کراچی :پانی کا سنگین بحران جماعت اسلامی کا واٹر بورڈ ہیڈ آفس پر دھرنا

جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم ایک بار پھر تیزی سے جاری ہے اور ”حقوق کراچی کارواں“ کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تیاریاں ہورہی ہیں، اس سلسلے میں امیرجماعت اسلامی کراچی لوگوں سے بڑے پیمانے پر رابطہ کررہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی پورے ملک اور صوبے کو چلاتا ہے لیکن اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حق دیا جائے۔جماعت اسلامی کی کراچی کے لیے جدوجہد تاریخی اور اصولی رہی وہ ہر ایشو پر متحرک ہوتی ہے اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں اور حکومت پر دباو ڈالتی ہے ۔ اس وقت کراچی شہر میں سخت گرمی ہے اور بنیادی مسائل میں پانی کا بڑا بحران ہے ، اور پانی کی فراہمی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی، واٹر بورڈ کی نا اہلی و ناقص کارکردگی، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور ٹینکرز سے مہنگے داموں فروخت کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت جمعہ کوواٹر بورڈ ہیڈ آفس شاہراہ فیصل پر احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ شرکا نے شدید احتجاج اور پُر جوش نعرے لگاتے ہوئے شاہراہ فیصل بلاک کر دی۔ دھرنے میں شہر بھر سے خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت عوام کی بڑی تعداد شرکت کی۔ پانی کی قلت سے غیر معمولی متاثرہ علاقوں جن میں کئی کئی مہینوں سے پانی نہیں آتاہے وہاں کے مکینوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ دھرنا رات گئے تک جاری رہا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنے سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ K-4منصوبہ فی الفور مکمل کیا جائے اور کراچی کے عوام کو کہانی نہیں پانی چاہیے۔ جو حکومت عوام کو پانی نہیں دے سکے اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ شہر کے اندر واٹر بورڈ اور ٹینکرز مافیا کی ملی بھگت ختم کی جائے۔ عوام کو مہنگے داموں پانی کی فروخت سے نجات دلائی جائے۔ ہم حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی اور اس کا پلان کہاں ہے؟اس کمیٹی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل تھیں اب نواز لیگ کی وفاقی حکومت ہے۔ عوام کو بتایا جائے کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے کتنے فیصد حصے پر عمل کیا گیا۔ جماعت اسلامی وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اہل کراچی کا حق لے کر رہے گی۔ 29مئی کو مزار قائد سے ایک تاریخی ”حقوق کراچی کارواں“نکالا جائے گا۔کراچی کے لیے پانی کاآخری منصوبہ K-3۔2005میں نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ نے مکمل کیا۔ جس نے کراچی کو مزید 100ملین گیلن یومیہ پانی ملا، جب سے اب تک 17برس میں تمام جماعتوں اور کراچی کے عوام سے مینڈیٹ لینے والوں نے ایک قطرہ پانی کا بھی اضافہ نہیں کیا، K-4منصوبہ التواء کا شکار ہے، یہ کراچی کے عوام کے ساتھ کیسا مذاق ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے 650ملین گیلن یومیہ منصوبے کا اعلان کیا اور اسلام آباد جا کر اسے 260ملین گیلن یومیہ کردیا۔ کراچی کا المیہ یہ ہے کہ کراچی ملک کو سالانہ 2700ارب روپے صرف انکم ٹیکس دیتا ہے، پاکستان کی 54فیصد ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے، 67فیصد ریونیو یہاں سے ملتا ہے، صوبہ سندھ کے 95فیصد بجٹ کا انحصار کراچی پر ہے لیکن صوبائی اور وفاقی حکومت اور ان میں شامل جماعتیں کراچی کو کچھ نہیں دیتیں۔ کراچی سے مینڈیٹ لینے والی جماعتوں نے کراچی کی آبادی آدھی کر دی، یہ ہمارے وسائل اور نمائندگی پر ڈاکاہے، ٹرانسپورٹ کا نظام عملاً ہے ہی نہیں، ہماری خواتین اور بچے چنگ چی رکشوں میں دھکے کھا تے ہیں، شہر کچرے کا ڈھیر ہے، انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے کراچی میں پانی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا بلکہ جو منصوبہ K-4بنایا گیا تھا وہ بھی تاحال نا مکمل ہے۔ کراچی کے لیے تقریباً 1620ملین گیلن پانی کی یومیہ ضرورت ہے اور جو نظام شہر میں موجود ہے وہ 1550ملین گیلن پانی سے زیادہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ خود کہتے ہیں کہ 174ملین گیلن پانی رساؤ کے باعث ضائع ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ 30سے40فیصد پانی ضائع ہورہا ہے اور پانی کی لائنوں سے رسائو حقیقت میں وہ ہے جو حکومت، واٹر بورڈ کے عملے کی ملی بھگت سے چوری کرلیا جاتا ہے اور شہریوں کو نہیں ملتا۔ یہ پانی ٹینکرز مافیا کے پاس جاتا ہے۔واٹر بورڈ کی ملی بھگت سے عوام کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، شہر میں پانی کا مسئلہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے حل نہیں کیا، یہ پارٹیاں حکومت میں رہی ہیں لیکن کسی کے دور حکومت میں بھی کراچی کے لیے پانی کا کوئی مستقل انتظام نہیں کیا گیا۔14سال سے پیپلز پارٹی صوبے میں مسلسل حکومت کر رہی ہے، لیکن وفاقی و صوبائی حکومت نے کراچی کے لیے بنایا گیا K-4منصوبہ آج تک مکمل نہیں کیا۔ اس وقت کراچی کے لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں اور واٹر بورڈ کا عملہ بجلی کے کنڈے کی طرح پانی کے کنڈے دے رہا ہے اور لوگوں سے1500روپے فی گھر لیے جا رہے ہیں۔اس موقع پر لوگوں نے پانی کے حوالے سے مسائل کا بھی تذکرہ کیا۔ گلشن اقبال 13-Dکے ملک امتیاز نے بتایا کہ مدینہ کالونی، ضیاء الحق کالونی میں لوگوں کے گھروں میں گیس کی لائنوں میں پانی آجاتا ہے گیس اور پانی کے محکمے والوں کو بار بار توجہ دلائی گئی مگر مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ جبکہ دوسری طرف مکینوں کو پینے کا پانی میسر نہیں، ٹینکرز سے مہنگے داموں خریدنے پر عوام مجبور ہیں۔کیماڑی ،بلدیہ ٹاؤن میں چھ،چھ مہینے پانی نہیں آتا۔ جب کبھی آتا ہے تو وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ پیا جائے ، لیاری ،اختر کالونی، منظور کالونی، چنیسر گوٹھ سمیت ضلع کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت اور مسائل ہیں ۔
دھرنے میں ملیر جناح اسکوائر سے خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔دھرنے سے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان دیگر نے بھی خطاب کیا بد نصیب کراچی کی کس کس چیز پر رونا رویا جائے وہ شہر جس میں  پورے ملک کی 54فیصد ایکسپورٹ ہوتی ہے، کل ٹیکس کا 42فیصد کراچی سے وصول کیا جاتا ہے، قومی خزانے میں 67فیصد ریونیو اور صوبے کے بجٹ کا 95فیصد انحصار کراچی پر ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ساڑھے تین کروڑ آبادی والے شہر کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، سخت گرمی کے باوجود شہری لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں، سرکاری ملازمتوں میں یہاں کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ مردم شماری میں شہر کی آدھی آبادی غائب کر دی گئی،اور جماعت کا یہ کہنا بجا ہے کہ اہل کراچی کے ساتھ اس حق تلفی اور ظلم و زیادتی کے جرم میں موجودہ اور ماضی کی تمام وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ان کے اتحادی برابر کے شریک ہیں۔ صرف جماعت اسلامی نے اہل کراچی کی حقیقی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہی عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور خود کو بار بار دھوکہ دینے والوں کو مسترد کر دیں تو اس شہر کی رونقیں بحال ہوسکتی ہے ،فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ آنے والے بلدیاتی انتخاب میں اپنے مستقبل کے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔