انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے ارمغان خورشید سیریز کے نام سے دس کتابوں کا سلسلہ شائع کرنا شروع کیا ہے جس میں سے آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں، دو زیر طبع ہیں۔ اس سے پہلے آئی پی ایس کے زیر اہتمام شائع ہونے والی پروفیسر خورشید احمد صاحب کی درج ذیل کتب یہ ہیں:
’’تحریکِ آزادی کشمیر: بدلتے حالات اور پاکستان کی پالیسی‘‘ (2016ء)، ’’اسلامی فلسفۂ حیات‘‘ (2016ء)، ’’اسلامی نظام حیات‘‘ (2016)، پاکستان میں نفاذِ اسلام‘‘(1994ء)، ’’جمہوریت، پارلیمنٹ اور اسلام‘‘ (1994ء)، ’’پاکستان، بھارت اور عالم اسلام‘‘ (1994ء)
پروفیسر خورشید احمد صاحب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
معروف مدبر و مفکر، سیاست دان، ماہر اقتصادیات، مصنف اور محقق پروفیسر خورشید احمد (پیدائش:23مارچ 1932ء دہلی) کا شمار اُن پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان اور امتِ مسلمہ کے وکیل کی شناخت رکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسے دانشور اور رہنما ہیں جن سے فکری اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص، علمیت اور حب الوطنی کے قائل ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد 1985ء سے 2012ء تک ایک مختصر وقفے کے سوا 22 سال سینیٹ کے رکن اور 1978ء میں وزیر منصوبہ بندی، اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ 1979ء میں آپ نے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی اور 2021ء تک اس کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بنیادی ٹرسٹی، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، لیسٹر، برطانیہ، یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز لاہور کے بورڈ آف گورنرز اور اسلامک فائونڈیشن، برطانیہ کے چیئرمین بھی رہے۔
پروفیسر خورشید احمد نے اردو اور انگریزی میں سو سے زائد کتب تدوین اور تصنیف کی ہیں۔ آپ کی کتب اور مضامین کو عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشین، ہندی، چینی، کورین اور فارسی کے علاوہ دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا۔
پروفیسر خورشید احمد پر ملائشیا، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے، جبکہ ان کی تعلیمی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملایا یونیورسٹی ملائشیا نے 1982ء میں تعلیم، لغیرہ یونیورسٹی (Lough borough) برطانیہ نے 2003ء میں ادب، اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائشیا نے 2006ء میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازی اسناد عطا کیں۔ پروفیسر خورشید احمد کو معاشیاتِ اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بینک نے 1989ء میں اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا، جبکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کے لیے خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے 1990ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ شہری اعزاز ’’نشان امتیاز‘‘ عطا کیا۔
راقم بچپن سے ان کی تحریروں کا عاشق ہے۔ انہوں نے اللہ کے دین کے لیے بے پناہ جدوجہد کی، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ راقم نے آٹھویں کتاب کو اس کی اہمیت کی وجہ سے سب سے پہلے رکھا ہے۔
تمام آٹھوں کتابوں پر پروفیسر خورشید احمد صاحب کا یہ پیش لفظ لگایا گیا ہے، جسے ہم قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے درج کرتے ہیں۔
’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بیش بہا انعامات سے نوازا ہے۔ ایک جانب دیگر ہزاروں مخلوقات کی طرح اس کی جسمانی اور طبعی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام فرمایا، تو دوسری جانب اس کا رتبہ ان تمام مخلوقات سے بلند کرکے اس کی اخلاقی، تہذیبی، تمدنی اور روحانی نشوونما کو بھی اپنے ذمے لے لیا۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سوا لاکھ کے قریب انبیا علیہم السلام دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف اوقات میں مبعوث فرمائے، یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضرت محمدؐ پر تکمیل پذیر ہوا۔ ان انبیا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی علمی، اخلاقی، اور فلسفیانہ ہدایت کے لیے وحی کا ایک سلسلہ شروع کیا جو قرآن کریم پر منتج ہوا۔ آخری پیغمبرؐ کی آمد کے ساتھ جہاں کارِ نبوت تکمیل کو پہنچا، وہیں قرآن کریم کی تکمیل کے ذریعے الہامی ہدایت کا سلسلہ مکمل ہوا۔ یوں قرآن و سنت کی صورت میں ایک ایسا نقشۂ زندگی انسانیت کو میسر آگیا جو زندگی کے ہر گوشے اور ہر دائرے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
انسانیت کے ارتقا اور علم و عمل کے نئے ذرائع کی دریافت نے انسان کو کسی حد تک آزادیِ فکر سے نوازا تو وہ اس خام خیالی کا شکار ہوگیا کہ وہ اب الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ ظلم، عدم مساوات اور طاغوتی طاقتوں کے غلبے کی صورت میں نکلا۔ اسی خام خیالی نے دنیا کو اس استعماری نظام کے شکنجے میں لاڈالا جس کی ہر صورت افراد اور اقوام کے استحصال پر منتج ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے فی زمانہ انسانی زندگی کے تمام دائرے اور تمام شعبے اس سے براہِ راست متاثر ہیں۔ اس پر مستزاد وہ ذہنی پسماندگی اور مغلوبیت کی کیفیت ہے جس کی وجہ سے کسی متبادل کی تلاش میں انسانوں کی اکثریت سرگرداں ہونے کے باوجود محروم ہے۔
میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تحقیق، تصنیف و تالیف اور سیاسی تحرک میں گزارا ہے۔ اس پورے عرصے میں میری کوشش یہی رہی کہ حتمی الہامی ہدایت یعنی قرآن و سنت کی جامع تعلیمات کی روشنی میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ چنانچہ علمی و عملی جدوجہد کے دوران یہ مقصد میرا مرکزِ نگاہ تھا کہ اپنی صلاحیت اور دائرۂ اختیار کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان کو بالخصوص اور عالمِ انسانیت کو بالعموم استعماری گرفت سے آزاد کروا کر فلاح و ہدایت کے اُس راستے پر گامزن کرنے کی جدوجہد میں اپنا حصہ شامل کیا جاسکے جو الہامی ہدایت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
اس ضمن میں نظریاتی و عملی پہلوئوں پر میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے سیکڑوں مضامین تحریر کیے ہیں اور بے شمار مواقع پر گفتگو کی صورت میں اپنے خیالات کا ابلاغ کیا ہے۔ اس میں سے بہت کچھ گزشتہ دہائیوں میں مربوط صورت میں شائع بھی ہوا ہے، لیکن ایک بہت بڑا لوازمہ ابھی ایسا موجود ہے جسے ترتیب دینے کی ضرورت باقی ہے۔ یہ فرض انجام دینے کی خواہش میں کئی برس سے اپنے اندر پاتا ہوں لیکن صحت کی صورتِ حال کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا کہ اپنے ماضی کے کام کا جائزہ لے کر اسے اشاعت کے لیے مرتب کرسکتا۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ساتھیوں نے برادرم خالد رحمٰن کی سربراہی میں اس ادھورے کام کی تکمیل کی ذمے داری اپنے سر لی ہے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان کی نظریاتی اساس، ملک میں آئینی جدوجہد، طرزِ حکمرانی کے سوال، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک امریکہ تعاون، اسلام اور مغرب کے باہمی تعلق اور جاری کشمکش، اور معاشی صورت حال اور امکانات جیسے موضوعات پر سات کتب مرتب ہوچکی ہیں۔ کچھ دنوں میں تین اور کتب بھی مکمل ہونے کو ہیں، ان شا اللہ۔ ان کتب کا حصہ بننے والے بیشتر مضامین میری سینیٹ کی تقاریر پر مبنی ہیں، جبکہ دیگر مضامین مختلف مواقع پر لکھے گئے، جن کو اب یکجا کردیا گیا ہے۔
میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے انتہائی محنت، عرق ریزی اور قابلیت کے ساتھ یہ لوازمہ ترتیب دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری سعی کو قبول فرمائے اور ہماری کاوشوں کو اپنے لیے خالص کرلے‘‘۔
مرتبِ کتاب جناب خالد رحمٰن تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان کے بارے میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ مواقع کی سرزمین ہے۔ دوسری جانب اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز طبقات نے ان مواقع کو ضائع کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مواقع کی موجودگی اور انہیںضائع کرنے کے حوالے سے بلوچستان ایک نمایاںکیس کے طور پر سامنے آتا ہے۔ بلوچستان کی بہ رضا ورغبت بطور صوبہ پاکستان میں شمولیت کے وقت [[1948] سے اب تک یہاں پانچ بار فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔ یوں کچھ اتار چڑھائو سے قطع نظر بلوچستان کی صورت حال قومی اور صوبائی سطح پر گورننس کی خرابیوں کی ایک بڑی علامت بن گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے خرابیوں کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہ ہوئی ہو۔ مختلف ادوار میں اور مختلف سطحوں پر غور و فکر اور بلوچستان کی سیاسی و سماجی قیادت کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی اہم تجاویز بھی سامنے آتی رہی ہیں، تاہم ان تجاویز پر یا تو سرے سے عمل ہی نہیں ہوا، یا عمل درآمد میں اس قدر کمزوریاں رہی ہیں کہ اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔ یعنی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ: ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔
یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ صورتِ حال کی خرابی میں مقامی اور قومی سطح سے لے کر بہت سے بین الاقوامی عوامل کارفرما ہیں۔ یوں اصلاحِ احوال کی کسی بھی طرح کی کوششیں اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب حالات کے تجزیے سے لے کر اقدامات تک فیصلوں میں جامعیت ہو اور مقامی و ملکی سطح پر تمام متعلقہ افراد اور ادارے اس کا حصہ ہوں۔
’’ارمغان خورشید‘‘ سلسلے کی زیر نظر کتاب ’’بلوچستان کی صورتِ حال: مسائل کی نوعیت، اسباب اور حل‘‘ پروفیسر خورشید احمد کی بلوچستان کی صورت حال سے متعلق تقاریر اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صاحب نے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اور ان کے اسباب کیا ہیں؟ ان مسائل کے حل نہ ہونے میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا کیا کردار ہے؟ بلوچستان میں مختلف بیرونی طاقتوں کا کیا کردار ہے؟ ان کے کیا منصوبے ہیں؟ اور ان مسائل کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔
اس سیریز کی دیگر کتب کی طرح اس کتاب میں شامل تقاریر بھی سینیٹ میں پروفیسر صاحب کے خطابات کی مدد سے مرتب کی گئی ہیں۔ ان خطابات میں بعض ان کمیٹیوں کا ذکر بھی موجود ہے جن میں انہوں نے بطور رکن شرکت کی اور رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔ موضوع کی مناسبت اور اہمیت کے پیش نظر بعض رپورٹوں کی تلخیص اور سفارشات بھی اس جلد کا حصہ ہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور بلوچستان بار کونسل کے زیر اہتمام کوئٹہ میں منعقدہ سیمینار کی رپورٹ ہے۔ سیمینار کے شرکا میں بلوچستان کی سیاسی و سماجی قیادت سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کے علاوہ کئی ماہرین بھی شامل تھے۔ اس متنوع قیادت نے سیمینار کے دوران سادگی سے لیکن بہت کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسی جذبے کے ساتھ یہاں پیش کی گئی رپورٹ میں بھی احتیاط کی گئی ہے کہ شرکا نے جن الفاظ اور لب و لہجے میں اظہارِ خیال کیا ہے اسے برقرار رکھا جائے تاکہ یہ صورت حال کو درست طور پر سمجھنے اور کسی لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرنے میں معاون ہو۔
کم و بیش دو دہائیوں پر پھیلی تقاریر، مضامین اور رپورٹوں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں موجود بے چینی اور ردعمل کے پس منظر میں موجود مسائل کی نوعیت میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسی اعتبار سے مختلف اوقات میں حل کے لیے دی جانے والی تجاویز کا رخ بھی ایک ہی ہے۔ ایسے میں مباحث میں کہیں کہیں تکرار کا احساس ہو تو یہ غیر فطری نہیں ہے۔ تاہم دوسری جانب اس مطالعے کی اہمیت اس اعتبار سے بڑھ گئی ہے کہ اس دوران پاکستان اور چین کے اشتراک سے شروع ہونے والے میگا پراجیکٹ سی پیک (CPEC) نے زیر بحث مسائل کی نزاکت و حساسیت اور ان کے ممکنہ اثرات کے دائرے کو وسیع تر کردیا ہے۔
اس مجموعی تناظر میں کتاب میں پیش کیے گئے مباحث مطالعہ پاکستان اور مطالعہ بلوچستان کے طلبہ و اساتذہ اور محققین کے لیے تو مفید ہیں ہی، اس سے کہیں بڑھ کر یہ پالیسی سازوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ وہ ماضی کی کوششوں اور ان کے اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج کے تناظر میں بہتر فیصلے کرسکیں‘‘۔
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے، پہلے حصے میں:
٭سلگتے مسائل اور قیادت کی ذمہ داری (ترجمان القرآن)
٭بیرونی عزائم اور مقابلے کے لیے حکمت عملی (ترجمان القرآن)
٭ بحران کی نوعیت: اصلاحِ احوال کیسے ہوگی؟ (سینیٹ)
٭ واقعات کا تشویش ناک تسلسل: حکمت عملی میں بہتری کی ضرورت (سینیٹ)
٭بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر پارلیمنٹ کی کمیٹی کی رپورٹ (تلخیص)
٭ دہشت گردی کے مسلسل واقعات: پریشان کن سوالات
دوسرے حصے میں:
٭بلوچستان: صورتِ حال اور اقدامات بلوچ قیادت کی نظر میں
کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی لگایا گیا ہے۔
اس کتاب کا سیاست سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو مطالعہ کرنا چاہیے، خاص طور پر صحافی حضرات اور اساتذہ و طلبہ کو جو پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے پریشان ہیں۔ آئی پی ایس پریس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مطبوعات کا کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں حصول ممکن بنائے، کتاب چھاپ کر نہ رہ جائے۔ کتاب عمدہ نیوز پیپر پر خوب صورت طبع کی گئی ہے، کتاب کی قیمت اہلِ بلوچستان کی مالی استطاعت کے مطابق کم سے کم رکھنی چاہیے۔