اسلامی تمدن میں آئینی بحران

زیر نظر کتاب ’’اسلامی تمدن میں آئینی بحران‘‘ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی کی عربی کتاب ’’الازمۃ الدستوریۃ فی حضارۃ الاسلامیۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جو ڈاکٹر محی الدین غازی حفظہ اللہ نے بڑی محنت سے کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی اسلامی دنیا کے ممتاز سیاسی مفکر و محقق ہیں، آپ اس وقت حماد بن خلیفہ یونیورسٹی میں تقابلِ ادیان اور سیاسیات کے استاد ہیں۔ ان کا اصلی وطن موریتانیا ہے۔ دینی علوم وقت کے بڑے علما سے حاصل کیے۔ عربی، انگریزی اور فرنچ زبانوں کے ماہر ہیں۔ قدیم و جدید سیاسی لٹریچر پر عبور ہے۔ ٹیکساس یونیورسٹی امریکہ سے تاریخِ ادیان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ فلسفۂ مذہب اور فلسفۂ سیاسیات علمی کاوشوں کے خاص موضوعات ہیں، جبکہ پالیسی اور اسٹریٹجی ذہنی جولانی کے خاص میدان ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں الخلافات السیاسیۃ بیں الصحابۃ (صحابہ کے درمیان سیاسی اختلافات)، اثر الحروب الصلیبیۃ علی العلاقات السنیۃ الشیعیۃ (سنی شیعہ تعلقات پر صلیبی جنگوں کے اثرات)شامل ہیں۔ بیسویں صدی کے بہترین مسلم دماغ اور فلسفیِ قرآن محمد عبداللہ دراز وغیرہ ہیں۔ عالم اسلام کی سیاسی اصلاح کی تحریک کے علَم برداروں میں ڈاکٹر شنقیطی کا نام معروف ہے۔

مترجم کتاب ڈاکٹر محی الدین غازی جماعت اسلامی ہند کے مشہور مدرسہ جامعۃ الفلاح (اعظم گڑھ) سے فارغ التحصیل ہیں، اسلامی شریعت میں چار سالہ تخصص اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ سے کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ دارالشریعۃ دبئی سے وابستہ رہ کر اسلامی مالیاتی اداروں کی رہنمائی اور اسلامی مالیات میں بحث و تحقیق کا کام کیا۔ جامعہ اسلامیہ شانتاپرم کیرالا بھارت میں قرآن فیکلٹی کے ڈین کی حیثیت سے قرآن اور علومِ قرآن کی تدریس کا کام کیا۔ انہوں نے ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘، ’’رہنمائے ترجمہ قرآن‘‘، ’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘، ’’عقل کی تربیت قرآن کی روشنی میں‘‘، اور ’’قرآن مجید کا پیغام عمل‘‘ سمیت متعدد کتابیں اور سیکڑوں کی تعداد میں فکری مقالات اور اصلاحی مضامین تحریر کیے۔

ڈاکٹر محی الدین غازی حفظہ اللہ اس کتاب کے متعلق ’’انقلاب کی فکری رسد‘‘ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کا ترجمہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مترجم اس کے حرف حرف سے متفق ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ اس کتاب سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ اس کے نزدیک یہ ایک عظیم مشن ہے، جس میں معمولی سی شرکت کو بھی وہ اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہے۔ مشن کے بنیادی نکتے پر اتفاق کے بعد اگر تفصیلات میں کچھ اختلاف ہو تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

یہ کتاب اسلامی سیاسیات کا تعارف ہے، اسلامی سیاسی افکار کا جائزہ ہے، اسلامی سیاسی تاریخ کا پوسٹ مارٹم ہے، اسلامی سیاسی نظام کی وکالت ہے، سیاسی حکمت عملی کا بیان ہے، مشرق و مغرب دونوں کے سیاسی ماضی سے سبق آموزی ہے، اسلامی دنیا کے لیے امید افزا سیاسی مستقبل کی پیش بینی ہے، نیز اس میں ایسی اور بہت سی چیزیں ہیں جنہیں آپ اسلامی سیاسیات کے حوالے سے پڑھنا چاہیں گے۔ اس کتاب میں اسلامی سیاسی لٹریچر اور مغربی سیاسی لٹریچر دونوں کے دریا روانی سے بہتے نظر آتے ہیں، اور دونوں میں جابجا حسین سنگم بھی ہوتا ہے۔ مصنف علم کی دونوں دھارائوں سے سیراب ہوتا اور دونوں پر نقد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خالص اقدار پر مبنی سیاسی تصور کی علَم بردار ہے۔ اسلامی نظامِ اقدار سے متصادم کسی بات کو اسلامی سیاسی نظام کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ مصنف سیاسی اقدار کو مستقل اقدار کی حیثیت سے قبول کرنے کا داعی ہے، کہ یہی ان کا صحیح مقام ہے۔ وہ انہیں حصولِ اقتدار کے وسیلے کے طور پر اختیار کرنے سے سخت انکاری ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے فکری غذائیت اور ذہنی ریاضت کا صحت بخش احساس ہوتا ہے۔ کوئی بات عقل و منطق کے خلاف معلوم نہیں ہوتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے عقل پر پڑے تالوں کے کھٹ کھٹ کھلنے کی آوازیں آتی ہیں۔ جگہ جگہ دل کی حرکت رکتی ہوئی اور دماغ کی سرعت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

اس کتاب میں مصنف نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، اس نے اسلامی سیاسی نظام کے خدوخال اس طرح پیش کیے کہ اسے پورے اعتماد کے ساتھ انسانی دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے معاشی نظام اور معاشرتی نظام کے ساتھ تو یہ بات تھی لیکن اسلامی سیاسی نظام میں اب تک کچھ ایسا تھا کہ اسے پردے میں رکھنا ہی قرین مصلحت سمجھا جاتا تھا۔

شنقیطی کے یہاں معرفت و جرأت کا زبردست امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات جرأت سے رکھتا اور معرفت کے پیکر میں پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالعہ بہت وسیع اور اس کا تجزیہ بہت مضبوط ہے۔ وہ نہ کمزور دعوے پر راضی ہوتا ہے اور نہ کمزور دلیلوں پر۔ وہ روایتی تصورات پر ضربیں لگاتا ہے اور اس کے لیے مضبوط روایتوں کا سہارا لیتا ہے۔

شنقیطی نے بہت سے اشخاص و افکار پر تنقید کی ہے اور اس طرح سب کو اپنے اوپر تنقید کی دعوت دے ڈالی ہے۔ اس نے اس ایک کتاب میں متعدد اجتہادات پیش کیے ہیں، اچھی خاصی دریافتیں درج کی ہیں اور بے شمار موضوعات پر مباحثے کے لیے ایندھن فراہم کردیا ہے۔

یہ کتاب اپنے استناد اور حوالوں کے اعتبار سے اعلیٰ اکادمی درجے پر فائز ہے، تاہم مصنف کا ہدف اسے عوامی مشن کی رہ نما کتاب بنانا ہے۔ مصنف کے لیے اسلامی سیاسی نظام علمی موضوع بھی ہے اور عملی مشن بھی ہے، اس لیے اس کتاب میں اعلیٰ درجے کی تحقیق بھی ہے اور قوی اسلوب کی تبلیغ بھی ہے۔ اس طرح یہ کتاب علمی پہلو سے وسیع و عمیق، فکری نوادرات سے مالامال، استدلال کے معاملے میں طاقتور اور صوتی لحاظ سے بلند آہنگ ہے۔

اس کتاب کی تصنیف کا محرک مصنف کا یہ ادراک ہے کہ ’’اسلامی تمدن کو اپنے قدیم آئینی بحران سے نکلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک طاقتور فکری شرارہ ہے، جو موروثی سلطانی فقہ کی چھت میں چھید کردے اور ایک نیا اخلاقی نقشہ پیش کرکے مسلمانوں کے سامنے مستقبل کے افق کھول دے۔ کیوں کہ طاقتور فکری شرارے اور بالیدہ ثقافتی اور اخلاقی خمیر کے بغیر انقلابات کامیاب نہیں ہوتے، بلکہ ایک تباہ کن جنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ انہدام کے معرکے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو تعمیر کے معرکے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور اس طرح قوموں کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں‘‘۔

میرے اندازے کے مطابق اسلامی سیاسیات پر یہ اب تک کی آخری کتاب ہے، اور اس سے آگے کی کتاب لکھنے والے کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اسلامی سیاسی نظام کے لیے کوشاں تحریکوں کے لیے یہ زبردست فکری رسد ہے۔ سیاسی انقلابی تحریکوں کو اگر جذبات، وسائل اور امکانات کے ساتھ بھرپور فکری غذا اور صحیح راستوں کی رہنمائی نہ ملے تو وہ بے سمتی کا شکار ہوسکتی ہیں اور کسی سخت چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوسکتی ہیں۔ بسا اوقات ان کی کیفیت سمندر کی طاقتور موج کی طرح ہوتی ہے جو ساحل پر پہنچ کر اپنی طاقت کھو دیتی ہے اور جھاگ بن کر ناکام و شکستہ پیچھے لوٹ جاتی ہے۔

میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتا ہوں، اس احساس کے ساتھ کہ اس اہم کتاب کے ترجمے کے لیے میرا انتخاب اور اس کام کی تکمیل اس کی خاص توفیق سے ہوئی‘‘۔
ڈاکٹر شنقیطی نے مقدمہ کتاب کو جس عنوان سے شروع کیا ہے وہ ہے ’’امامت کی شمیر بے نیام‘‘۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ اسلامی تمدن کے آئینی بحران کے سلسلے میں ایک مطالعہ ہے۔ اس کا معیار اسلامی نصوص ہیں۔ اس کا موضوع اسلامی تاریخ کے تجربات ہیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو ان کے آئینی بحران سے باہر نکالنا ہے۔ اسلامی تمدن کے آئینی بحران سے مراد وہ بڑا فاصلہ ہے جو اسلام کے سیاسی اصولوں اور مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں پایا جاتا ہے، جس تاریخ کے کڑوے پھل ابھی تک اس کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ نیز وہ شدید سیاسی کشمکش بھی، جو اس بڑے فرق کے نتیجے میں، پہلی صدی ہجری کے وسط سے لے کر اب تک اسلامی تمدن کی پوری تاریخ میں برپا رہی ہے۔

اس فرق نے مستقل تنائو کی کیفیت اختیار کرلی۔ ایک طرف نص سے ثابت شدہ اصول کے تقاضے تھے، اور دوسری طرف اس صورت حال کا بھاری بوجھ تھا جو اس اصول سے ہم آہنگ نہ ہوسکی یا اس سے نبرد آزما رہی۔ نص سے ثابت شدہ اصول اور عملی سیاسی صورت حال کے درمیان اس بڑے فرق اور شدید تنائو کی وجہ سے سیکڑوں برسوں سے اسلام کا جسم شدید تکلیف سے دوچار رہا اور مسلم ضمیر کے نہاں خانے میں بدشگونی سرایت کرگئی۔ مبالغہ نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ اسلامی تمدن کے تمام مظاہر (بشمول خودی کا شعور اور دیگر سے رشتہ)، آغازِ اسلام سے لے کر موجودہ زمانے تک اس کو لاحق آئینی بحران سے پوری طرح متاثر رہے اور اسی کے رنگ میں رنگ گئے۔ اس لیے ہم نے اسے محض سیاسی نظام کا بحران نہیں بلکہ تمدن کا بحران قرار دیا ہے۔ اس مطالعہ کے پیش لفظ میں یہ تلخ حقیقت اجاگر کی گئی ہے کہ امامت کی شمشیر بے نیام صدیوں سے امتِ مسلمہ کی گردن پر رکھی ہے اور اس کا اختتام امید کی کرن دکھاتا ہے کہ یہ تلوار نیام میں لوٹ سکتی ہے، شرط بس یہ ہے کہ مسلمان اس تاریخی موقع کو خوبی سے اپنے حق میں کرلیں، نیز مرض کی تشخیص اور دوا کی تجویز میں درست ترین رویہ اختیار کریں۔

یہ مطالعہ پیش لفظ اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ہر حصے میں دو فصلیں ہیں۔ آخر میں خاتمہ ہے۔ اگر مطالعہ کی تینوں قسموں کو سامنے رکھیں تو سادہ لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے حصے کا موضوع اسلام کی سیاسی نص ہے، دوسرے حصے کا موضوع اسلام کی سیاسی تاریخ، اور تیسرے حصے کا موضوع اسلام کے سیاسی بحران سے نکلنے کے راستے کی جستجو ہے۔ پہلی سرخی ہے ’’امیر پر حکومت‘‘، دوسری سرخی ہے ’’مشورے کے بغیر امارت‘‘، اور تیسری سرخی ہے ’’خروج بطور شرعی ضرورت‘‘۔ پہلی اور دوسری تعبیر نبوی سنت کی نصوص سے ماخوذ ہے، جب کہ تیسری تعبیر مسلمانوں کی اضطراب زدہ سیاسی تاریخ کے ساتھ فقہی پریشان حالی سے ماخوذ ہے۔ شاید مسلمانوں کے سیاسی ماضی اور حال کی بالکل صحیح عکاسی یہ ہے کہ دونوں ایک مستقل کشمکش میں مبتلا رہے، جو ’’امیر پر حکومت‘‘ اور ’’مشورے کے بغیر امارت‘‘ کے درمیان ہے۔ اول الذکر کی حیثیت اصول کی ہے، تو موخر الذکر کی حیثیت استثنا اور تقاضائے ضرورت کی ہے۔ یہ کشمکش ہی وہ توضیحی ماڈل ہے جو آغاز تا اختتام اس مطالعہ کا رخ طے کرتا ہے‘‘۔

یہ ضخیم کتاب اس قابل تھی کہ اس کا تفصیل سے تعارف کرایا جائے، جگہ کی قلت آڑے آتی ہے، ویسے بھی تعارف کافی نہیں ہوگا، ضرورت ہے اصل کتاب کا مطالعہ کیا جائے اور اپنی رائے بنائی جائے۔ پہلے حصے میں دو فصلیں ہیں۔ فصل اول: سیاسی تشکیل کی قدریں، فصل دوم: سیاسی عمل کی قدریں۔ دوسرے حصے میں فصل سوم: شاہی سلطنتوں کی سرحدوں پر ایک خلا۔ فصل م: اللہ کی کتاب اور عہدنامہ اردشیر۔ تیسرے حصے میں فصل پنجم: فتنہ سے انقلاب تک۔ فصل ششم: قدروں سے طریقہ کار کی طرف۔ آخر میں خاتمہ: حکومت کی تلوار نیام میں لوٹائی جائے
تحریک اسلامی کے ہر فرد کو اس کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنی رائے بنانی چاہیے۔