پاکستان تحریک انصاف نے آزادی مارچ کا آغاز خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور سے کرنے کا فیصلہ کرکے بظاہر تو سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر معروضی حالات کومد نظر رکھ کرکیاہے۔ اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے کارکنوں کی حلقہ وارنہ فہرستیںتیار کر لی گئی ہیں جبکہ کارکنوں کو اسلام آباد وقت سے پہلے پہنچنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کا بھی بندوبست کر دیا گیا ہے جس کی روشنی میں آج سے کارکن ٹولیوں کی صورت میں اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کاکہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے تمام اراکن قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ ایک ہزار کارکن لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس حساب سے خیبر پختونخوا سے 4 لاکھ سے زائد کارکنوں کو لے جانے کا منصوبہ ہے ۔ اسلام آباد میں گرفتاری اور پنجاب میں داخل ہونے والے راستوں کی بندش کے خدشات پر کارکنوں کو25مئی سے قبل ہی اسلام آباد میں مختلف مقامات پرظہرانے کا انتظام کرنے کی ہدایات بھی سامنے آئی ہیں۔
تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے ترجمان ظاہر شاہ طورو کے مطابق 25 مئی کو عمران خان پشاور کے جلوس کی خود قیادت کریںگے اور ان کی قیادت میں بڑا قا فلہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگا ضلع خیبرمہمند اور پشاور کے قا فلے پشاور سے روانہ ہو ں گے۔ نوشہرہ اور چارسدہ کے قافلے چارسدہ انٹر چینج پہنچ کر عمران خان کا استقبال کریں گے ۔علی امین گنڈا پور اور ایم پی ایز وایم این ایز کی قیادت میں ڈی آئی خان، ٹانک جنوبی وزیرستان کے قا فلے ہکلہ انٹرچینج پر، ملاکنڈ، سوات، چترال، دیر، چکدرہ، بونیر، باجوڑ کے قا فلے صوابی انٹر چینج پر 12 بجے دن اکھٹے ہو کر پشاور سے عمران خان کی قیادت میں آنے والے قافلے کااستقبال کریں گے ۔ اسی طرح مشاق غنی کی قیادت میں ہزارہ، مانسہرہ، ایبٹ آباد، تورغر ،کوہستان اور بٹگرام کے قافلے برہان انٹرچینج پہنچ کر مرکزی قافلے میں شامل ہوں گے۔ اورکزئی، کرم، ہنگو اور کرک کے کارکنان بھی وزراء ایم پی ایز اور ایم این ایز کی قیادت میں روانہ ہو ں گے۔ انہوں نے کہا کہ قافلوں میں عمران خان کے ساتھ پرویز خٹک مجمودخان، اسد قیصر ،شہرام ترکئی، عاطف خان شریک ہوں گے جبکہ شاہ محمود قریشی،فواد چوہدری ،حلیم شیخ، شاہ فرمان اور دیگر مرکزی قائدین بھی پشاور سے روانہ ہوں گے ۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے کنٹینر لگا کر ڈی چوک کوبھی سیل کردیاگیا ہے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے تناظر میں وزارت داخلہ نے وفاقی پولیس اور انتظامیہ کو اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتشار پھیلانے والے لانگ مارچ کے شرکاء سے سختی سے پیش آیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایاہے کہ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے دیگر صوبوں سے بھی پولیس کی بھاری نفری طلب کرلی ہے، پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی اور رینجرز بھی طلب کی جارہی ہے۔ جب کہ آپریشنل پولیس کو قیدی وینز، واٹر کینن اور دیگر سامان بھی فراہم کرنے کی مصدقہ اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ پی ٹی آئی کو سری نگر ہائی وے تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔
دریں اثناء چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے گزشتہ پیر کے روز اچانک پشاور صدر بازارکا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخو امحمودخان، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد عمراور دیگر پارٹی قائدین بھی عمران خان کے ہمراہ تھے۔ عمران خان کو اچانک اپنے درمیان پا کر عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عمران خان کے آس پاس لوگوں کا رش لگ گیا۔ عمران خان اور دیگر پارٹی قائدین عوام میں گھل مل گئے۔ خواتین سمیت نوجوانوں نے عمران خان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں۔ دکاندار اور خریدار دکانوں سے باہرنکل آئے اور عمران خان کے حق میں نعرے بازی کی۔ اس موقع پر لوگوں نے امپورٹڈ حکومت نا منظور اور عمران خان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ ایک بزرگ شہری نے عمران خان پرنوٹ بھی نچھاور کیے۔
عمران خان کی جانب سے وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بظاہر ایک جائزسیاسی مطالبہ ہے اور سیاست میں اپوزیشن کے جانب سے حکومت پر دبائو ڈالنے اور اسے قبل از وقت انتخابات کروانے پر مجبور کرنے کی مثالیں نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں موجود ہیں بلکہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے فیصلوں کی کیے مثالیں موجود ہیں لیکن عمران خان نے پاکستانی سیاست میں عدم برداشت ، گالم گلوچ اور مخالفین کی ہتک عزت کا جو منفی کلچر متعارف کرایا ہے اس نے ہرذی شعور اور محب وطن پاکستانی کو پریشان کر رکھا ہے۔
عمران خان نے حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد جو لب و لہجہ حکومت اور دیگر ریاستی اداروں بشمول اسٹبلشمنٹ،عدلیہ اورالیکشن کمیشن کے خلاف اپنا رکھا ہے اس سے ملک کی موجودہ سیاسی فضا مزید بے یقینی کی شکار ہو رہی ہے جبکہ اب رہی سہی 25 مئی کو اسلام آباد لانگ مارچ کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے اس کا آغاز تقریباً دو تہائی آبادی کے حامل صوبے جہاں وہ چار سال تک حکومت کرتے رہے ہیں سے کرنے کی بجائے دہشت گردی اور افغان بحران سے متاثرہ صوبہ خیبر پختون خوا سے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی ذرائع اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور وفاق سمیت وہاں مسلم لیگ ن کی حکومت نیز وہاں پر مسلم لیگ ن کی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کی قیادت سمجھتی ہے کہ پنجاب پر اپنی اجتماعی تحریک اور خاص کر لانگ مارچ کے لیے انحصار کرنا گھاٹے کا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت تمام تر دبائو اور آندھیوں کے باوجود چونکہ اب بھی پہلے کی طرح مستحکم ہے اور یہاں پر پارٹی میںکوئی خاص دراڑ بھی نہیں ہے اس لیے عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کے لیے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت اور یہاں اپنے اثر و نفوذ پر انحصار کا فیصلہ کیا ہے۔
تیسری جانب مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا میں حکومت ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کویہاں نہ تو لانگ مارچ کے لیے روانگی میں کوئی رکاوٹ پیش آئے گے اور نہ ہی اسے یہاں کسی دوسرے دبائو یا مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح لانگ مارچ کے دوران انہیں حکومتی وسائل کے استعمال کی اضافی سہولت بھی دستیاب ہوگی جس کا چسکا پی ٹی آئی کی چاکلیٹی قیادت کو پہلے ہی سے پڑچکا ہے۔ بہر حال دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کو صوبے کے عوام سے کتنی پذیرائی ملتی ہے اور آیا ان کے قافلے کوپنجاب کی حدود میں داخل ہونے دیا بھی جاتا ہے یا پھر اسے اٹک پل پر ہی روک کر ان کی اس مہم جوئی کو اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی ناکام بنانے کا اقدام اٹھایا جاتا ہے۔
دوسری جانب ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر آگے جاکر یہ احتجاج کسی بھی وجہ سے پر تشدد شکل اختیار کر لیتا ہے تو خدا نا خواستہ اس کے انتہائی سنگین نتائج جمہوریت کے ایک بار پھر ڈی ریل ہونے سے لے کر وطن عزیز کی سالمیت پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں لہٰذا پی ٹی آئی خاص کر عمران خان کے جارحانہ اور ضدی موڈ کو دیکھتے ہوئے یہ توقع تو عبث ہوگی کہ وہ اپنے احتجاج کے دوران کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھائیں گے البتہ ان کے دائیںبائیں موجود جہاندیدہ سیاسی راہنمائوں پرویز خٹک ، شاہ محمود قریشی اورکسی حد تک اسد قیصر سے یہ امید باندھی جاسکتی ہے کہ وہ عمران خان کو جمہوریت کے تسلسل اورملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔