سیاسی و معاشی عدم استحکام ….اور وقت کا تقاضا

وطن عز یز میں ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت کو وجود میں آئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بیت چکا مگر ابھی تک یہ اپنی کسی واضح سمت کا تعین نہیں کر سکی،تاحال زبوں حال معیشت کی بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں نہ سیاسی استحکام نام کی کسی چیز کے امکانات نظر آتے ہیں بلکہ اس کے برعکس معیشت بھی روزانہ کی بنیاد پر روبہ زوال ہے ڈالر ہر روز روپے کو بری طرح روند رہا ہے اور اس کی قیمت ہر گزرتے دن کے ساتھ ان بلندیوں کو چھو رہی ہے جن کا ماضی قریب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، مہنگائی بھی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ بے کاری اور بے روز گاری کے مارے عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنے اور اہل خانہ کی سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کا سامان کیونکر فراہم کرے اور اس پر طرہّ یہ کہ حکمرانوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ جلد مشکل فیصلے کرنے والے ہیں گویا مرے کو مارے شاہ مدار۔ جن لوگوں کے لیے موجودہ حالات میں جینا محال ہو رہا ہے وہ مشکل فیصلوں کے نتیجے میں آنے والے مشکلات کے طوفان کا مقابلہ کیسے کر پائیں گے۔دوسری جانب سیاسی صورتحال بھی گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے۔حکومت اور حزب اختلاف نتائج کی پرواہ کیے بغیر باہم دست و گریباں ہیں اور حالات کی خرابی کی ذمہ داری دوسرے فریق پر ڈال کر اپنی پاک دامنی کے قصے سناتے نہیں تھکتے کسی کو یہ احساس تک نہیں کہ ملک میں جمہوریت کا تحفظ اور جمہوری اقدار کا احترام بھی اس کی ذمہ داری ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان طرازی میں تمام حدیں پھلانگی جا رہی ہیں ملک کے تمام آئینی و محترم اداروں کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے ایک وقت کوئی ادارہ اگر ایک فریق کے حق میں فیصلہ سنا دے تو وہ اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتا ہے اور اسے حق کی فتح اور عدل و انصاف کا بول بالا ہونے کا ثبوت قرار دیتا ہے مگر اگلے ہی روز جب یہی ادارہ کوئی فیصلے دوسرے فریق کے حق میں سنا دیتا ہے تو اسے صدق دل سے قبول کرنے کی بجائے نہ صرف فیصلے بلکہ پورے ادارے اور اس کے ذمہ دار مناصب پر موجود شخصیات کو ہدف تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے میں ذرا سی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی اور کوئی یہ تک سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ابھی ایک روز پہلے تک وہ اسی ادارے سے متعلق کس قدر پسندیدگی اور تعریف و توصیف کے کلمات کہہ رہا تھا۔یہاں شاید اس امر کا تذکرہ بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ خود ان محترم آئینی و دستوری اداروں کی جانب سے بھی اپنی عزت و احترام کے تحفظ اور وقار و شائستگی کی حفاظت کا خاطر خواہ خیال رکھنے پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ یوں ان اداروں کے کار پردازان نے بھی ان اداروں کو متنازعہ بنانے اور ان کے کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع معترضین کو فراہم کیا ہے۔معاشی و سیاسی حالات کے اس بگاڑ کے اثرات نے عوام کی سماجی اور معاشرتی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور وہ ذہنی تنائو اور باہمی کشیدگی کی ناقابل بیان کیفیت سے دو چار ہیں، عدم برداشت کا رویہ تیزی سے فروغ پذیر ہے حتیٰ کہ لوگ معمولی اختلاف رائے تک برداشت کرنے پر تیار نہیں، اس سے معاشرے میں باہم کشمکش اور رد عمل کے باعث جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ذرا ذرا سے اختلافات خانگی، زندگی کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں جس کے نئی نسل اور معصوم ذہنوں پر نہایت تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس تمام صورت حال میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کسی کو اس تباہی و بربادی کا احساس تک نہیں بقول شاعر ؎
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہمارےارباب بست و کشاد اور اہل سیاست کا طرز عمل ملک کو تیزی سے بند گلی کی جانب دھکیل رہا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی اس کا مداوا کرنے پر مائل ہونے کو بھی تیار نہیں بلکہ حکومت اور اس کا مد مقابل فریق نتائج کی پرواہ کیے بغیر حالات کے بگاڑ کو بد سے بدتر کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ماضی میں ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کی بات کی جاتی رہی ہے مگر شومئی قسمت سے آج یہ دونوں عناصر سیاست میں پروان چڑھ رہے ہیں، نصف صدی قبل ہم انہی رویوں کے سبب آدھا ملک کھو چکے ہیں اب بھی اگر حالات کی اصلاح پر توجہ نہ دی گئی اور ان حالات کے ذمہ داروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ملک کو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں کہ بڑے سے بڑے مسائل حتیٰ کہ جنگ کا اختتام بھی بات چیت اور مذاکرات ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ارباب حل و عقد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور آگ پر تیل چھڑک کر اسے بجھانے کی کوشش نہ کریں بلکہ باہم گفت و شنید کے ذریعے کشیدگی کو کم سے کم تر سطح پر لایا جائے تاکہ مسائل کے حل کی جانب کامیابی سے پیش قدمی کی جا سکے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)