برقی ذرائع ابلاغ کے میزبان صاحبان آج کل اپنے مہمانوں سے بار بار ’’سوال پوچھ‘‘ کر انھیں لاجواب ہوجانے کی مصیبت میں مبتلا کر ڈالتے ہیں۔ مگر صاحب! اُردو روزمرہ ’سوال پوچھنا‘ نہیں، ’سوال کرنا‘ ہے۔ سو، اے میزبانو! سن رکھو کہ بامحاورہ معیاری اُردو میں سوال کیا جاتا ہے، سوال ’پوچھا‘ نہیں جاتا۔ ’پوچھنا‘ ہی ہے تو حال پوچھیے، مزاج پوچھیے، نام و نسب پوچھیے۔ پَر آپ کی اُردو کا تو وہ حال ہوگیا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔ یہی شکوہ فیضؔ کو تھا کہ اُنھیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ میدانِ وفا میں مارے مارے پھر رہے ہیں پھر بھی اُن سے نام پوچھا جارہا ہے نہ خاندان۔ تنگ آکر اپنے مخصوص دھیمے دھیمے لہجے میں خود ہی بڑبڑانے لگے کہ
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
’پوچھنا‘ دریافت کرنے یا تحقیقات کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسا کہ مشرقی ہندوستان کے لکھنویوں نے مغربی سمت سے آئے ہوئے میر تقی میرؔ دہلوی کو پوچھ پوچھ کر پچھاڑ دیا۔ نتیجہ یہ کہ میرؔ بد دماغ نے پہلے تو اُن کا دماغ درست کیا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پُورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پُکار کے
پھر آگے کی بات بتائی۔ پوچھنے سے بازپُرس کرنے یا احتساب کرنے کے معنی بھی نکلتے ہیں کہ ’سرکاری اہل کار جو جی میں آئے کرتے پھریں اُن کوکوئی پوچھنے والا ہی نہیں‘۔ کبھی کبھی ’پوچھنے‘ سے دعا سلام کہنے کا مطلب بھی لے لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنی اہلیہ کے سامنے اپنے ننھے منے بچوں سے یہ نہ کہہ بیٹھیے گا کہ ’اپنی اُستانی کو میری طرف سے بہت بہت پوچھ دینا‘۔ کیوں کہ فوراً ہی آپ کا مزاج پوچھ لیا جائے گا۔ پوچھنے کا ایک مطلب قدر کرنا، توجہ دینا، بیمار پُرسی کرنا یا خیرو عافیت معلوم کرنا ہے۔ چچا غالبؔ تو اس غرض سے ’غیر‘ کو گوارا کرنے پر غور کے لیے بھی تیار ہوگئے تھے:
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
’حد سے زیادہ‘ ہونے کے معنوں میں’کیا پوچھنا‘ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’خدا کی شانِ کریمی کا پوچھنا کیا ہے‘۔ اسی طرح اپنی یا کسی اور کی بے انتہا قدر و منزلت بیان کرنے کے لیے یا کسی صورتِ حال کی انتہا بتانے کے لیے ’مت پوچھو‘ اور ’ پوچھناکیا‘ جیسی تراکیب اکثر استعمال ہوتی رہتی ہیں۔ غالبؔ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا‘۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ ’غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ‘۔
’سوال پوچھنے‘ کی جگہ اگر صرف ’پوچھ‘ لیا جائے تب بھی ’سوال کرنے‘ کا مفہوم ادا ہوجاتا ہے۔ مثلاً ’میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ…‘ یا ’میں نے جو پوچھا تھا آپ نے اُس کا جواب نہیں دیا‘۔ عوامی نمائندوں سے کچھ پوچھیے تو پوچھتے رہ جائیے۔ کبھی سیدھا جواب نہیں دیتے۔ اکثر’آئیں بائیں شائیں‘ کرنے لگتے ہیں۔ ایسے مواقع پر آپ غصے میں آکر الیکشن کمیشن سے پوچھ سکتے ہیں کہ
ایسے لوگوں سے کیا کرے کوئی بات؟
پوچھیے دن کی تو بتائیں رات!
یہ وہی بات ہوئی کہ ’سوال دیگر، جواب دیگر‘۔اِنھیں معنوں میں ایک اور کہاوت کہی جاتی ہے: ’سوال از آسماں، جواب از ریسماں‘۔ ریسمان رسّی، ڈور یا دھاگے کو کہتے ہیں۔ مراد ہے سوال کو اُلجھا دینا۔ اُلٹے سیدھے جواب دینے والے کی قدرؔ نے کیا خوب بے قدری کی:
تکا تھا کوٹھا جو اس جواں کا، میں چڑھ کے پھانسی پہ گور جھانکا
کیا سوال اُس سے آسماں کا، دیا جواب اُس نے ریسماں کا
سوال کے سین پر پیش ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تقاریر سنیے تو آپ کو سُوال کا یہ درست تلفظ واضح طور پر سنائی دے گا۔ سوال کرنے کے ایک معنی مانگنے یا درخواست کرنے کے بھی ہیں۔ فقیر بھی ’سوال کرتا‘ ہے۔ گویاؔ جیسا فقیر، دیکھیے کیا سوال کررہا ہے، سبحان اللہ:
مانگوں خدا سے عشق بشیرؐ و نذیرؐ کا
رد کب کرے کریم سوال اِک فقیر کا
’سوال کرنا‘ بالکل ویسا ہی روزمرہ ہے جیسا ’دریافت کرنا‘۔ اگر یہ کہنا معیوب ہوگا کہ ’میں آپ سے دریافت پوچھناچاہتا ہوں‘ تو بعینہٖ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ’میں آپ سے سوال پوچھ رہا ہوں‘۔ سوال کرنا اور پوچھنا ایک دوسرے کے مترادف ہیں، دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ لہٰذا اگر آپ اچھی اور معیاری اُردو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو تکرارِ لفظی سے بچیے۔ سوال کیاکیجیے، سوال پوچھا نہ کیجیے۔
’معیاری اُردو‘ پر یاد آیا کہ ذرائع ابلاغ میں بہت سے لوگ معیار یا معیاری کا غلط املا مسلسل لکھ رہے ہیں۔ میعار یا میعاری لکھا جارہا ہے۔ غلط املا لکھنے کی بظاہر دو وجوہ سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جہاں پڑھا ہے وہاں املا غور سے نہیں دیکھا، یا لفظ صرف سنا ہے، پڑھا نہیں ہے۔ دوسری وجہ لغت سے لاتعلقی اور لغوی معانی سے ناواقفیت ہوسکتی ہے۔
عربی میں ’عَیَار‘ کا مطلب کسوٹی، اندازہ، تولنا وغیرہ ہے۔ ’ع‘ اور ’ی‘ دونوں پر زبر ہے۔ یہاں ’ی‘ تشدید کے بغیر ہے۔ مجازاً قدر و قیمت کو بھی عَیَار کہتے ہیں۔ اقبالؔ کے کئی مصرعوں میں ’عیار‘ اِنھیں معنوں میں آیا ہے۔ مثلاً ’کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیارہوگا‘ یا ’یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار‘ اور ’خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سے‘ وغیرہ۔ اسی ’عَیَار‘ میں ’ع‘ سے پہلے ’م‘ لگادیا تو ’معیار‘ بن گیا۔ مطلب ہے کھرا کھوٹا پرکھنے کا پیمانہ، آلہ، ترازو یا قاعدہ اور نصاب، جس کی مدد سے کسی چیز کی قدر و قیمت کو جانچا جا سکے۔
اگر ’ی‘ پر تشدید ہو تو ’عیّار‘ کا مطلب عربی میں تو بہت حرکت کرنے والا، زیادہ آمد و رفت رکھنے والا، یا آوارہ گرد ہوتا ہے۔ مگر فارسیوں نے اس لفظ کو چالاک، ہوشیار،کائیاں، مکار اور چال باز کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہی معنی اردو میں بھی لے لیے گئے اور اسی سے اسمِ کیفیت ’عیّاری‘ بنا۔ یہاں پھر اقبالؔ کے مصرعوں کی مثالیں یاد آتی ہیں ’کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری‘۔ ’عقل عیّار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے‘۔ ’سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ‘۔
اقبالؔ کے بارے میں بڑے بڑے علمائے دین اور مفسرینِ قرآن سے سنا ہے کہ وہ ’مستقبل بین‘ تھے۔ عالَمِ نَو جو ابھی پردۂ تقدیر میں ہوتا، اُس کی سحر اُن کی نگاہوں میں بے حجاب ہوجایا کرتی تھی۔ آبِ روانِ کبیر کے کنارے لیٹ کر اُس زمانے میں کسی اور زمانے کے خواب دیکھ لیا کرتے تھے۔ ہمیں تواب شبہ سا ہونے لگا ہے کہ شاید وہیں لیٹے لیٹے اُنھوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مئی 2022ء میں اُن کے خوابوں کی سرزمین پر وزیرِ خارجہ کون ہوگا:
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیّار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش