ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ لاہور اور اُس کی خصوصی اشاعتیں

مجلہ ’’سیارہ‘‘ کا آغاز اگست ۱۹۶۲ء میں بطور ایک ماہنامہ مولانا نعیم صدیقی کی زیرادارت میں ہوا۔ اس کاآغاز بطور ایک ادبی مجلہ کے تھا لیکن خالص نظریاتی اور اسلامی ادب کی ترویج و ترقی کے لیے بھرپور کوشش کرنا اس کا بنیادی مقصد تھا۔ اسلامی ادب سے مراد ایسا ادب جس میں اسلامی تعلیمات کو ادب کی چاشنی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ایسا ادب جس کے ذریعے خیرسے محبت اور شر سے نفرت کی ترغیب ملے جو کہ امر بالمعرو ف و نہی عن المنکر کا پیکر ہو۔ اس میں فحاشی و عریانی اور دیگر اخلاقی برائیاں کاشائبہ تک نہ پایا جائے۔
مولانا نعیم صدیقی معروف عالم دین، ادیب، شاعر، محقق، نقاد اور تحریکِ اسلامی کے علمبردار تھے۔ انھوں نے اس مجلہ کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی تفہیم وتشریح کو نہ صرف ادبی انداز میں پیش کیا بلکہ ادب کی اسلامی حیثیت اور ادبی اقدار کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس رسالے کی اشاعت سے اسلامی ادب کی تحریک کو بے حد تقویت ملی۔
’’سیارہ‘‘ کے پہلے شمارہ میں مولانا نعیم صدیقی اپنے اداریہ بعنوان ’’آغاز‘‘ میں اس کی اشاعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آغاز اس کے نام سے جس کا فیضانِ تجلی اگر نہ ہو تو قلبِ انسانی میں کوئی موجِ خیال پیدا نہ ہو،… اور پیدا ہو تو دامنِ موج میں کوئی گوہرِ تابدار نہ ہو۔‘‘
… ’’ادب میں پہلے بھی جو کام کیا وہ بطور ایک فرض، ایک مشن کے کیا۔ ایک شرگشتگی شوق تھی اور ایک وارفتگی عشق! جذبہ بے تاب یہ دیا کہ حقائق کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ ایسے خیالات اور جذبات آراستہ کیے جائیں اور کرداروں کا انتخاب کرکے اس انداز میں دیکھا اور دکھایا جائے کہ ادبی کاوش انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بن سکیں۔‘‘…
…’’کچھ کرنے کا جذبۂ بے تاب ہمیشہ دل میں موجزن رہا: اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کیا بھی۔ جو کچھ کیا وہ اگر بہت اچھا نہ تھا تو شاید برا بھی تھا۔… ’’سیارہ‘‘ کا اجازت نامہ اچانک ملا، مہلت کار کم تھی، الف با سے کام کا آغاز کرنا تھا۔ ایسے ہوا گویا ایک مسافق لق و دق صحرا میں تن تنہا، جنون کا ارادہ لے کے نکل کھڑا ہو۔ کاتبوں اور بلاک میکروں کی منتیں، لکھنے والوں کی ناز برداریاں، پریس والوں کی بارگاہوں کا طواف، سرکاری دفتروں کی گردش، غرض یہ کہ یک جان و صد آزار کی صورت! تمنا یہ کہ اچھے سے اچھا مواد جمع ہو اور بہتر سے بہتر پیرائیہ اشاعت۔‘‘
مجلہ ’’سیارہ‘‘ کی اشاعت پر ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے شمارہ ستمبر ۱۹۶۲ء میں فاضل مبصر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’مقامِ شکر ہے کہ اُنھوں [نعیم صدیقی] نے اپنی خداداد صلاحیتیں مجتمع کرکے انھیں ایک نہایت ہی اچھی راہ پر لگا دیا ہے۔ ’’سیارہ‘‘ کے ابھی صرف دو پرچے ہمارے سامنے ہیں۔ ان کے دیکھنے سے مستقبل کے متعلق نہایت اچھی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ پاکیزہ احساسات اور شریفانہ جذبات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنے کی یہ کامیاب کوشش ہر طرح کے تعاون کی پوری طرح مستحق ہے۔‘‘
مجلہ ’’سیارہ‘‘ ایک ادبی رسالہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی رسالہ تھا۔ اس رسالے نے اپنے بنیادی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی طور پر جو اہداف حاصل کیے اُن میں ایک ادبی رسالہ ہونے کے ناطے سے اس میں حمدونعت، نظم و غزل، افسانے، انشائیے، ناول، ناولٹ، سفرنامے و دیگر ادبی مواد شائع کیا گیا، لیکن خاص طور پر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر ادبی انداز میں پیش کیا گیا۔ علامہ اقبال کی سوانح، فکر اور شاعری کی تشریح و تفہیم کو بھی خاص طور پر اس رسالے میں شائع کیا جاتا رہا۔ معاشرتی، ملکی و غیرملکی اور ادبی مسائل و مباحث کو سامنے لانے کے لیے اہم شخصیات کے انٹرویوز کو شائع کرنا شروع کیا جو کہ ایک نئی روایت تھی۔اس حوالے سے ابتدائی شماروں میں شاہد احمد دہلوی، غلام حسین اظہر، انتظار حسین، مرزا ادیب، عبداللہ حسین، اے ڈی اظہر کے تفصیلی انٹرویوز شائع کیے گئے۔ اس رسالے کے اپنے مقاصد میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعمیر فکر اور اصلاح معاشرہ اہم حیثیت رکھتے تھے۔
مولانا نعیم صدیقی کے تفصیلی اداریے اور مضامین اس بات کے شاہد ہیں۔ فاضل مرتب تمام نگارشات اسلامی تعلیمات کی اصل روح کو مدنظر رکھتے ہوئے ادبی انداز میں شائع کرتے۔ اُنھوں نے ادب میں فحاشی اور بے راہ روی پر مشتمل نگارشات اور اشتہارات کو قطعاً شامل نہیں کیا۔ رسالے میں دیگر ادبی لوازمے کے علاوہ اس کے مختلف شماروں میں شخصیات کے حوالے سے گوشوں کا اہم التزام کیا۔ جس میں مختلف اہلِ علم و قلم کی زندگیوں اور علمی خدمات پر بہت سا مواد پیش کیا جاتا۔
دورِ اوّل:
دورِ اوّل: ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ کا دورِ اوّل جو کہ اگست ۱۹۶۲ء تا دسمبر ۱۹۷۱ء مشتمل ہے۔ اس دوران اس رسالے کے ۱۱۴؍ شمارے شائع ہوئے جن میں دس خصوصی اشاعتیں بالترتیب ’’اقبال نمبر‘‘، ’’اشاعتِ خاص‘‘، ’’بیادِ ۶؍ستمبر۱۹۶۵ء‘‘، ’’کشمیر و یروشلم نمبر‘‘، ’’جہادِ ستمبر نمبر‘‘، سفرِ حجاز نمبر‘‘، ’’عبدالعزیز خالد نمبر‘‘ شامل تھے۔ اس دور میں یہ رسالہ باقاعدگی کے ساتھ ہر ماہ شائع ہوتا رہا۔ ان شماروں کے صفحات کی تعداد کم از کم ۶۶ اور زیادہ سے زیادہ ۲۵۲ رہی، لیکن عبدالعزیز خالد نمبر تین حصوں میں کل ۱۲۹۲ صفحات پر مشتمل تھا۔ ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ کے دورِ اوّل میں مولانا نعیم صدیقی نے ادارت کی مکمل ذمہ داری احسن انداز میں نبھائی۔
دورِ دوم:
اگست ۱۹۷۱ء کا شمارہ شائع ہونے کے بعد اس رسالہ کی اشاعت تعطل کا شکار ہوگئی۔ اور جون ۱۹۷۶ء اس رسالے کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اس دور میں مجلس ادارت کے عنوان سے نعیم صدیقی، فضل من اللہ، پروفیسر فروغ احمد، طاہر شادانی اور حفیظ الرحمن احسن کے نام شامل تھے۔ دوسرے دور اس رسالے کی اشاعت ماہنامہ کی بجائے ’’سہ ماہی اشاعتِ خاص‘‘ کے عنوان سے ہونے لگی۔ لیکن بعد میں سہ ماہی بھی نہ رہی اور وقتاً فوقتاً شمارہ شائع ہوتا رہا۔ دوسرے دور کے پہلے شمارے میں پر مدیر منتظم فضل من اللہ نے اس کی اشاعت میں بارے میں یوں لکھا:
’’جون ۱۹۷۶ء سیارہ کے نئے درخشاں دور کا آغاز، نیانظامِ ادارت، نئے انتظامات، نیا عزم، نئی اُمنگیں… اور درمیان میں سات سُونے سال…؟؟ ایسا لگتا ہے کہ خود پر ’’اصحابِ کہف‘‘ والی واردات گزر گئی ہے۔ دنیا بدل چکی ہے، لیکن ایک بات جو ہمت اور حوصلہ دیتی ہے وہ ہے ہمارا مقصد ادب میں فلاحی اور تعمیری اقدار کو ابھارنا۔‘‘
دورِ دوم میں ’’سیارہ‘‘ کی اشاعت کا وقفہ غیرمعین ہوگیا لیکن رسالے کی اشاعت ضخیم اشاعتوں کی صورت میں کی جانے لگی۔ دورِ دوم سے ہر شمارہ کا ماہ و سال اور جلد شمارہ لکھنے کے علاوہ مسلسل نمبر بھی درج ہونا شروع گیا ہے۔ دورِ دوم کا شمارہ نمبر ایک (جلد۳۰ شمارہ۶) جون ۱۹۷۶ء میں سامنے آیا، اس کے صفحات کی تعداد ۳۰۲ تھی۔ اس کے بعد ہر شمارہ کثیر صفحات پر مشتمل شائع ہوتا رہا ہے۔
اس دوران رسالے کی مجلس ادارت مولانا نعیم صدیقی کے علاوہ پروفیسر فروغ احمد، طاہر شادانی، حفیظ الرحمن احسن شامل تھے، جب کہ انتظامی اُمور کی ذمہ داری فضل من اللہ انتظامی کے سپرد تھی ، فضل من اللہ ۱۹۸۴ء میں انتظامی اُمور الگ ہوگئے اور یہ ذمہ داری حفیظ الرحمن احسن نے سنبھال لی۔
۱۹۹۷ء کے مسلسل شمارہ نمبر ۴۳ کے جناب نعیم صدیقی نے اپنی علالت اور دیگر وجوہات کی بنا پر رسالے کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوتے ہوئے تما م تر ذمہ داری حفیظ الرحمن احسن کے سپرد کردی، جن کے معاونین میں طاہر شادانی اور خالد علیم شامل تھے۔ انھوں نے آخر تک رسالے کی باگ دوڑ سنبھالتے ہوئے اس کے علمی و ادبی معیار کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ ۲۰۱۲ء میں مسلسل نمبر ۵۸ شائع ہوا جو کہ جلد ۴۹، ۴۸ (ستمبر ۲۰۱۱ء تا مارچ ۲۰۱۲ء) پر مشتمل تھا، اس کے کل صفحات کی تعداد ۵۷۶ تھی۔
مجلہ ’’سیارہ‘‘ نے نہ صرف قدیم مصنّفین کے حلقہ احباب کو وسعت دینے میں اہم کردار کیا بلکہ بہت سے نئے لکھنے والوں کو بھی متعارف کروایا۔ اس رسالے میں جن ادبا کی نگارشات شائع کی جاتی تھیں، ان میں ماہر القادری، عبدالماجد دریابادی، اسرار احمد سہاروی، رفیع الدین ہاشمی، خورشید رضوی، عبدالصمد صارم، عبدالعزیز خالد، احمد سجاد، مولانا فضل معبود، ڈاکٹر عبدالمغنی، آباد شاہ پوری، عبدالغنی فاروق، مظہر معین، وارث سرہندی، حفیظ الرحمن، احسن، ڈاکٹر صدر الحق، ادیب سہارنپوری، ابن فرید، ابوالمعانی، فضل من اللہ، انور محمود خالد، آغا صادق، پروفیسر خورشید احمد، رشید حسن خان، جعفر بلوچ، مسعود جاوید، محمود فاروقی، آسی ضیائی، گوہر ملیسانی، رؤف انجم، غلام حسین اظہر ، احسان دانش اور محمد عبداللہ قریشی … وغیرہ کے نام نامی شامل ہیں۔
’’سیارہ‘‘ مخصوص فکر اور مخصوص مزاج کا ایک نظریاتی ادبی رسالہ ہے جس نے ادب کے ذریعے انسانی خیالات و رویوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے اپنی کامیاب سعی کی ہے۔ ادب کی تمام اصناف کے حوالے سے اس رسالے نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حمد و نعت کی صنف کو دیگر ادبی جرائد صرف ایک ناگزیر ضرورت کے تحت قبول کرتے ہیں لیکن مجلہ ’’سیارہ‘‘ نے اپنے پہلے شمارے ہی سے حمدو نعت کی اشاعت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنایا۔ برصغیر پاک وہند کے نامور شعرا کا حمدونعت پر مبنی کلام اس رسالے میں جابجا پیش کیا گیا ہے۔
تبصرہ کتب کسی بھی رسالے کا ایک اہم گوشہ شمارہ ہوتا ہے۔ مجلہ ’’سیارہ‘‘ میں ’’کتاب نامہ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی تبصرہ و تعارفِ کتب تقریباً ہر شمارے میں شائع ہوتا رہا۔
مجلہ ’’سیارہ‘‘ کے بانی و مدیر مولانا نعیم صدیقی کے ساتھ ساتھ اس رسالہ کی ادارت پروفیسر فروغ احمداور حفیظ الرحمن احسن صاحبانِ علم وفضل شامل رہے۔ جب کہ ایک عرصہ تک مدیر انتظامی کے فرائض فضل من اللہ سنبھالتے رہے۔ معاونین میں طاہر شادانی ، طارق ہاشمی، خالد علیم، زکی زاکانی وغیرہ شامل رہے۔
خصوصی اشاعتیں
مجلہ ’’سیارہ‘‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے اپنے غیرمعمولی خاص نمبروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری و ساری رکھا۔ دورِ اوّل جو کہ اگست ۱۹۶۲ء تا دسمبر ۱۹۷۱ء پر محیط ہے اس دوران چھ خاص نمبر اور ایک ’’اشاعتِ خاص‘‘ شائع ہوئی، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
اشاعتِ خاص: ستمبر ۱۹۶۵ء، صفحات: ۲۵۲
۱- اقبال نمبر… مئی ۱۹۶۳، صفحات: ۲۴۶
۲- بیاد ۶؍ستمبر… ستمبر ۱۹۶۶ء، صفحات: ۹۲
۳- کشمیرو یروشلم نمبر… ستمبر ۱۹۶۷ء، صفحات: ۲۰۰
۴- جہادِ ستمبر نمبر… ستمبر ۱۹۶۶ء، صفحات: ۱۷۲
۵- سفرِ حجاز نمبر… جنوری ۱۹۶۹ء، صفحات: ۱۱۲
۶- عبدالعزیز خالد نمبر (تین حصے)… مئی+ جون ۱۹۶۹ء، کل صفحات: ۱۲۹۲
مجلہ ’’سیارہ‘‘ کے دورِ دوم جس کا آغاز اکتوبر ۱۹۷۶ء سے ہوا۔ دورِ دوم کے بعد سے اخیر تک جو خاص نمبر اور خاص اشاعت شائع ہوئیں اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۷- اقبال نمبر… فروری ۱۹۷۸ء، صفحات: ۴۴۸
۸- سیّد مودودی نمبر… اپریل ۱۹۸۰ء، صفحات: ۸۰۰
۹- افغانستان نمبر… ستمبر ۱۹۸۱ء، صفحات: ۴۲۰
۱۰- اشاریہ نمبر… جنوری ۱۹۸۸ء، صفحات: ۵۸
۱۱- اقبال نمبر… جون ۱۹۹۲ء، صفحات: ۴۹۶
۱۲- پروفیسر فروغ احمد نمبر… ستمبر ۱۹۹۵ء، صفحات: ۳۴۶
۱۳- صبا اکبر آبادی… مارچ ۱۹۹۶ء، صفحات: ۱۵۲
سالنامے:
(۱) اگست ۱۹۸۳ء، صفحات: ۳۵۶
(۲)ستمبر ۱۹۸۶ء، صفحات: ۵۱۶
(۳)ستمبر ۱۹۸۷ء، صفحات: ۴۶۶
(۴)جنوری ۱۹۸۹ء، صفحات: ۴۹۲
(۵) مئی ۱۹۹۰ء، صفحات: ۵۵۶
(۶) دسمبر ۱۹۹۱ء، صفحات: ۶۳۶
(۷)جنوری ۱۹۹۳ء، صفحات: ۵۳۴
(۸)فروری ۱۹۹۴ء، صفحات: ۴۶۴
(۹)دسمبر ۱۹۹۵ء، صفحات: ۳۹۸
(۱۰)مارچ ۱۹۹۷ء، صفحات: ۲۳۲
(۱۱)مئی ۱۹۹۸ء، صفحات: ۲۸۶
(۱۲)جون ۲۰۰۰ء، صفحات: ۴۳۲
(۱۳)نومبر ۲۰۰۱ء، صفحات: ۲۵۶
(۱۴)دسمبر ۲۰۰۲ء، صفحات: ۲۸۴
(۱۵) اگست ۲۰۰۴ء، صفحات: ۳۲۲
(۱۶) دسمبر ۲۰۰۴ء، صفحات ۳۲۸
(۱۷) دسمبر ۲۰۰۵ء، صفحات: ۴۸۴
(۱۸)مارچ ۲۰۰۷ء، صفحات: ۴۴۶
(۱۹) اگست ۲۰۰۸ء، صفحات: ۴۴۲
(۲۰) جنوری ۲۰۱۰ء، صفحات: ۴۲۶
(۲۱) ستمبر ۲۰۱۱ء، صفحات: ۵۷۶
ان خاص نمبروں کے علاوہ مولانا سیّد مودودی، مولانا ماہر القادری، مرزا غالب، بیادِ ستمبر، سانحہ امریکہ، میر تقی میر، المیہ مشرقی پاکستان، ادیب اور نظریہ ادب، سانحہ ۸؍اکتوبر… اور بہت سی دیگر شخصیات اور موضوعات پرخصوصی گوشوں کا اہتمام کرنا بھی ’’سیارہ‘‘ کی خاص روایت رہی۔
مجلہ ’’سیارہ‘‘ نے اپنے مجموعی عرصہ اشاعت اگست ۱۹۶۲ء تا ۲۰۱۲ء تک کل ۱۷۲ شمارے شائع کیے، جن میں ۱۳ (موضوعاتی) خاص نمبر، ۲۳ سالنامے اور ۳۱؍ ضخیم خاص اشاعتیں شائع ہوئیں۔ ان شماروں کے صفحات کی کل تعداد ۳۲۰۰۰ کے قریب ہے۔ [بشکریہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ لاہور]
نوٹ: ’’سیارہ‘‘ کے خصوصی نمبر۵۸ [۲۰۱۲ء] شائع ہونے کے اس کی اشاعت بند ہوگئی تھی، لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق خالد علیم اس کی دوبارہ اشاعت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔