انسانوں سے محبت کرو

عبادت اس مقام پر نہیں پہنچا سکتی جہاں غریب کی خدمت پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم فرمایا، غریب کے لیے۔ اللہ کے پاس زمین و آسمان کے خزانے ہیں۔ وہ مالک ہے، وہ خود عطا کرسکتا ہے، پھر زکوٰۃ کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ اپنے جمع شدہ مال میں سے غریب بھائی کی خدمت کرے، اور وہ پیسہ جو سنگدلی پیدا کررہا ہے وہ فراخدلی پیدا کرے۔ نظامِ خیرات، صدقات اور بیت المال سب غریبوں کے لیے ہے تاکہ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو بھی ساتھ چلا دیا جائے، ورنہ اس چند روزہ زندگی میں سفر تو سب کا کٹ ہی جائے گا اور پھر اس کے بعد ایک ایسا دور آئے گا، ایک ایسا دن ہوگا جب انسان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اللہ کی دی ہوئی نعمتیں کس طرح استعمال کیں۔ اس نے انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

ہماری نیکیاں انسان کے ساتھ، ہماری بدی انسان کے ساتھ، یعنی نظامِ ثواب و گناہ انسانوں ہی کے ذریعے سے مرتب ہوتا ہے۔ اگر ہمارے سوا دنیا میں اور کوئی انسان نہ ہو تو ہمارے لیے نہ کوئی جزا ہے نہ سزا۔ ہم جمادات و حیوانات میں سے ہوجائیں۔ انسان کے دم سے ہی رونقیں ہیں۔ اللہ کے نام پر انسانوں کے ساتھ سنگتیں بنتی ہیں۔ اللہ کے خوف سے انسانوں کے ساتھ نیکیاں کی جاتی ہیں۔ یہی خوفِ الہٰی ہمیں گناہوں سے بچاتا ہے۔ ہم دوسروں کے حقوق پامال نہیں کرسکتے اس لیے کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ہم ایک بتائے ہوئے راستے کے مطابق سفر کرتے ہیں کہ وہ راستہ ہمیں اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتایا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عملی شکل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں نمایاں ہوتی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس لیے بھی اہم ہے کہ اس ذات میں ثبوت ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے۔ اس ذات کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ زندگی صرف عبادت نہیں ہے۔ زندگی کوشش ہے، زندگی جہاد ہے، زندگی محبت ہے، زندگی فتوحات ہے، زندگی تنہائی بھی ہے، مجلس بھی ہے، زندگی تنہائی کا سجدہ بھی ہے اور محفلوں کی رونقیں بھی۔ اللہ کی محبت انسانوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص مقرب الہٰی ہو اور انسان کی محبت سے محروم ہو۔ یہ دعویٰ شیطانی ہے کہ ہم صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں اور مخلوق سے کچھ سروکار نہیں۔ یہ غرور ہے، تکبر ہے۔ شیطان نے انسان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور نتیجہ یہ کہ خدا کے آگے کیے ہوئے سجدے بھی رائیگاں ہوگئے۔ ہمارا سارا نظامِ عبادت انسانوں سے مرتب ہے، ہماری دعائیں بالعموم اجتماعی ہیں۔ ’’اے ہمارے رب! ہم پر رحم فرما، ہمیں سیدھی راہ دکھا… ہم پر ہماری ہستی سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، ہمیں گناہوں سے بچا‘‘۔ گویا کہ منشائے الہٰی یہی ہے کہ ’’میں‘‘ سے ’’ہم‘‘ بنا جائے۔ ’’ہم‘‘ کے بغیر ’’تم‘‘ کی عبادت جھوٹ ہے۔ ایک مقام پر انسان کو تنہا رکھا گیا ہے… سجدہ… اللہ کی عظمت بیان کرتے وقت…
ہمارا سارا منظر اور پس منظر انسانوں سے ہے۔ غور کیا جائے تو کوئی انسان، انسانوں کی وابستگی کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ مثلاً میرے پاس صرف آنکھیں ہیں، نظر ہے، لیکن میرا منظر انسانوں کے چہرے سے بنا ہے۔ اگر منظر نہ ہو تو نظر کس کام کی؟ اسی طرح میری سماعت محتاج ہے انسانوں کی آواز کی۔ میرے اردگرد بولنے والے انسانوں کا ہجوم نہ ہو تو میرے کان بیکار ہوجائیں۔ اللہ نے انسانوں کو بیان عطا فرمایا۔ یہ بڑے غور کا مقام ہے کہ بیان سننے والا نہ ہو تو بیان کیا بیان ہو گا۔ میری زبان محتاج ہے سننے والے کانوں کی، میرا دل محتاج ہے انسان کے چہرے کی محبت کا، میرے جذبات، میرے احساسات سب انسانوں سے وابستہ ہیں، مجھے رہنمائی چاہیے کسی انسان کے ذریعے۔ اللہ کی منزلوں تک پہنچانے والا اللہ کا بندہ ہی ہوگا۔ میں نیکی بدی، گناہ و ثواب، خوشی اور غم جو کچھ بھی حاصل کروں گا انسان کے ذریعے۔ میری زندگی، انسانوں کے ذریعے سے گزرے گی۔ ہمیں بات سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ میری پیاس بجھانے والا پانی کتنے ہاتھوں کی محبت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے پائوں کے نیچے جو سڑک ہے اس کے بننے میں کتنے سال اور کتنے انسانوں کے پسینے لگے ہوئے ہیں۔ آنکھ کھول کے چلے تو انسان کو انسانوں کے احسانات نظر آئیں گے۔ ان انسانوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’جس نے انسان کا شکریہ ادا نہ کیا اُس نے خدا کا کیا شکریہ ادا کرنا ہے‘‘۔ جس انسان نے ماں باپ کو پرورش کرتے ہوئے دیکھا اور انہیں نہ مانا، اس نے خدا کو دیکھے بغیر کیا ماننا ہے؟

اللہ تعالیٰ انسانوں ہی کی دنیا میں اپنے جلوے دکھاتا ہے۔ انسان خاموشی سے دعا مانگتا ہے، اللہ خاموش دعائوں کو سنتا ہے، منظور فرماتا ہے۔ اللہ کے جلوے انسانوں کے روپ میں ہر ہر جگہ نظر آسکتے ہیں۔ یہ جہان اللہ کی نشانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اللہ کے بندوں نے اللہ کی یاد کے چراغ جلا دیے، اور ان چراغوں کی روشنی میں آنے والے انسانوں کو نئی منزلوں پر چلنے کی توفیق دی۔ اللہ کی تلاش بہت آسان ہے۔ وہ انسانی شہ رگ سے قریب ہے،بہت قریب… لیکن اس تک رسائی حاصل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ انسان، انسان ہے اور اللہ، اللہ! حادث، قدیم نہیں ہوسکتا، اور قدیم حادث نہیں ہوسکتا۔ بس فرق یہی ہے کہ ہم ساجد ہیں وہ مسجود۔ ہم پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں، اور وہ پیدائش اور موت سے آزاد حی و قیوم ہے۔ وہ ہر آغاز سے پہلے موجود تھا اور ہر انجام کے بعد موجود رہے گا۔ وہ اتنا قریب ہے لیکن اسے دیکھا نہیں جا سکتا جس طرح ہم اپنی بینائی کو خود نہیں دیکھ سکے لیکن بینائی ہمارے قریب رہتی ہے۔ ہماری روح ہمارے پاس ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ ہماری ذات ہر وقت ہمارے ساتھ ہے لیکن اپنی ذات کا دیدار ممکن نہیں۔ سمندر میں رہنے والی مچھلی سمندر کو دیکھ نہیں سکتی۔ پانی سے نکلے بغیر سمندر نظر نہیں آتا، اور پانی سے نکلے تو مچھلی، مچھلی نہیں رہتی۔ بس اللہ کے جلوے، اللہ کے جلوے ہیں۔ پاس ہیں، ساتھ ہیں لیکن کیا ہیں… اور کہاں ہیں؟ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے… اور اللہ کی محبت کی انتہائی عملی شکل اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور محبت میں ہے۔
[واصفیات، حرف حرف حقیقت…واصف علی واصف]

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جِلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔