نواں باب
بہت سارے کسانوں کو، زیادہ آمدنی مویشیوں پرسرمایہ کاری کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔جیسا کہ مرغیاں، بکریاں، اور گائیں، کہ یہ پروٹین کی فراہمی کے بہترین ذرائع ہیں، دودھ اور انڈوں کی فروخت سے زیادہ کیش بھی کمایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک خوش کن خیال ہے کہ جس سے کسی کوبھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔
مگریہ ایک معمہ ہے: کہ جب لوگوں کی آمدنی بڑھتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ ایسے کام کرتے ہیں کہ جن سے کاربن اخراج میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جدتوں کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں کے طرز زندگی میں بہتری آسکے، اور اس طریق پرآسکے کہ بدلتے موسم میں کسی خرابی کا سبب بھی نہ بنے۔
ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ، غریب ترین لوگ کہ جن کا ماحولیاتی تباہی میں کوئی کردار نہیں ، وہی سب سے زیادہ بدلتے موسم کی زدمیں آرہے ہیں۔ موسم کچھ اس طور بدل رہا ہے کہ نہ صرف امریکا یورپ کے خوشحال کسانوں کے لیے مسئلہ بن رہا ہے، بلکہ افریقا اور ایشیا کے غریب کسانوں کے لیے مہلک بھی ہے۔
جوں جوں موسم گرم ہورہا ہے، قحط اور سیلاب بڑھتے جارہے ہیں، فصلیں اجڑرہی ہیں۔ مویشی کم خوراکی کی زدمیں ہیں اورکم پیداوار دے رہے ہیں۔ مٹی اور ہوا سے نمی رخصت ہورہی ہے۔ پودوں کے لیے پانی کم دستیاب ہے۔ جنوبی ایشیا اور صحرائے افریقا میںکروڑوں ایکڑقابل زراعت اراضی خشک بنجر ہورہی ہے۔ فصلیں کھانے والے کیڑوں کوجیسے جیسے موافق ماحول میسر آرہا ہے، زیادہ سے زیادہ فصلیں بربادہورہی ہیں۔ پیداواری موسم کا دورانیہ گھٹتا چلا جارہا ہے۔ چار ڈگری سیلسئس پرافریقا بیس فیصد یا اس سے زیادہ قابل کاشت زمین گنواسکتا ہے۔
اب جب کہ ہم پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہیں، مذکورہ تبدیلیاں مکمل طورپر تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ اگر تمہارے پاس پس انداز کی گئی کوئی رقم موجود نہیں ،تمہاری فصلیں برباد ہورہی ہیں، اورتم مزید بیج نہیں خرید سکتے، پھر اپنا قصہ ختم ہی سمجھو۔
اب اور کیا؟ یہ سارے مسائل خوراک زیادہ سے زیادہ مہنگی کردیں گے، اور غریب کی قوت خرید دم توڑ جائے گی۔ بدلتے موسم کے سبب، کروڑوں لوگوں کے لیے اشیا کی قیمتیں آسمان پر چلی جائیں گی، وہ لوگ کہ جن کی آمدنی کا نصف سے زائد پہلے ہی خوراک پرصرف ہوجاتا ہے،اُن کا کیا ہوگا؟
جیسا کہ پہلے ہی خوراک کی کمی ہے، غریب امیر میں عدم مساوات بہت بڑھ چکی ہے۔ آج، ایک بچہ کہ جو چاڈ میں پیدا ہوتا ہے، اس کے پانچ سال کی عمرسے پہلے تک مرجانے کے خدشات ، فن لینڈ میں پیدا ہونے والے بچے کی نسبت، پچاس گنا زائد ہوتے ہیں۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی کمی میں، زیادہ بچے ضروری غذائی اجزاء سے محروم ہوجائیں گے، کمزور لاغر ہوجائیں گے، ڈائریا ملیریا اور نمونیا کا شکار ہوکر مرنے لگیں گے۔ ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ زیادہ گرمی سے ہونے والی اموات صدی کے آخرتک سالانہ دس لاکھ افراد پر پہنچ سکتی ہے، اور جو بچے جان سے نہیں جائیں گے، جسمانی اور دماغی طورپر کمزور ہوجائیں گے۔
آخر میں، غریب ملکوں میں بدلتے موسم کا سب سے برا اثرصحت پرپڑے گا، ناقص خوراک اور اموات بڑھ جائیں گی۔ اس لیے ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ غریبوں کی صحت کا خیال رکھیں۔ میرے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک، ہمیں وہ طریقے ڈھونڈنے ہوں گے کہ جن سے غریب بچوں میں خوراک کی کمی دور کی جاسکے۔ اس کا مطلب ابتدائی صحت کے نظام میں بہتری لانا ہے، ملیریا کے انسداد کی کوششیں دگنی کرنی ہیں، ڈائریا اور نمونیا جیسے امراض کی روک تھام کے لیے ویکسین کی مسلسل فراہمی ہے۔
گوکہ کووڈ نائنٹین کی وبا نے ہمارے لیے دیگر ویکسین کی فراہمی مشکل تر بنادی ہے، دنیا جانتی ہے کہ اسے کس طرح بہتر طورپر کرنا ہے۔ ویکسین پروگرامGAVI لاکھوں لوگوں کی جان محفوظ بناچکی ہے، اور اس میں گیٹس فاؤنڈیشن کی شراکت داری قابل فخر سرمایہ ہے۔ ہم بدلتے موسم کواس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ویکسین پروگراموں میں حائل ہوسکے۔
دراصل ہمیں اس میں بہت تیزی لانے کی ضرورت ہے، نئی نئی ویکسین تیار کرنا اورایچ آئی وی، ملیریا، اور ٹی بی کا سد باب کرنا ہے، اور انہیں ہر اس فرد تک پہنچانا ہے کہ جسے اس کی ضرورت ہے۔ مزید، یہ کہ بچوں کی نگہداشت میں ناقص خوراک کا امکان ختم کرنا ہے۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ، دنیا کے غریب ترین خطوں میں افراد کی تعداد دگنی بلکہ تین گنا تک ہوسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ کسانوں کی پیداوار بھی اسی تناسب سے بڑھے، خواہ کتنے ہی قحط اورسیلاب حملہ آور ہوں۔ میں نے عالمی سرمایہ کاروں سے باتوں میں اس بات پر مسلسل زوردیا کہ امدادکے لیے ’’بدلتے موسم‘‘ کوزیادہ سے زیادہ مد نظر رکھیں، اور ویکسین کے لیے وقف رقم کا بہت سا حصہ الیکٹرک گاڑیوں پرصرف کیا جائے۔ مجموعی کاربن اخراج میں افریقا کا حصہ صرف دو فیصد ہے۔ اس لیے وہاں ایسی عالمی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے کہ بدلتی ماحولیات سے ہم آہنگ ہوا جاسکے۔
آپ نے شاید ہی کبھی CGIARکا ذکر سنا ہو، میں نے بھی نہیں سنا تھا۔ ایک دہائی قبل جب میں نے کسانوں کے مسائل کا مطالعہ شروع کیا، مجھ پر منکشف ہوا کہ کسانوں کی صحت اور ترقی کے لیے تنظیم CGIARجیسا کام کسی نے نہیں کیا، اس تنظیم نے غریب ترین کسان خاندانوں میں مناسب خوراک کی فراہمی ممکن بنائی، تاکہ وہ صحت مند زندگی جاری رکھ سکیں۔ یہ تنظیم ایسی جدتوں پر بھی کام کررہی ہے کہ جو مستقبل میں کسانوں کو بدلتے موسموں کا سامنا کرنے کا اہل بنائے۔
CGIAR دنیا کا سب سے بڑا زرعی تحقیقاتی گروہ ہے: مختصرا، یہ بہتر نباتاتی اور حیوانی جینیات تیار کرتا ہے۔ میکسیکو کی CGIARلیب میں ہی Norman Borlaug نے گندم پر اپنا تاریخ ساز کام کیا تھا، کہ جس سے ’سبز انقلاب‘ آیا تھا۔ دیگر CGIARمحققین جونارمن بورلاف کے کام سے متاثر تھے، اسی طرز پر کام آگے بڑھایا، اور اگلے سالوں میں مویشیوں پر، چاولوں اور آلوؤں پران کے کام سے غربت میں کمی آئی اور صحت بخش اجزاء کی فراہمی میں سہولت پیدا ہوئی۔
یہ اچھی بات نہیں کہ لوگ CGIAR کے بارے میں نہیں جانتے، مگر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ایک بات تویہ کہ اس کا نام اکثر’’سگار‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے، کہ جس کا تعلق تمباکو کمپنی سے ہو۔ مزید یہ کہ CGIARکوئی ایک تنظیم نہیں بلکہ پندرہ آزاد تحقیقاتی اداروں کا نیٹ ورک ہے، کہ جواپنے حوالوں کے لیے مخفف استعمال کرتے ہیں، جوشناخت اورالجھا دیتے ہیں۔
اس فہرست میں CIFOR, ICARDA, CIAT, ICRISAT, IFPRI, IITA, ILRI,
CIMMYT, CIP, IRRI, IWMI, اور ICRAF شامل ہیں۔
جیسے جیسے موسم کے رنگ بدل رہے ہیں، کسان مشکل میں پڑتے جارہے ہیں، کاشت کاری گھٹتی جارہی ہے، اور چند صورتوں میں یہ بالکل ہی ختم ہوکررہ گئی ہے۔ CGIAR کے ماہرین نے مکئی کی درجنوں اقسام متعارف کروائی ہیں، کہ جو خشک سالی کا سامنا کرسکتی ہیں۔ یہ اقسام افریقا کے مختلف علاقوں میں پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ شروع میں بہت سے چھوٹے کسان ان کے استعمال سے ہچکچارہے تھے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ آپ ایک لگے بندھے طرز زندگی سے ہٹ کر جب کوئی نیا تجربہ کرتے ہیں، ہچکچاتے ہیں۔ تاہم اس معاملہ میں ماہرین نے کسانوں کے ساتھ مل کرکاشت کاری کی، بوائی کی اور فصل کاٹی۔ کسانوں میں ان بیجوں کے فوائد کی زیادہ سے زیادہ تشہیر وتعریف کی، استعمال کے طریقے سمجھائے۔
بہت سارے خاندانوں کے لیے یہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ زمبابوے میں، قحط زدہ علاقوں کے کسانوں نے پر ہیکٹر چھ سو کلوگرام اضافی مکئی کاشت کی، جبکہ روایتی کاشت کاری میں پیداواربہت کم رہی ہے۔ ان خاندانوں کے لیے کہ جنہوں نے فصل بیچنے کا ارادہ کیا، کافی اضافی کیش کمایا، اب ان کے بچے اسکول جانے لگے تھے، اور دیگر گھریلو ضروریات پوری ہورہی تھیں۔ خوراک کی کمی کا کامیابی سے سامنا کیا جارہا تھا۔
بات صرف مکئی تک محدود نہیں، CGIARکی کوششیں اس سے آگے گئی ہیں۔ نئی اقسام کے چاول بھی متعارف کروائے گئے، کہ جو خشک سالی میں بھی نشوونما پاسکتے ہیں۔ یہ سیلاب میں بھی طویل عرصہ صحیح سلامت رہ سکتے ہیں۔
CGIAR کی توجہ صرف نئی اقسام کے بیجوں پر ہی نہیں ہے، اس کے ماہرین نے ایک اسمارٹ فون ایپ بھی تیار کی ہے، کہ جس سے کیمرہ منسلک کرکے کاساوا (مکئی کا ایک پودا)کے کھیتوں میں کیڑوں اور دیگر بیماریوں کے حملے کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ایسے پروگرام بھی تیار کیے ہیں جن کے تحت ڈرون اور گراؤنڈ سینسرزکے ذریعہ فصلوں میں پانی اور کھاد کی ضرورت کا پتا لگایا جاتا ہے۔
غریب کسانوں کواس طرح کے جدید طریقوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ مگر ان تک یہ سہولیات پہنچانے کے لیے CGIARکوبہت زیادہ رقم چاہیے۔ زرعی تحقیقات مالی اعانت کی کمی کا شکار ہے۔ CGIAR کی فنڈنگ میں کم از کم دگنا اضافہ درکار ہے۔