ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں
23مئی 2005نماز عصر کا وقت تھا والد گرامی عبدالکریم عابد معمول کے مطابق اپنا کالم یا تجزیہ لکھ رہے تھے اور وہ اپنی یہ آخری تحریر مکمل نہیں کرسکے تھے کہ وہ رب کے حضور پیش ہوگئے۔موت برحق ہے مجھ سمیت سب کو ہی دنیا سے اپنے اپنے وقت کے مطابق جانا ہے،مگر کچھ شخصیات بالخصوص والدین کی جدائی یا رخصتی کا احساس دکھی کردیتا ہے۔مجھے یا د ہے کہ میرے والد گرامی ہمیشہ اپنی اس خواہش کا اظہار سب گھرو الوں سے کیا کرتے تھے کہ جب دنیا سے میری رخصتی کا وقت ہو تو میرا آخری عمل میری تحریر ہو او رمیرے ہاتھ میں قلم ہو۔ اللہ تعالی نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا او روہ عملاً لکھتے لکھتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ میرے والد گرامی عبدالکریم عابد محض میرے لیے باپ ہی نہیں تھے بلکہ ان کی عملی حیثیت ایک ایسے فرد کی تھی جو اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔
والد گرامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بطور اخباری کارکن سے ملک کے کئی قومی اخبارات، رسائل کا انھیں مدیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا تھا جن کو سب سے زیادہ اخبارات و رسائل کے مدیر ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان کے بعض صحافتی دوست ان کو ’’ ایڈیٹروں کا استاد ‘‘ کہا کرتے تھے۔ والد گرامی کا مطالعہ وسیع تھا او راہم بات یہ تھی کہ ان کی بڑی خوبی اپنی سوچ، فکر، نظریہ او رخیالات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی فکر اور سوچ کا مطالعہ تھا۔وہ ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ اگر تم اپنی سوچ اور فکر کو پختہ کرنا چاہتے ہو او راس کی گہرائی کے ساتھ درست سمت میں سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے متبادل علمی و فکری مطالعہ بھی ضرور کیا کرو۔ والد گرامی کی سوچ اور فکر دائیں بازو کی سوچ او رفکر سے جڑی ہوئی تھی اور اسی سوچ او رفکر کی بنیاد پر انہوں نے خوب لکھا مگر کوشش کی کہ ان کی تحریر کسی بھی طرح کے تعصب، تنگ نظری اور نفرت سے پاک ہو۔یہی وجہ ہے کہ ان کی صحافتی یا ذاتی دوستیوں میں سب ہی فکر کے لوگ شامل تھے اور بالخصوص بائیں بازو کے بڑے بڑے ناموں سے ان کی دوستی او رمحبت کمال کی تھی۔
میں جب خود پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو میری زندگی کا بڑا اثاثہ میرے والد گرامی ہی تھے۔ ان ہی سے لکھنا او ربولنا سیکھا او ران کی تحریروں کو پڑھ کر بڑا ہوا۔ کئی موضوعات پر ان سے گفتگو ہوتی او رخوب بحث ہوتی مگر ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ بڑے تحمل سے بات کرتے اور بڑی سادگی سے الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھاتے۔ یہ نصیحت ان کی ہمیشہ میرے ساتھ رہی او رآج بھی اسی نصیحت کواپنے سامنے رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ کسی بھی سیاسی، صحافتی یا علمی و فکری مخالف سے اندھی دشمنی کا شکار نہیں ہونا۔ کیونکہ شخصیت پرستی یا اندھی دشمنی کا عمل انسان کو بہت زیادہ کمزور کرتا ہے یا اس کی شخصیت کو دیمک کی طرح ختم کرتا ہے۔اداریہ نویسی او رتجزیہ کاری میں ان کو کمال کا درجہ حاصل تھا، اہم عالمی، علاقائی او رداخلی سیاسی، سماجی، معاشرتی او رمعاشی امور پر ان کی گہری نظر تھی۔جمہوریت، قانون کی حکمرانی، آئینی بالادستی، اسلام او راخلاقی عمل کی جنگ اپنی تحریروں سے آخری دم تک بڑی جرأت او ربہادری سے لڑتے رہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف ان کی لکھی ہوئی تحریریں کمال کی تھیں اور سیاسی و فوجی آمرانہ پالیسیوں پر انھوں نے دوٹوک انداز میں لکھا۔ان کی سوانح عمری ’’ سفر آدھی صدی کا‘‘ ہر صحافی، پاکستان کی تاریخ کے طالب علم، سیاسی اور تحریکی کارکنوں کو لازماً پڑھنی چاہیے۔کیونکہ یہ محض ان کی اپنی سوانح عمری تک محدود نہیں بلکہ ان تمام ادوار کی سیاسی اور صحافت کی تاریخ سے جڑی ہوئی کہانی ہے جو ان کی جگ بیتی پر مبنی ہے۔سوشلزم او رمارکس ازم پر ان کی تحریریں ہر طبقہ میں پڑھی جاتی تھیں اور اور اس سوچ و فکر پر ان کا مطالعہ کافی تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ میں والد گرامی کی رخصتی کے باوجود ابھی تک ان کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتے ہیں او را ن سے جڑی تمام یادوں کو یاد کرکے خوش بھی ہوتا ہوں اورکبھی کبھی تنہائی میں آنکھیں بھیگ بھی جاتی ہیں۔’’کیونکہ یہ میرا یقین ہے کہ دنیا کی بڑی ہی خوبصورت ترین چھت با پ ہی کی ہوتی ہے۔‘‘او ریہ ایک ایسا سایہ ہے جو صرف پھل بھی دیتا ہے او رایک ایسا سایہ بھی جو آپ کو دنیا میں مشکلات سے محفوظ بھی رکھتا ہے۔کیونکہ باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہوتی ہے، سورج گرم ضرور ہوتا ہے مگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھاجاتا ہے۔خود کو عملا اپنے باپ کا مقروض سمجھتا ہوں۔ کیونکہ جو حق ان کا اداکرنا تھا وہ ہم نہیں کرسکے۔ جب ہم بہن بھائی اس پوزیشن میں آئے کہ ہم ان کی زیادہ بہتر خدمت کرسکتے تو وہ دنیا سے چلے گئے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی یہ احساس کافی غالب ہوتا ہے۔ باپ واقعی وہ عظیم ہستی ہے جس کے پسینہ کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کرسکتی۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے والد گرامی کو محض پڑھتے او رلکھتے ہوئے ہی دیکھا۔ کتابوں سے دوستی ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا اور ان کی زندگی کا بیشتر وقت اسی شوق میں گزرا۔ اس کے علاوہ جو وقت بچتا وہ گھر او رکچھ مخصوص دوستوں کے لیے رکھتے تھے۔ والد گرامی کو 35برس کینسر جیسے مرض کا مقابلہ کرنا پڑا۔لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنی اتنی بڑی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا او ربڑی جرأت سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔ان کی اس بیماری کا مقابلہ کرنے میں بڑا کردار میری والدہ صاحبہ کا تھا اسے کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ میرے والد اپنے حوالے سے کافی لاپرواہ تھے او راپنے ذاتی معاملات میں وہ کوئی بڑے اچھے منتظم نہیں تھے۔یہ کام میری والدہ کیا کرتی تھی او راس کا اعتراف میرے والد ہمیشہ والدہ کو خراج تحسین پیش کرکے سراہتے تھے۔
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے کہ مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میرے والد گرامی کی صحافت ایک اصول او رنظریہ کی بنیاد پر تھی اور انہوں نے وہی کچھ لکھا او ربولا جسے وہ سچ سمجھتے تھے۔اگرچہ سب ہی لوگوں کو اپنے والدین جن میں والد گرامی بھی ہیں فخر ہوتا ہے، مگر میرا یہ فخر کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے کیونکہ میں عملا خود کو ان کے بغیر کچھ نہیں سمجھتا۔ آج جو کچھ ہوں او رجو کچھ نام کمایا یا جو لکھا او رپڑھا وہ والدین کی تربیت، تعلیم اور بالخصوص والد کی سوچ او رفکر سے جڑا ہوا ہے۔ آج بھی جب خود کو بہت تنہا محسوس کرتا ہوں یا اداس ہوجاتا ہوں تو یہ والد گرامی کی یاد ہی میرا سہارا بھی ہوتا ہے او ران کی یاد ہی میری طاقت کا سبب ہے۔ والد گرامی نے ایک بھرپور زندگی مسلسل محنت و جدوجہد کی بنیاد پر گزاری وہ مجھ سمیت میرے خاندان او ران کے دوستوں کا فخر بھی ہے او راعزا ز بھی۔زندگی میں انھوں نے کئی مشکل دور دیکھے مگر نہ تو ہمت ہاری او رنہ ہی کسی محرومی کا ماتم کیا۔ ان کے بقول زندگی نے جو کچھ دیا وہ بھی کم نہ تھا۔
والد گرامی نے اپنے ہی بارے میں ایک تحریر لکھی تھی جو پیش خدمت ہے۔
’’ کبھی کبھی میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں، کتنی طویل زندگی خوابوں، (باقی صفحہ 33پر)
خواہشوں، خیالوں میں گزرگئیں۔کتنی ہی آرزوئیں تھیں جو ناتمام رہ گئیں، کتنے نقش تھے جو اجاگر نہ ہوسکے۔کتنے لفظ ان کہے رہ گئے۔ کیسے کیسے لمحے ہاتھوں سے پھسل گئے، کتنے دن بیکار بیت گئے او رکتنے سوچ بے سبب ڈوب گئے۔ مگر اس اس لمبی خالی زندگی میں کچھ جاگتی سوچتی ہوئی راتیں بھی ہیں اور اگر مجھے خود ستائی کے لیے معاف کیا جائے تو کچھ جگمگاتے ہوئے لمحے بھی۔ وہ لمحے جب خد ا نے مجھے سچ لکھنے او رحق پر گواہی دینے کی توفیق عطا کی۔میں ان لمحوں کو یاد کرتا ہوں توبے اختیار ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔ اے سچے رب، جب تک سانسوں کی آواز باقی ہے، جب تک دل سینے میں دھڑکتا ہے،مجھے سچ پر گواہی دینے کی توفیق عطا کر، خواہ میںاس ہجوم میں اکیلا رہ جاوں گا، جس کی آنکھیں معلوم نہیں کھلیں گی۔‘‘