ان کی زندگی ”وفاداری بشرط استواری اصل ایماں “کا عنوان تھی
اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا شہید سے کسی نے ایک بار پوچھا کہ شیخ آپ نے کتب کم تصنیف کی ہیں، تو مرشد عام کا جواب تھا: اُصنف الرجال، یعنی میں انسان تصنیف کرتا ہوں۔ کچھ اس طرح کا معاملہ سید مودودیؒ کا ہے۔ انہوں نے کتب بھی تصنیف کیں اور انسانوں کے بنائو اور سنوار سے بھی غافل نہیں رہے۔ جس نے بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، وہ صحیح معنوں میں اسلام کا مطلوب انسان بن گیا۔ سید مودودیؒ اسلام کے اچھے رجال کار (مرجع خلائق) بھی تیار کرتے رہے۔ محمد انور خان نیازی سید مودودیؒ کے تیار کردہ ایسے ہی رجالِ کار میں سے تھے۔ جو سید کی کارگہِ فکر میں ڈھلے، تحریک کے ہوئے اور پھر پوری زندگی اسی شعور و فکر اور آمادگی کے ساتھ تحریک کی نذر کردی۔ محمد انور خان نیازی صاف ستھری، دلچسپ اور بارعب و پُروقار شخصیت کے مالک تھے اور جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ نشرواشاعت کی جان۔
سید مودودیؒ کے دورِ امارت میں مرکز جماعت سے وابستہ ہوئے، جہاں انہیں میاں طفیل محمدؒ، چودھری رحمت الٰہی، مولانا خلیل احمد حامدیؒ، مولانا نعیم صدیقیؒ، مولانا عاصم نعمانیؒ اور صفدر چودھری کی رفاقت میسر ہوئی۔ چودھری صفدر اُس وقت ناظم شعبہ نشرواشاعت تھے، جب نیازی صاحب میانوالی سے شعبہ نشرواشاعت میں کام کے لیے آئے تھے۔ یہ1970ءکا زمانہ تھا جب سیاست میں ہنگامہ خیزی اور تیزی تھی اور نشرواشاعت اور روابط کا سارا کام ایک دو افراد کرتے تھے۔ خبر بنانا اور پھر اسے اخبارات کے دفاتر میں پہنچانا ہوتا تھا۔ یہ کام اول اول تو سائیکل پر ہوتا تھا کہ جماعت اسلامی اتنی باوسائل نہ تھی، پھر کچھ عرصے بعد موٹر سائیکل میسر آئی تو اس کے ذریعے سارے شہر کا چکر لگانا اور رابطے کرنا ہوتے تھے۔ انور نیازی صاحب نے طویل عرصے جان جوکھوں میں ڈالنے والا یہ کام کیا۔
سید مودودیؒ نے تفہیم القرآن مکمل کی تو سب سے پہلے انور نیازی تھے جن کو یہ خبر سنائی۔ وہ سید مودودی ؒ کے زمانے اور اس دور کی یادوں، تذکروں اور تاریخ کے چیدہ چیدہ گوشوں پر روشنی ڈالتے رہتے اور اپنے پاس آنے والوں اور ملنے والوں کو شادکام کرتے رہتے۔ اس طرح ان کے پاس بیٹھنے والا محروم نہ رہتا۔ سیدمودودیؒ کی محبت و شفقت کا خاص طور پر ذکر کرتے۔ انہوں نے سید مودودیؒ کی رفاقت میں جس کام کا آغاز کیا وہ کام میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور پھر موجودہ امیر جناب سراج الحق کے دورِ امارات میں بھی جاری رہا۔ اس دوران شعبہ نشر و اشاعت میں جناب صفدر چودھری کے بعد جناب امیر العظیم (موجودہ قیم جماعت) اور درمیان میں کچھ عرصے کے لیے جناب شاہد شمسی بھی ناظم شعبہ رہے۔ اور سید منورحسن کے دورِامارات میں انورنیازی صاحب خود ناظم شعبہ ہوگئے۔ انہوں نے خوبی سے شعبے کو چلایا، کوئی کمی یا کمزوری محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ کارکن کی طرح کام کرتے رہے گو کہ ناظم شعبہ ہوگئے تھے۔
نشرواشاعت کے کام کے لیے وہ اپنے آپ کو ہمہ وقت دستیاب رکھتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ رات 12بجے کوئی خبر بھیجنا ہوتی اور نیازی صاحب رات گئے خبر بناتے اور پھر خود ہی اخبارات کے دفاتر فیکس کرتے۔ برسہا برس ان کا یہ معمول رہا اور اس پر وہ ثابت قدی اور استقلال سے جمے رہے۔ وہ رپورٹنگ کرنے اور خبر بنانے میں اچھی مہارت کے حامل تھے۔ گو انہوں نے کمپیوٹر نہیں سیکھا لیکن انٹرنیٹ اور اینڈرائیڈ موبائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرلیتے تھے۔
وہ منصورہ بستی کے ابتدائی مکینوں میں سے تھے۔ اُس وقت منصورہ آباد ہورہا تھا۔ اس سے قبل وہ اچھرہ میں کرائے کے مکان میں قیام پذیر رہے۔ اچھرہ سے منصورہ تک کا راستہ کچا تھا اور فصلوں سے ہوتا ہوا آتا تھا۔ اور اچھرہ میں رہنے والے جماعتی ذمہ داران اپنی سائیکلوں پر منصورہ آتے جہاں بھیکے وال سے آگے سارا راستہ کچا تھا۔ یا پھر دوسرے راستے اچھرہ سے چوبرجی اور چوبرجی سے ملتان روڈ کے ذریعے منصورہ پہنچتے جہاں سے بس چلتی تھی۔ جب مرکز جماعت اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوا تو اخبارات کے دفاتر منصورہ سے خاصے دور ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شعبہ نشرواشاعت کی کُل کائنات صرف دو کارکن صفدر چودھری اور انور نیازی ہوتے تھے۔
قاضی صاحبؒ اور سید منور حسنؒ کے دورِ امارت میں بعض اوقات انہیں خود بھی رپورٹنگ کرنا پڑتی۔ وہ خود یا کسی دوسرے فرد سے نوٹس کی مدد سے خبر بناتے تو خبر میں بھی جان ڈال دیتے۔ وہ خبر بنانا ہی نہیں جانتے تھے بلکہ اس میں جان ڈالنا بھی جانتے تھے۔ نیازی صاحب جیسی شخصیات کی جماعت سے وابستگی، مقصد سے لگن، اخلاص اور تگ و دو کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی زندگی ”وفاداری بشرط استواری اصل ایماں“ کا مصداق تھی۔
ان کی شخصی وجاہت و خوب صورتی اور دل موہ لینے والی گفتگو اپنے تو اپنے غیروں کو بھی گرویدہ بنالیتی۔ طبیعت میں سادگی، وضع داری، انکسار اور رکھ رکھائو تھا۔
نیازمندانہ لہجہ اس بانکپن کو دوبالا کرتا، سنجیدگی ان کی شخصیت کا جوہر تھی۔ ان کے سامنے کم ہی کسی کو مذاق کی جرات ہوتی، اور وہ دفتر میں آجاتے تو جم کر کام کرتے۔ نماز کا وقت ہوتا تو وضو کے لیے اٹھتے اور اذان ہوتے ہی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں پہنچ جاتے۔ وہ صفِ اول کے نمازیوں میں تھے۔ یہ مرتبہ کم کم لوگوں کو ملتا ہے۔ ذکر و اذکار اور تسبیحات بھی ان کے معمول کا حصہ تھے۔ وہ روزانہ سیر لازمی کرتے… کبھی صبح اور کبھی شام، لیکن باقاعدگی سے۔
آخری عمر میں ان کے سر اور داڑھی کے بال بھی سفید ہوگئے۔ وہ لباس بھی سفید زیب تن کرتے جو ان کی گوری چٹی اور سرخ و سپید رنگت پر خوب جچتا تھا۔ وہ منصورہ سے فراغت کے بعد منصورہ کے بالمقابل گلزار منصورہ میں کرائے کے مکان میں چلے گئے۔ ملتان روڈ پر ٹریفک کی تیزی کے باعث ان کا منصورہ آنا جانا کم ہوگیا تھا، البتہ کبھی کبھی پروگرام میں ملاقات ہوجاتی یا کسی نماز یا نماز جمعہ میں تشریف لاتے تو ضرور ملتے۔ ایک سال قبل ان کی اہلیہ انہیں داغِ مفارقت دے گئیں تو اس کے بعد بالکل گھر کے ہوکر رہ گئے اور صحت بھی مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی۔
ان کی شادی راجا احسان الحق سابق ناظم عمومی کی صاحبزادی سے ہوئی۔ راجا احسان الحق جماعت اسلامی کے دبنگ اور جی دار ساتھی تھے اور دارالاسلام پٹھان کوٹ کے زمانے سے سید مودودیؒ کے عاشقِ زار۔ سید مودودیؒ کے مشورے سے ہی یہ شادی انجام پائی جس سے اللہ نے انہیں اولاد کی دولت سے نوازا۔ اس پر وہ بہت خوشی کا اظہار کرتے۔ جب شادی ہوئی تو خاندان والوں نے ناگواری کا اظہار کیا، لیکن بعد ازاں نیازی صاحب نے انہیں راضی کرلیا اور اس رشتے نے انہیں برگ و بار عطا کیے۔ ان کا کنبہ خوب پھلا پھولا۔ ان کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں تولد ہیں جن میں سے آٹھ بچے حیات ہیں۔ ایک بیٹا بچپن میں فوت ہوا اور دو نے کشمیر میں جام شہادت نوش کیا۔ بیٹے کی شہادت پر انہوں نے جس عزم و ثبات اور صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا وہ ایک سچے اور مخلص دینی گھرانے کا پتا دیتا ہے۔ ان کے صاحبزادے نصیر خان نیازی ہمارے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے۔
نہایت متین اور سلجھے ہوئے ساتھی ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے صاحبزادے جمشید نیازی مرکز میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
اللہ والوں کی شانِ بے نیازی کیسی ہوتی ہے، ان کی شخصیت اور روح میں اللہ، اللہ کا دین اور عشقِ رسولﷺ رچا بسا ہوتا ہےجس کا وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے اظہار ہوتارہتا ہے۔ جب وہ مرکز سے فارغ ہوئے تو گریجویٹی کی مد میں کچھ رقم انہیں ملیجو ہرریٹائر ہونے والے کو ملتی ہے۔ جس میں سے 5لاکھ انہوں نے جماعت کے بیت المال میں واپس جمع کروادیے۔ جناب امیر العظیم صاحب قیم جماعت بتاتے ہیں کہ میں نے کہا: نیازی صاحب ایسے نہ کریں آپ کا خاندان بڑا ہے اور ان کی ضروریات بھی زیادہ ہیں، لیکن وہ نہ مانے اور پیسے جمع کراکے رہے اور کہا کہ عظیم صاحب مرکز میں کام کرتے ہوئے کتنی چیزیں استعمال کرتا رہا۔ یہ رقم اس لیے جمع کرارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کمی بیشی اور کمی کوتاہی کو معاف فرمائے۔
انور نیاز ی صاحب رخصت ہوگئےمگر ان کی معطر اور خوب صورت یادیں او ر تحریکِ اسلامی کے ساتھ مخلصانہ وابستگی بعد میں آنے والوں کے لیے سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را