مقبوضہ کشمیر کے ایک ہردلعزیز آزادی پسند راہنما محمد یاسین ملک کئی برس سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ ایک تو یاسین ملک صحت کی اچھی کیفیت میں نہیں ہیں اور آئے روز ان کی صحت بگڑ جانے کی خبریں دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں میں تشویش کا باعث بنتی ہیں، دوسرے یہ کہ تہاڑ جیل کے ساتھ کشمیریوں کی مجموعی طور پر بہت تلخ اور بھیانک یادیں وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ بھارت نے تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کسی کشمیری قیدی کے مقدمے کو میڈیا کی زینت بنایا، یا غیرضروری طوالت اور پیچیدگی کا شکار کیا تو اس کا نتیجہ 1980ء کی دہائی میں محمد مقبول بٹ، اور بعدازاں افضل گورو کی پھانسی کی صورت میں برآمد ہوا۔ ان دونوں پھانسیوں نے کشمیریوں کا غصہ اور درد بڑھایا اور وہ بھارت کے ساتھ بیگانگی میں بہت آگے نکل گئے۔ ان دونوں مقدمات میں استغاثہ کا کیس حد درجہ کمزور رہا مگر بھارتی عدلیہ نے کیس کی فائل اور دلائل پر فیصلہ کرنے کے بجائے جیل سے باہر کی رائے عامہ کی خوشی کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ مقبول بٹ کو تو قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے جرم میں تختۂ دار پر چڑھایا گیا جو کشمیر سے دور برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ہوا تھا۔ یہ بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کا قتل تھا اور اس میں مقبول بٹ کا قصور فقط اتنا تھا کہ مہاترے کے اغواکاروں نے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح افضل گورو کے کیس میں بھارت کی عدالت نے دوٹوک انداز میں لکھا کہ گورو کو عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے سزا دینا لازم ہوگیا ہے۔
یاسین ملک کا کیس جس انداز سے اُلجھایا جا رہا ہے اس سے یہ خدشات موجود ہیں کہ بھارت یاسین ملک کو کشمیر کی ایک اور نسل کے لیے عبرت کا سامان بنانے کی راہ پر چل رہا ہے۔ یاسین ملک پر دہلی کی عدالت میں پردوں کے پیچھے سماعت چل رہی ہے اور ان پر دہشت گردی کی سازش کرنے، فنڈز اکٹھا کرنے سمیت بہت سے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ ان میں تازہ اضافہ یواے پی اے کے تحت مقدمات ہیں۔ یہ سیدھے سبھائو غداری کے اقدام سے متعلق قانون ہے۔ اس قانون کے تحت درج مقدمے کا تعلق 2017ء میں کشمیر میں جاری عوامی مزاحمت کی زوردار لہر سے ہے جس میں مشترکہ مزاحمتی فورم کے پلیٹ فارم سے یاسین ملک کا مرکزی کردار تھا۔ یہ خالص ایک پُرامن سیاسی مزاحمتی تحریک تھی جس کی قیادت حریت کانفرنس کے بجائے سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کے ہاتھ میں تھی۔ اس تحریک میں شریک لوگوں پر ایک نئے سیاہ قانون Unlawful Actvities Prevention Act(UAPA)کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ یاسین ملک پر فردِ جرم عائد کرنے کی تیاری مکمل ہے اور ایسے میں بھارتی میڈیا نے دہلی کورٹ کے ذرائع سے یہ خبر دی کہ یاسین ملک نے اپنے اوپر عائد تمام الزامات کو تسلیم کرلیا ہے۔ یاسین ملک کا کیس جس انداز سے اُلجھائو کا شکار کیا جارہا ہے اس میں کچھ بعید نہیں کہ بھارت کشمیر کی نوجوان نسل کو اپنے پرانے آئیڈیلز اور رول ماڈلز سے کاٹ پھینکنے اور دور کرنے کے لیے یاسین ملک کو ایک علامت کے طور پر پیش کردے۔
یاسین ملک اور کشمیر کی مزاحمت کا روزِاوّل کا ساتھ ہے۔ جب کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی سے مایوس ہوکر نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا تو یاسین ملک ان نوجوانوں میں سرفہرست تھے۔ ان کا نام 1989-90ء کے دنوں میں عالمی میڈیا میں گونجتا رہا، کیونکہ وہ سری نگر شہر کو کنٹرول کرنے والے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چار ایریا کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ یاسین ملک اپنے خفیہ ٹھکانے پر بھارتی فوج کے چھاپے کے دوران شدید زخمی ہوئے اور ان زخمون نے اُن کا بدن چُور چُور کرڈالا۔ یہ زخم مندمل تو ہوئے مگر یاسین ملک دوبارہ پوری طرح بحال نہ ہوسکے۔ ان کا چہرہ اور کرچی کرچی وجود سمٹ تو گیا مگر مزاحمت اور استقامت کی کہانی ان کے چہرے پر نشانات اور اثرات کی صورت میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہوکر رہ گئی۔ یاسین ملک زخمی حالت میں ہی کئی برس تک قید رہے اور ایک روز رہائی کے بعد انہوں نے مسلح جدوجہد سے الگ ہوکر سیاسی مزاحمت کا اعلان کیا۔ یاسین ملک نے کشمیر میں مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال کی جسے ختم کرانے کے لیے دہلی سے معروف دانشور اور صحافی آنجہانی کلدیپ نیر خصوصی طور پر سری نگر آئے تھے۔
یاسین ملک پر 1990ء سے ہی اقدام قتل، قتل اور سازش سمیت کئی مقدمات قائم تھے، مگر انہیں بھارتی ذرائع ابلاغ میں بلا کر سنا جاتا تھا۔ بھارت سے آنے والے سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ان سے ملتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ من موہن سنگھ نے بطور وزیراعظم یاسین ملک کو ملاقات کی دعوت دی اور یاسین ملک نے اُن سے ملاقات کی۔ یاسین ملک کے خلاف مقدمات کی بند فائلوں میں اس وقت بھی انہیں دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھارت کا وزیراعظم یاسین ملک سے ملاقات کرکے خود کسی جرم کا ارتکاب کررہا تھا؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ یاسین ملک پر اصل الزام یہ ہے کہ جب کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی تو اس کا نمایاں نام یاسین ملک تھے، اور اسی دور میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ نے کئی کارروائیوں میں کشمیر کے ہندو پنڈتوں کو نشانہ بنایا۔ ان میں مقبول بٹ کو پھانسی کی سزا سنانے والے کشمیری پنڈت نیل کنٹھ گنجو کا قتل بھی شامل تھا جس کی ذمہ داری لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔ زی ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’آپ کی عدالت‘‘ میں کشمیری پنڈتوں نے یاسین ملک سے بہت سخت سوالات کیے تھے۔ یاسین ملک کو پنڈتوں پر مظالم کے کشمیری مسلمان کردار کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان دنوں کشمیری پنڈتوں پر مظالم کی ایک فرضی داستان بالی ووڈ کی فلم ’’کشمیر فائلز‘‘ کے نام سے بھارت بھر میں سرکاری اہتمام سے دکھائی جارہی ہے ۔ اس فلم میں یاسین ملک کا کردار کسی نہ کسی انداز سے شامل کیا گیا ہے۔ اس فلم نے بھارتی ہندوئوں کے جذبات بھڑکا دئیے ہیں اور وہ برسرِعام انتقام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اہتمام کے ساتھ بنائے جانے والے اس ماحول کا تعلق یاسین ملک کے مستقبل سے ہے۔ یاسین ملک نے اگر اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو تسلیم کیا بھی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں بھارت کے نظامِ انصاف کی نظروں میں اُترا ہوا خون نظر آگیا ہے اور انصاف کی روشنی معدوم دکھائی دی ہے۔