قارئینِ کرام! نہایت مسرت کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ ان کالموں کی اشاعت سے ملک کے اساتذہ میں بھی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ لہٰذا اُمید ہو چلی ہے کہ اب ہماری جامعات کے طلبہ و طالبات اساتذہ سے کچھ سیکھ کر ہی سند حاصل کیا کریں گے۔
ملک کی ایک مشہور بین الاقوامی یونیورسٹی کے ایک استادِ محترم، جن کا ’دکتورہ‘ لسانیات میں ہے، ایک پرچۂ سوال ارسال فرماکر اس کا حل ہم سے یوں دریافت کرتے ہیں:’’آپ بڑے ابونثر بنتے ہیں، ذرا وضاحت فرما دیجیے کہ محاورے اور کہاوت میں کیا فرق ہے؟‘‘
صاحب! ہم ابونثر بنتے نہیں، لوگ بنائے رکھتے ہیں، پھر بھی جتنی ہماری بساط ہے اُس کے مطابق آپ کا پرچہ حل کیے دیتے ہیں۔
محاورہ کا لغوی مطلب ہے مہارت، ہم کلامی، مکالمہ، مقولہ یا وہ فعلِ مرکب جو ایک مخصوص ترکیب کے ساتھ اہلِ زبان میں رائج ہوگیا ہو اور جس کے خلاف بولنا فصاحت کے برخلافسمجھا جاتا ہو۔ اس کی مثالیں آگے دی جارہی ہیں۔
اب محاورے کی ’تعریف‘ بھی سن لیجیے۔کسی مصدر کو اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کرنے کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال کرنا ’محاورہ‘ کہلاتا ہے۔ مثلاً ’کھانا‘ ایک فعل ہے۔کوئی انسان اپنے منہ کے ذریعے سے غذا وغیرہ حلق سیپیٹ میں اُتار لے تو اُس کا یہ فعل ’کھانا‘ کہلائے گا۔ مگر یہ محاورہ نہیں ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب پوچھیں گے کہ پھر محاورہ کیا ہے؟ تو پہلی مثال لے لیجیے۔ زیرنظر کالم کی ابتدائی سطور پڑھ کرالدکتور المحترم پر جو کیفیت طاری ہوئی ہوگی اُسے اُردو محاورے میں ’پیچ و تاب کھانا‘ کہتے ہیں۔ اگر آپ ’پیچ و تاب پینا‘ کہیں گے تو یہ محاورے کے خلاف ہوگا۔ محاورتاً کھائی جانے والی دیگر چیزوں میں قلابازی، مار، رنج، غم، جوتے، غش اور تاؤ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جنھیں اہلِ زبان حقیقتاً نہیں بلکہ محاورتاً پی جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آنسو یا اَشک، کڑوی بات، زہر کا گھونٹ اورغصہ وغیرہ۔ جن چیزوں سے دھوئیں بازی کی جاتی ہے، اگرچہ اُن کا دھواں بھی کثیر مقدار میں منہ کے ذریعے سیحلق ہی میں جاتا ہے، پھر قلیل مقدار میں واپس باہرآجاتا ہے، مگر اس عملِ تدخینکو اُردو محاورے میں ’پینا‘ ہی کہا جاتا ہے، مثلاً سگریٹ، سگار، بیڑی، حقہ یا چرس وغیرہ۔گویا ’جوتے کھانا‘ اور ’چرس پینا‘ محاورہ ہے۔ محاورے کی مزید مثالوں میں کچھ فقرے، مکالمات یا اقوال بھی آتے ہیں۔ ان میں بھی الفاظ کے حقیقی معنی نہیں، ان کا مجازی مفہوم ہی لیا جاتا ہے، کیوں کہ حقیقی معنوں میں ایسے افعال کا صدور ممکن ہی نہیں۔ مثلاً:
’’بچوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا‘‘۔ (بچے نہ ہوئے فلک بوس جنات ہوگئے)
’’مجھے دیکھتے ہی وہ سر پہپاؤں رکھ کر بھاگا‘‘۔ (ذرا خود ہی یہ دونوں کرتب عملاً کرکے دکھا دیجیے)
’’میاں! تم تو بال کی کھال نکالتے ہو‘‘۔ (محدب عدسہ اور باریک ترین اوزار میسر ہوں تب بھی یہ کمال کوئی حجام بھی نہیں دکھا سکتا)
’’ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘۔ (آخر بھوتوں کو بات یا لات رسید کرکے انھیں منانے کی کیا مار آئی ہوئی ہے؟)
’’اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے‘‘۔ (کہاں کتا کہاں شیر؟ لیکن اگر سچ مچ ایسا ہوتا تو پرائی گلی میں جا کر شیر بھی کتا ہوجاتا)
’’مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھوجس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘۔ (حاشا و کلّایہ اشارہ کسی فربہ سیاسی رہنما کی طرف نہیں)
’’وہ بھلا کس کام کا؟ وہ تو کتابی کیڑا ہے‘‘۔ (اگر وہ سچ مچ کیڑا ہوتا تو ورق اُلٹتے ہی آپ کی چیخیں نکل جاتیں)
’’آخر بدمعاش دُم دباکر بھاگ گیا‘‘( بدمعاشوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں نہ اُن کے دُم لٹکتی ہے، نہ جانے کیا دبا کر بھاگا ہوگا)
تو صاحب! محاورے کی پہچان یہ ہوئی کہ اس میں الفاظ کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے، ان کا مجازی مفہوم لیا جاتا ہے۔
’کہاوت‘ کہی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔یہ بالعموم ایسا مختصر جملہ ہوتا ہے جس میں ایک جہانِ معنی پنہاں ہو۔ ہر زبان، ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی اپنی کہاوتیں ہوتی ہیں جن میںنسلوں کے تجربات کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی بے نظیر کہاوتیں ملتی ہیں۔ ان کہاوتوں میں بہت بلیغ اوردانش مندانہ باتیں ہوتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے طور طریقے، ناگوار صورتِ حال پر تبصرے اور مسائلِ حیات سے نمٹنے کے لیے مفید اسباق۔ ایک زرّیں قول ہے کہ صدقہ کرتے وقت فراخ دلی سے کام لو، لیکن جب لین دین کے معاملات طے کرنے ہوں تو جَو کے دانے کے برابر حقیر رقم کا بھی حساب کتاب رکھنا ضروری ہے۔ اس طویل فقرے کو ایک مختصر کہاوت میں یوں سمو دیا گیا ہے: ’خیرات سَو سَو، حساب جَو جَو‘۔ اسی طرح جب یہ تلقین مقصود ہو کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے طعن و تشنیع پر توجہنہ دو، اپنے کام سے کام رکھو، تو اس طرزعمل کی تربیت دینے کو یہ کہاوت کہی جاتی ہے کہ ’بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی‘۔ محض مثال کی خاطر تھوڑی دیر کو فرض کرلیجیے کہ اگر کوئی ماہرِ لسانیات خود کو ڈاکٹر کہلواتا ہو، جب کہ اُسے محاوروں اور کہاوتوں کا فرق بھی معلوم نہ ہو، تو ایسی صورتِ حال کے لیے اُردو میں بہت دلچسپ کہاوت ہے: ’پڑھنا آئے نہ لکھنا، نام محمد فاضل‘ (یہاں ’فاضل‘ کا مطلب صاحبِ علم و فضل ہے)
فی الحال ہمارے پاس فاضل وقت نہیں، لہٰذا چند مشہور کہاوتوں پر ایک (ناقدانہ و ناصحانہ) نظر ڈال کر بس کرتے ہیں:
’’ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔‘‘ (شاید اسی وجہ سے سیاسی لیڈروں کو مسلسل بولتے ہی رہنا پڑتا ہے)
’’باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب۔‘‘ (نئی نسل کی خوش نصیبی ہے کہ اب یہ نسخہ کارگر نہیں رہا)
’’پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔‘‘ (یعنی سب لیڈر یکساں بُرے نہیں ہوتے، کچھ زیادہ بُرے بھی نکل جاتے ہیں)
’’تن پہ نہیں لتّا، پان کھائیں البتہ۔‘‘ (مفلسی میں امیروں کے سے شوق رکھنے والوں کی تذلیل کے لیے کہی گئی کہاوت)
’’تلوار کا زخم بھر جاتا ہے، زبان کا زخم نہیں بھرتا۔‘‘ (اشارہ ہمارے کالموں اور سیاست دانوں کے باہمی مکالموں کی طرف ہے)
’’خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔‘‘ (ظالمو! یہ تمھاری تنبیہ کے لیے ہے کہظلم کی آسمانی سزا یکلخت و ناگہانی سر پر آن پڑتی ہے)
’’ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی۔‘‘ (راز کی بات منہ سے نکل گئی تو سماجی ذرائع ابلاغ کے کوٹھے پر چڑھ جانے سے کوئی نہیں روک سکتا )
’’حسابِ دوستاں در دل۔‘‘ (دوستوں سے حسن سلوک کا معاوضہ نہیں طلب کیا جاتا۔ مگر اب تو حسابِ دوستاں دردِ دل ہوگیا ہے) (باقی صفحہ33پر)
بعض کہاوتیں مشہور اشعار سے بھی اخذ کرلی جاتی ہیں۔ مثلاً خواجہ حیدر علی آتشؔ کے اِس شعر کے دونوں مصرعے اب کہاوت کے طور پر الگ الگ استعمال ہونے لگے ہیں:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
حضرت مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ناصحانہ شعر بھی اسی زُمرے میں شامل جانیے:
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
اسی طرح اردو کے بہت سے اکیلے مصرعے اور کئی مکمل اشعار کہاوتوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ ’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں‘۔ مگر یہاں یہ وضاحت ناگزیر ہوگئی ہے کہ آج کے کالم کے لیے پرچۂ سوال بھیجنے والے پروفیسر صاحب ہمارے بہت پُرانے اور بہت بے تکلف دوست ہیں۔ وہ ہماری شیطنت اور ہمارے مسخرے پن کو بھگتنے کے عادی مجرم ہیں۔ سو، اُن کی خیر ہے۔ مگر ہماری اُن سے کھٹ پٹ ہوتے دیکھ کر آپ کو جلدی جلدی جائے پناہ تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کوگھبرانا نہیں ہے۔ آپ کے ذہن میں لسانیات کا کوئی بھی سوال اُٹھ رہا ہو تو جھٹ پٹ ہمیں بھیج دیجیے۔ آپ کے ساتھ نسبتاً نرم سلوک کیا جائے گا۔ اِن شَاء اللہ!