مومن کا فکر و عمل

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
” نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے وہ اس کو خوبصورت بنادیتی ہے، اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اس کو بدصورت کردیتی ہے“۔ (مسلم ،کتاب البر والصلۃ)

دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے رب کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو اسلام کی سیدھی اور سچی راہ پر گامزن کیا۔
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الانعام:161)
’’(اے نبیؐ) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین، جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، (سیدنا) ابراہیم کا طریقہ (جنہوں نے یکسو ہوکر اس رب کی راہ کو اختیار کیا) اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘۔
آپ یکسو ہوکر صرف اللہ ہی کو اپنا کارساز، مشکل کشا، فریاد رس، حامی اور ناصر سمجھتے ہیں، صرف اُسی سے ڈرتے ہیں، اُسی پر بھروسا کرتے ہیں، اُسی سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔
قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ(المومنون:88)
’’(اے نبیؐ) ان سے کہیے، بتائو اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور وہی اختیارِ کُل کامالک ہے‘‘۔
اسی پختہ اعتقاد کی برکت ہے کہ آپ اپنے نفس کی غلامی سے بھی آزاد ہیں، برادری کی اونچ نیچ اور رنگ و نسل کے جھگڑوں سے بھی محفوظ ہیں، خود آزاد ہیں اور دوسروں کو اپنا غلام بنانے سے بھی آزاد ہیں۔ آپ کی کوششوں، کاوشوں، امیدوں اور تمنائوں کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے اور دل سے یہ صدا آتی ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام:162)
’’(اے نبیؐ) کہیے، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
اسی کے ساتھ فرمایا:
لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ‎(الانعام: 163)
’’جس (رب العالمین) کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی (بات) کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں‘‘۔
یعنی زندگی کے ہر معاملے میں رسول اللہؐ اللہ تعالیٰ کے انتہائی وفادار، صالح فرماں بردار اور اطاعت گزار بندے ہیں۔ آپؐ کا جس رخ پر بھی مطالعہ کیجیے وہاں آپ اطاعت و فرمانبرداری کی انتہا پائیں گے۔
اور رب کریم نے بھی یہ بات ارشاد فرمادی ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران:31)
’’اے (نبیؐ) لوگوں سے فرمادیجیے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو (پیروی کرو) اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے‘‘۔
اس آیہ مبارکہ میں خصوصاً مسلمانوں پر اور تمام انسانوں پر بالعموم یہ واضح کردیا کہ نبیؐ کی کامل اتباع میں رب تعالیٰ کی رضا پائوگے اور وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما کر اپنی جنت میں داخل فرمائے گا۔ (تیسیر القرآن)
(ماہنامہ چشم بیدار،جنوری2020ء)