انسانی عزم و ہمت کی کوئی حد نہیں۔ جیسا کہ ہمارے سامنے ہے، انسانی پستیوں کی بھی کوئی حد نہیں۔کوئی حد نہیں ہے کمال کی، کوئی حد نہیں ہے زوال کی۔ فرید خا ں کی عمر چوبیس پچیس برس ہوگی، جب اپنے والد کے نام خط میں لکھا کہ بہترین حکومت کیسی ہونی چاہیے۔ کہا کہ ایک دن وہ ہندوستان کا حکمران ہوگا‘ ثابت کر دے گا‘ جن اصولوں کا وہ مبلغ ہے، پوری طرح قابلِ عمل ہیں۔ مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ملک اور معاشرے کے استحکام میں سب سے اہم چیز عدل و انصاف ہے۔ ایک ایسا نظام عام شہری کو جو پورا تحفظ فراہم کرے‘ خوف سے نجات دے۔ اس عہد ساز شخصیت کو ظہیر الدین بابر نے شیر خاں کہا تھا۔ تاریخ نے اسے شیر شاہ سوری کے نام سے یاد رکھا۔ آج اس کا یومِ پیدائش ہے۔ 477برس پہلے وہ اترپردیش کے ضلع سہسرام میں پیدا ہوا‘ والد کی جاگیر۔ بابر کے سپہ سالاروں میں سے ایک۔ کم سن تھا کہ والدہ اٹھ گئیں۔ معلوم نہیں، مورخ ماؤں کو اہمیت کیوں نہیں دیتے۔ ایک آدھ نہیں، درجنوں نے اس آدمی کے بارے میں لکھا ہے۔ فرید خاں کی والدہ کا ذکر کہیں نہیں۔ جیساکہ قائدِ اعظم کے باب میں۔ ان کے والد ایک تاجر تھے۔ ایک سادہ سے آدمی۔ ظاہر ہے کہ دن کا بیشتر وقت وہ گھر سے باہر گزارتے۔ ننھے محمد علی کے حیرت انگیز جذباتی توازن، صداقت شعاری، خودداری اور خیرہ کن عزم کی تشکیل میں، اس خاتون کا کچھ تو ہاتھ رہا ہوگا۔ ایک پیراگراف بھی جن کے بارے میں مہیا نہیں۔ شیر خاں کا عہدِ شباب باپ کی جاگیر سنبھالتے گزرا۔اسی تجربے سے نظم و نسق کے وہ اصول جینئس نے وضع کیے، جن کی پیروی نے اکبر کو اکبرِ اعظم بنادیا۔ چار سو برس سے جس کاڈنکا بج رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ انصاف کرتی ہے۔ یہ ادھورا سچ ہے۔شیر شاہ سوری اگر نہ ہوتا تو اکبرِ اعظم بھی ہمیشہ یاد رہنے والے کارنامے انجام نہ دے سکتا۔ نظام تو مرنے والے نے وضع کیا تھا۔ ادارے تو اس نے تعمیر کیے تھے۔ بندوبستِ اراضی کا ڈول اس نے ڈالا تھا۔ کلکتہ سے پشاور تک وہ شاہراہ اسی نے تعمیر کی تھی، بعد میں انگریزوں نے جسےGrand Trunk Roadکا نام دیا۔ہزاروں میل لمبی شاہراہ پہ تین ہزار چوکیاں۔ ہر چوکی پہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے مسافر خانہ۔ بلا معاوضہ کھانے کا الگ الگ انتظام۔ ڈاک کا محکمہ۔ ان سب سے بڑا کارنامہ وہ ہے، جو اس سے پہلے کسی نے انجام دیا اور نہ بعد میں۔ شہر تو کیا، جنگلوں اور بیابانوں میں تاجروں کے کارواں سفر کرتے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ آس پاس بھی پھٹک سکتا۔ تاجر اپنا سامان کھلے میدان میں رکھ چھوڑتے اور میٹھی نیند سوتے۔ کہا جاتا تھا کہ ایک بڑھیا سر پہ سونے کی گٹھڑی رکھے راتوں کی تاریکی میں بے خوف و خطر گامزن رہ سکتی۔شہنشاہ ہمایوں نے اسے بادشاہوں کا بادشاہ کہا تھا۔ بعد ازاں ہیرلڈیم نے یہ اصطلاح بابر کے لیے برتی۔سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی پیمانے سے شیر شاہ، بابر اور اکبر سے بڑا تھا۔ شیر شاہ کا نظامِ سلطنت ’’مقدم‘‘ پہ استوار تھا۔ اپنے گاؤں اور علاقے کا ذمہ دار۔ پولیس اس کی ماتحت اور دوسرے سرکاری حکام بھی۔ مقدم کی شان و شوکت کے کیا کہنے۔ مناصب کے لیے کون بے تاب نہیں ہوتا۔کچھ ہوش مند مگر احتراز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کوئی سا جرم سرزد ہو جاتا تو مقدم کی جان پہ بن آتی۔آج کی دنیا میں اہلیت کا چرچا بہت ہوتا ہے۔ یہ شیر شاہ تھا،اول دن جس نے ترازو گاڑ دیا تھا۔ اہلیت ہر حال میں ملحوظ رکھی جائے گی۔ انحراف کسی صورت گوارا نہ کیا جائے گا۔ بھارت کی سرزمین نے محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، غیاث الدین بلبن، التمش اور عالمگیر ایسے عظیم حکمران دیکھے۔ شیرشاہ سوری کا ہمسر کوئی نہ تھا۔ وہ آدمی جس نے اپنے عزم سے ایک لشکر بنایا۔ ان وسیع خطوں پر تنہا حکومت کی، جو آج بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان سے منسوب ہیں۔پشاور سے کلکتہ تک برگد کے کتنے لاکھ درخت۔ پانچ برس تک تین ہزار چوکیوں کا نظم و نسق حسن و خوبی کے ساتھ کیسے چلتا رہا۔کتنے عظیم الشان اور بے شمار قلعے۔ کتابوں میں آپ پڑھتے ہیں، جن کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔تعجب اس پہ ہوتا ہے کہ کسی اکیڈمی، کسی کالج اور کسی ادارے میں کیوں وہ پڑھایا نہیں جاتا۔ فرانز بوس کو اگر فادر آف اینتھروپالوجی کہا جاتا ہے تو کس لیے۔ اس اصول کی دریافت اور وضاحت کے سبب کہ قدیم ترین انسان ایک خدا پہ یقین رکھتا تھا۔ ابنِ خلدون جدید تاریخ نویسی کا بانی ہے۔ ٹائن بی کی اہمیت یہ ہے کہ تعصبات سے اوپر اٹھ کر وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور اقوام کا ادراک کر سکا۔ ان میں سے ہر ایک تسلیم کیا گیا۔ہر انصاف پسند مصنف ان ناموں کے ساتھ عظیم ترین، Great Theکا اضافہ کرتا ہے، شیر شاہ سوری کے ساتھ کیوں نہیں۔ کیا اس لیے کہ پانچ سالہ حکمرانی کے بعد بارود سے جھلس جانے والا جاں بحق ہوا تو پشتون اقتدار ہی ہار گئے۔ صلاح الدین ایوبی، الپ ارسلان اور عالمگیر کی طرح اس کی اولاد بھی نالائق نکلی۔ بابر خوش قسمت تھا کہ ہمایوں اس کا فرزند تھا۔ ہمایوں کی خوش بختی اکبرِ اعظم کے دور سے اجاگر ہوئی۔ ان پڑھ آدمی مشاورت کی اہمیت سے آشنا تھا۔ کمال درجے کا مردم شناس۔ نظم ونسق کے باب میں انگریزی عہد کی مثال بہت دی جاتی ہے۔ عرب بھی کم نہ تھے کہ ساڑھے سات سو برس ہسپانیہ میں ڈٹے رہے؛ تاآنکہ خاندانی اور قبائلی تعصبات کی دیمک چاٹ گئی۔ تاآنکہ باہم دست و گریباں رہنے لگے، جیسے ہمارے آج کے سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ترکانِ تیموری ترکانِ عثمانی سے کم نہیں تھے۔ اپنے عہد کے علمی مجدد سے اختلاف کی جرات کون کرے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ عثمانی سلطنت بکھرنے کے بعد یورپ، افریقہ اور ایشیا میں جو نئی اقوام ابھریں‘ا ن کی تعداد بائیس سے زیادہ ہے۔ سلیمان ذی شان ٹہلتا ہوا آسٹریا تک چلا جاتا۔ بحر بازی گاہ تھا ان کے سفینوں کے لیے 144برس پہلے امرتسر کے ایک غریب خاندان میں آج ہی کے دن ایک بچے نے جنم لیاغلام محمد بخش۔ ہم اسے گاما پہلوان کے نام سے جانتے ہیں۔ تاریخ لکھنے والے دیو قامت آدمی کی غیر معمولی خوراک کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک دن میں تین عدد بکرے، پندرہ کلو دودھ، تین پاؤ مکھن، پھلوں کی تین ٹوکریاں اور بہت کچھ۔دیوانہ نہیں تھا، وہ سلیمان بن عبد الملک نہیں تھا۔ تین ہزار بیٹھکیں اور پانچ سو ڈنڈ نکالا کرتا۔ صبح سویرے جاگتا اور مختصر وقفوں کے سوا سارا دن ورزش میں جتا رہتا۔ 32برس کی عمر تک بھارت اور یورپ کے تمام بڑے پہلوانوں کوہرا چکا تھا۔ اس کے رستمِ زماں ہونے پر کبھی کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ پٹنہ کے عجائب گھر میں 1200کلو وزنی ایک پتھر رکھا ہے، گاما نے جو اپنے ہاتھوں سے اٹھا لیا تھا۔ بعد میں ہمیشہ وہ کرین سے اٹھایا گیا۔ انسانی عزم و ہمت کی کوئی حد نہیں۔ جیسا کہ ہمارے سامنے ہے، انسانی پستیوں کی بھی کوئی حد نہیں۔ کوئی حد نہیں ہے کمال کی، کوئی حد نہیں ہے زوال کی۔
(ہارون رشید،دنیا ،پیر 23 مئی 2022ء)