مقبوضہ کشمیر میں ضمیر کا قیدی یٰسین ملک

75 سال سے ہم یہ بات سن رہے ہیں کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہے، ان سات دہائیوں میں ہم مقبول بٹ سے لے کر سید علی گیلانی تک بہت سے رہنماء کھو چکے ہیں اور بات مذمت سے آگے نہیں بڑھی، ابھی حال ہی میںاسیر حریت رہنما یاسین ملک بھی ان دنوں ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں اور ہماری حکومت پھر عندیہ دے رہی ہے کہ ہم کشمیری رہنمائوں کے ساتھ ہیں، ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے پرامن حریت لیڈر یاسین ملک پر دہشت گردی کے جعلی مقدمات بنائے اور ان مقدمات پر انہیں سزا سنائی جاسکتی ہے اور یہ انتہائی سزا ان کی زندگی بھی لے سکتی ہے،یاسین ملک مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت پسندی کی تاریخ کے درخشاں ستارے کا نام ہے۔ یاسین ملک کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ جو جدوجہد آزادی کے جرم میں گزشتہ کئی سال سے نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اس بدنام زمانہ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے کئی دیگر آزادی کے متوالے رہنما بھی جبری قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ 56سالہ یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی پر تو قربان کر ہی دی ہے۔ ان پر جیل میں بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن جیلوں میں بے گناہ قید ان کے رہنمائوں کے ساتھ نازی قیدیوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ بھارت کو جب یاسین ملک اور ان کے چھ دیگر ساتھیوں کے خلاف تمام تر تشدد اور بہیمانہ سلوک کے بعد کچھ نہ ملا تو مقبوضہ کشمیر کے اس حریت پسند رہنما اور معروف سیاستدان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور ان کو پھنسانے اور سزا دینے کے لیے ایک 30سالہ پرانا کیس ان پر ڈالا گیا۔ اور کہا گیا کہ 1990 میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کو ہلاک کرنے میں یاسین ملک اور انکے دیگر چھے ساتھی ملوث تھے،جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھارتی حکومت نے 2019سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بھارت نے یاسین ملک پر دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا نہایت مضحکہ خیز الزام بھی عائد کیا ہے ان کا اصل جرم بھارتی تسلط، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے اور کشمیریوں پر بھارتی جبر و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا ہے بھارتی نام نہاد عدالت نے یاسین ملک اور ان کے دیگر چھے ساتھیوں پر فرد جرم عائد کر دی۔ جموں کی اس نازی عدالت نے یاسین ملک کی جائیدادوں اور اثاثہ جات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یاسین ملک کو کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کی سزا دی جا رہی ہے انھیں مسلسل قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جارہا ہے لیکن آفرین ہے اس حریت رہنما پر جس کے پائے استقلال میں بھارتی مظالم کے باوجود معمولی سی بھی لغزش نہیں آرہی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہا کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یاسین ملک کی دس سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ اپنی والدہ کے ہمراہ مظاہروں میں شریک ہوتی ہے اور اس بچی کی روداد سنی نہیں جاسکتی مقبوضہ وادی میں ایسی ہزاروں بیٹیاں ہیں جن کی روداد سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے بھارت کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہاہے اور ان کے رہنمائوں کو اپنے بدترین ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے پاکستان کی ہر حکومت کے کشمیری عوام کے لیے بیان، الفاظ کے چنائو کے اعتبار سے ہمیشہ قابل ستائش رہے مگر عمل کی میزان پر ہر حکومت ناکام نظر آئی ہے ابھی وزیر خارجہ بلاول بھٹو امریکہ بھی گئے اور حال ہی میں چین سے ہوکر آئے ہیں یسین ملک کے لیے ان کے بیان کی ایک سطر بھی پڑھنے کو نہیں ملی پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی مظالم اور یاسین ملک پر جھوٹا کیس بنایا ہے عالمی سطح پر اس کی راہ روکنی چاہیے تھی، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، مؤتمر عالم اسلامی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سمیت ہر تنظیم خواب خر گوش کے مزے لے رہی ہے، پاکستان کا یک مؤقف ہے کہ ہر عالمی فورم پر کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی جائے گی اس موقف کا عمل کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے حکومت کو ایسے واقعات سے متعلق دوست ممالک کو ساتھ ملا کر بین الاقوامی اور عالمی فورمز پر بات کرنی چاہیے اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے جب تک کشمیر میں مظالم بند نہیں ہوتے اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا تب تک پاکستان چین سے نہیں بیٹھے گا۔ عالمی طاقتوں کو بھی بھارت کے ساتھ جڑے اپنے مفادات بالائے طاق رکھ کر عالمی امن و سلامتی کی خاطر اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ2019 میں جب بھارت مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر رہا تھا تو اس وقت جب کہ قوم کو متحد کرنے کی ضرورت تھی جے یو آئی اپنا دھرنا لے کر اسلام آباد پہنچی تھی اور اب جب کہ یسین ملک کا مقدمہ انہیں سزا دینے کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے تو تحریک انصاف اپنی مقامی سیاست اور اقتدار کی جنگ کے لیے لشکر لے کر اسلام آباد پر دھاوا بول رہی ہے ۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کا علاقائی انسداد دہشت گردی سے متعلق اجلاس ہوا ہے جس میں پاکستان بھی شریک ہوا ہے یہ اجلاس 19 مئی تک جاری رہا جس میں پاکستان کے علاوہ روس، چین، ایران، تاجکستان، کرغستان اور قازقستان کے وفود بھی شریک ہوئے، پاکستان کا تین رکنی وفد واہگہ بارڈر کے راستے بھارت پہنچا یہ اجلاس باہمی رابطے کا ذریعہ بنا کہ یوکرین پر روسی حملے اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے بعد بھارت میں ہونے والی یہ اس طرح کی پہلی ملاقات ہوئی،بھارت کے ایس سی او-آر اے ٹی ایس میکانزم کے چیئرپرسن بننے کے بعد سے یہ اجلاس اس سال کے لیے شیڈول متعدد تقریبات میں سے ایک ہے اور اس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد تھی یہ اجلاس افغانستان کے لیے توجہ کا مرکز سمجھا گیا، جولائی کے آخر میں افغانستان کے متعلق تاشقندایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گایہ اطلاعات بھی ہیں کہ بھارت کے جلد ہی افغانستان میں سفارت خانہ دوبارہ کھول سکتا ہے، بھارت کی ایک ٹیم صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے فروری میں کابل بھی گئی تھی، کابل میں بھارتی سفارت خانہ گذشتہ برس اگست میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے بند ہے، یہ ساری پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب اس خطہ میں بے شمار نئی تبدیلیاں آرہی ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر میں نت نئے قانون لارہا ہے حلقہ بندیاں کر رہا ہے اور اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے اور مسلم ممالک گہری تشویش سے آ گے ہی نہیں بڑھ رہے بس ایک ٹوئٹر ہے جس پر بیان جاری کیے جارہے ہیں جب کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حلقہ بندیوں کا عمل سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قانون جس میں جنیوا کنونشن بھی شامل ہے، کی براہ راست خلاف ورزی ہے اس کے خلاف او آئی سی سیکرٹریٹ کو عملا ً آگے بڑھنا چاہیے مسلم ممالک کی گہری تشویش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت نے کشمیر کے لیے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کی ایک فہرست جاری کی ہے اس فہرست میں مسلم اکثریتی خطے کے ہندو علاقوں کو زیادہ نمائندگی دے کر نئے انتخابات کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے اس سارے عمل پر اسلام آباد میں ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ قومی اسمبلی میں بھی کشمیر میں اس قسم کی تبدیلیوں کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔یاسین ملک مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت پسندی کی تاریخ کے درخشاں ستارے کا نام ہے۔ یاسین ملک کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ جو جدوجہد آزادی کے جرم میں گزشتہ کئی سال سے نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں اس بدنام زمانہ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے کئی دیگر آزادی کے متوالے رہنما بھی جبری قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ 56سالہ یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی پر تو قربان کر ہی دی ہے۔ ان پر جیل میں بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بھارت کو جب یاسین ملک اور ان کے چھ دیگر ساتھیوں کے خلاف تمام تر تشدد اور بہیمانہ سلوک کے بعد کچھ نہ ملا تو مقبوضہ کشمیر کے اس حریت پسند رہنما کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور ان کو سزا دینے کے لیے ایک 30سالہ پرانا کیس ان پر ڈالا گیا۔ اور کہا گیا کہ 1990 میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کو ہلاک کرنے میں یاسین ملک اور انکے دیگر چھے ساتھی ملوث تھے۔ واضح رہے کہ یاسین ملک کی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھارتی حکومت نے 2019سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بھارت نے یاسین ملک پر دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا نہایت مضحکہ خیز الزام بھی عائد کیا ہے۔ ان کا اصل جرم بھارتی تسلط، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے اور کشمیریوں پر بھارتی جبر و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور جب قید و بند اور ظلم و تشدد کے باوجود بھارت یاسین ملک کی آواز کو نہ دبا سکا تو اب ایسے من گھڑت اور جھوٹے الزامات سے اس آواز کو خاموش کرانا چاہتا ہے ان پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد عدالت نے 25مئی کو دوبارہ سماعت کے لیے تاریخ مقرر کی ہے خدشہ ہے کہ اس تاریخ کو یاسین ملک اور ان کے دیگر چھ ساتھیوں کو سزائیں سنائی جائیں گی یاسین ملک شدید علیل اور نہایت کمزور ہوچکے ہیں لیکن بھارت میں نہ تو انسانی حقوق کے لیے کوئی تنظیم ہے جو کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھارتی جبر و تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر آواز اٹھائے۔ نہ ہی کوئی ایسا با ضمیر ہے جو یاسین ملک پر بھارت کے جھوٹے الزامات اور اب بھارت کی طرف سے غیر قانونی اور من پسند سزائوں کو روکنے کے لیے میدان میں آئے۔ گزشتہ 75سال سے کشمیری اور بھارتی مسلمان بھارتی مذہبی تعصب کا شکار ہیں۔ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی فائلیں وہاں کہیں یاد ماضی کے طور پر کسی کونے میں پڑی ہیں اب یاسین ملک اور ان کے چھ ساتھیوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یاسین ملک اور انکے ساتھیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے باہر آئیں اور دنیا کو جگائیں عمران خان نے توکشمیر کے سفیر بننے کا دعویٰ بھی کیا تھا ان کے دیگر دعوئوں اور وعدوں کی طرح وفا نہ ہوسکا۔ کیاہی اچھا ہوتا کہ وہ آزادی مارچ کے ساتھ یاسین ملک کے حق میں اس دن احتجاج کرتے۔