس میں بھائی ہیں‘‘۔ ’’اگر (غیر مسلم) کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مسلمانوں کے خون برابر کی قدر و قیمت رکھتے ہیں‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے ’’سب مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، ان کا ایک ادنیٰ شخص بھی کسی کو پناہ یا امان دے سکتا ہے‘‘۔ ایک اور مفصل حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت مان لیں، اور ہر قسم کے تعصبات چھوڑ کر ملّتِ اسلام میں شامل ہوجائیں، ان کے حقوق وہی ہیں جو مسلمانوں کے حقوق ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو مسلمانوں کے فرائض ہیں (لَھُمْ مَالِلْمُسْلِمْینَ وَ عَلَیْھِمْ مَا عَلٰی الْمُسْلِمِیْنَ)۔ یہ دینی بھائی چارہ اور حقوق و فرائض کی یکسانی اسلامی معاشرے میں مساوات کی بنیاد ہے، اور اس میں کسی کے حقوق و فرائض کسی دوسرے کے حقوق و فرائض سے کسی معنی میں بھی کم یا زیادہ نہیں ہیں۔ رہے اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری، تو ان کے بارے میں اسلامی شریعت کا قاعدہ خلیفہ برحق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’انہوں نے ہمارا ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہوجائیں‘‘ (لِتَکُوْنَ اَمْرَالُھُمْ کَاَمْرَالِنَا وَ دِمَآئُ ھُمْ کَدِمَائِ نا)۔ باَلفاظِ دیگر ان کے جان و مال کی حرمت بھی اسلامی مملکت میں ویسی ہی ہے جیسی مسلمان کی جان و مال کی حرمت ہے۔ قرآن مجید فرعون کے بدترین جرائم میں اس جرم کو بھی شمار کرتا ہے کہ جَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا۔ ’’اس نے ملک کے باشندوں کو الگ الگ طبقوں میں بانٹ دیا تھا‘‘۔ اور یَسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ ’’اور ان میںسے ایک گروہ کو دبا کر رکھتا ہے‘‘۔
اسلام صریح طور پر یہ تقاضا کرتا ہے کہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام حکام، حتیٰ کہ صدرِ مملکت بھی قانون کی نگاہ میں عام شہریوں کی طرح ہوں، کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو، اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کے مقابلے میں بھی ایک عام شہری اپنے حق کا دعویٰ لے کر اٹھ سکے۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ ’’میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے‘‘۔ جنگِ بدر کا واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی فوج کی صفیں سیدھی کرا رہے تھے، ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ اتفاق سے آگے بڑھے ہوئے ایک سپاہی کو پیچھے ہٹاتے ہوئے آپؐ کی لکڑی اُس کے پیٹ میں چبھ گئی۔ اس نے کہا آپ نے مجھے تکلیف دی۔ آپؐ نے فوراً اپنا پیٹ کھول دیا کہ تُو بھی لکڑی میرے پیٹ میں چبھو دے۔ اس نے بڑھ کر آپؐ کا شکم مبارک چوم لیا اور عرض کیا کہ میں یہی چاہتا تھا۔
چوری کے ایک مقدمے میں ایک خاندانی عورت ماخوذ ہوئی۔ سفارش کی گئی کہ اسے سرقہ کی حد سے معاف کردیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے برباد ہوئیں کہ وہ عام لوگوں پر حدیں جاری کرتی تھیں اور معززین کو معاف کردیتی تھیں۔ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہؓ بھی یہ فعل کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں مصر کے گورنر حضرت عمروؓ بن العاص کے بیٹے محمد نے ایک مصری کو کوڑے مار دیے۔ اس مصری نے مدینے جاکر خلیفہ برحق سے شکایت کردی، تو انہوں نے مصر کے گورنر اور ان کے بیٹے محمد کو فوراً طلب کرلیا، اور جب وہ حاضر ہوئے تو مصری کے ہاتھ میں دُرّہ دے کر حکم دیا کہ گورنر کے بیٹے کو ان کے سامنے مارے۔ پھر جب وہ اپنا بدلہ لے کر دُرّہ حضرت عمرؓ کو واپس دینے لگا تو آپ نے اس سے کہا: ’’ایک ضرب ان گورنر صاحب کے بھی لگا۔ خدا کی قسم ان کا بیٹا تجھے ہرگز نہ مارتا اگر اسے اپنے باپ کا غُرّہ نہ ہوتا‘‘۔ مستغیث نے عرض کیا کہ ’’جس نے مجھے مارا تھا اس سے میں بدلہ لے چکا ہوں۔“ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم اگر تُو انہیںمارتا تو میں حائل نہ ہوتا۔ تُو نے خود ہی انہیں چھوڑ دیا ہے‘‘۔ پھر غضب ناک ہوکر حضرت عمروؓ بن عاص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنالیا حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا‘‘۔ اسلامی حکومت جب اپنی اصلی شان میں قائم تھی تو اُس زمانے میں حالت یہ تھی کہ خود خلیفہ وقت کے خلاف بھی دعوے کیے جاتے تھے اور اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ اور خلیفہ کو اگر کسی کے خلاف شکایت ہوتی تھی تو وہ اپنے انتظامی اختیارات سے کام لے کر اپنی شکایت خود رفع نہیں کرلیتا تھا بلکہ عدالت سے رجوع کرتا تھا۔
(تفہیمات۔ حصہ چہارم)