اسرائیلی دہشت گردی کا شکار فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ

صحافت انتہائی اہم، دیانت دارانہ اور مقدس پیشہ ہے۔ صحافی انسانی معاشرے کی آنکھ اور کان ہے۔ سماعت و مشاہدے کو زاویہ نگاری اور ذاتی پسند و ناپسند سے آلودہ کیے بغیر قارئین اور ناظرین تک من و عن پہنچا دینا ایک ذمہ دار صحافی کا فرضِ منصبی ہے۔ آج ہم ایسی ہی ایک دیانت دار صحافی خاتون کا ذکر کریں گے جسے اسرائیلی فوج نے انتہائی بے دردی سے سرِعام قتل کردیا۔

شیریں ابوعاقلہ نے بیت المقدس کے قریب بیت اللحم میں آباد ایک راسخ العقیدہ مسیحی گھرانے میں جنم لیا۔ یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ شہر کے انگریزی ہجے یعنی Bethlehemکی وجہ سے اسے بیت اللحم کہا جاتا ہے، یعنی گوشت کا مکان یا دکان.. اور کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہاں زمانہ قبل مسیح ایک بڑا مذبح ہوا کرتا تھا۔ اس کا عبرانی تلفظ بیت لییم ہے یعنی روٹی کی دکان یا تندور۔ اس علاقے کو اللہ نے برکتیں عطا کی تھیں اور انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحییٰؑ المعروف John the Baptistکی ولادت باسعادت اسی علاقے میں ہوئی، اس لیے یہ شہر رزق یا برکت کا گھر (عبرانی بیت لییم) مشہور ہوگیا۔ کنعان کے مشرکین نے اس مقام کو افزائش نسل کے دیوتا لحمو کے نام سے موسوم کیا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ کے مقامِ پیدائش پر وہ تاریخی کلیسائے میلاد یا Church of Nativity بھی ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسیحی زائرین حضرت عیسیٰؑ اور ان کی پاک باز والدہ، سیدہ مریم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔

شیریں بہت کم عمری میں والدین کی شفقت سے محروم ہوگٗئیں اور ابتدا میں خالہ نے ان کی پرورش کی جو امریکہ میں رہتی تھیں۔ اسی بنا پر شیریں کو امریکی شہریت مل گئی۔ کچھ عرصے بعد وہ بیت المقدس واپس آگئیں۔ مشرقی بیت المقدس کے ثانوی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے اردن کی جامعہ علوم و ٹیکنالوجی (JUST)کے کلیہ مہندسین (انجینئرنگ) میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک سال بعد وہ جامعہ یرموک (اردن) کے شعبہ صحافت میں آگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز بننے کے لیے انھوں نے قلم سنبھالا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو فلسطین سے وابستہ ہوگئیں۔ ساتھ ہی انھوں نے فرانسیسی ریڈیو مانٹی کارلو پر بھی سیاسی تجزیے پیش کیے۔ شیریں کو عربی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اس دوران انھوں نے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں اور انسانی و جمہوری حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی کام کیا۔ جب 1996ء میں الجزیرہ نے نشریات کا آغاز کیا تو شیریں نے سمعی (ریڈیو) صحافت کے ساتھ دوردرشن (ٹیلی ویژن) کا محاذ بھی سنبھال لیا۔

شیریں ابوعاقلہ کو دفتر میں بیٹھ کر کالم لکھنے اور تجزیے بگھارنے کے بجائے میدان سے رپورٹنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا، چنانچہ وہ فلسطینیوں کے ہر مظاہرے کا انکھوں دیکھا حال براہِ راست سناتیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں کے گھر جاکر سوگوار خاندان سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے ان کے جذبات کا بامحاورہ انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرتیں۔ شیریں کا یہ انداز ان کے ناظرین کو بہت پسند آیا۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے جامعہ یروشلم کے شعبہ عبرانیات میں داخلہ لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نشرواشاعت کے اسرائیلی ادارے عبرانی بولنے والے قارئین اور ناظرین کو فلسطینیوں کی حالتِ زار سے آگاہ نہیں کرتے اس لیے فوجی مظالم کے بارے میں انھیں کچھ خبر نہیں، اور اسرائیلیوں کی اکثریت فلسطینیوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔

شیریں عملی صحافت کے ساتھ میدانِ صحافت میں قدم رکھنے والے نئے ساتھیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی بھی بہت خوش دلی سے کرتی تھیں، اور وہ عملاً اپنے جونیئر ساتھیوں کی مشفق ”باجی جان“ تھیں۔

اس وقت جبکہ امریکہ و مغرب اور عالمی میڈیا کی توجہ روس یوکرین جنگ کی طرف ہے، تل ابیب نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کا کام تیز کردیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ اگلے دوسال کے دوران 4000 نئے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ملکیت کی شرائط میں وضاحت سے درج ہے کہ ان گھروں میں صرف یہودی مذہب کے ماننے والے رہ سکیں گے اور کسی غیر یہودی کو کرایہ دار رکھنا بھی غیر قانونی ہوگا۔ اس مقصد کے لیے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں۔ یہاں آباد لوگوں کو شدید ترین گرمی میں ان کے گھروں سے نکال کر اردن کی سرحد پر خیمہ بستیوں کی طرف ہانکا جارہا ہے۔

اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ عرب علاقوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ شمال مغربی کنارے کے چالیس ہزار آبادی والے شہر، جنین سے خیمہ بستی کی طرف دھکیلے بلکہ ٹھونسے جانے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ مظاہرہ کرنے والے نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے بھاری فوجی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔
بدھ (11 مئی) کو علی الصبح جب بلڈوزر جنین پہنچےتو وہاں کے رہائشیوں نے زبردست مزاحمت کی اور نعرہ زن ہجوم نے فوج کی طرف پتھر پھینکے۔ پتھرائو کے جواب میں اسرائیلی فوج ربر کی گولیاں استعمال کررہی تھی اور وقتاً فوقتاً اصلی گولیاں بھی برسائی جارہی تھیں۔ اس دوران شیریں ابو عاقلہ وہاں پہنچ گئیں۔ روزنامہ القدس کے علی السمودی کے ساتھ جنین کی رہائشی، مقامی خاتون صحافی شازیہ ہنیشا پہلے سے وہاں موجود تھیں۔ شازیہ کا کہنا ہے کہ ”ہم تینوں ذرا بلندی پر کھڑے تھے۔ فلسطینی مظاہرین ہماری پشت پر اور اسرائیلی فوج ہمارے سامنے تھی۔ شیریں، علی اور میں نے شناخت کے لیے PRESSکی واسکٹ پہن رکھی تھی۔ فوج کے سپاہی ہمارے اتنا قریب تھے کہ ان کے سینوں پر آویزاں بیج سے ہم ان کے نام پڑھ سکتے تھے“۔ شازیہ کے مطابق فوج نے شست باندھ کر ہم تینوں کو نشانہ بنایا۔

ایک گولی شیریں کی پیشانی پر لگی اور ان کی فولادی ٹوپی (ہیلمٹ) کو چیرتی ہوئی 51 سالہ خاتون صحافی کے کاسہ سر کو پاش پاش کرگئی۔ ایک گولی نے علی السمودی کے پیٹ کو نشانہ بنایا، جبکہ شازیہ ہنیشا کی طرف آنے والی گولی ان کے بازو کو چھوتی ہوئی چلی گئی۔ شیریں تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں، علی شدید زخمی ہیں۔ خوش قسمتی سے جواں سال شازیہ کو مرہم پٹی کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔

چند گھنٹے بعد اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں رعم پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز (Benny Gants) نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج نے براہِ راست شیریں کو نشانہ نہیں بنایا، جائے واردات کے بصری تراشوں (Footage) میں فلسطینی دہشت گردوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ خاتون صحافی کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی ہے اور ایک قیمتی انسانی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے وزیردفاع کے تجزیے سے اتفاق کیا اور اسرائیلی فوج کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ یعنی مزید تحقیقات کا دروازہ طاقت و تکبر کی کیل سے بند کردیا گیا۔ ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ واقعہ صبح پانچ بجے پیش آیا اور فاضل وزیر دفاع نے کنیسہ میں وضاحتی بیان صبح ساڑھے آٹھ بجے جاری کیا۔ صرف ساڑھے تین گھنٹے یعنی لاش کے تشریح الجثہ (پوسٹ مارٹم) سے بھی پہلے تحقیقات مکمل کرلی گئیں۔

مقتدرہ فلسطین (PA) کی وزارتِ صحت نے اسرائیلی حکومت کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اسے خاتون صحافی کا بہیمانہ قتل قرار دیا ہے۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے رویّے سے خوف زدہ ہوکر عالمی نشریاتی اداروں نے اپنے عملے کو فلسطینی علاقوں سے ہٹالیا ہے اور صرف الجزیرہ کے چند صحافی یہاں موجود ہیں۔ سینئر صحافیوں شیریں ابو عاقلہ اور علی السمودی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہاں موجود رہ جانے والے سخت جان صحافیوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے صحافیوں کے خلاف دانستہ کارروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ سال اسرائیلی فوج غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری کرچکی ہے۔ اس موقع پر الجزیرہ نے اُن 45صحافیوں کی فہرست شائع کی ہے جو 2000ء سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ فلسطینی انجمن صحافیان کے مطابق یہ تعداد 55ہے۔

شیریں کے قتل کے بارے میں اسرائیلی وزیردفاع کی وضاحت کو امریکہ سمیت ساری دنیا نے مسترد کردیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن IFJ اور فلسطینی صحافیوں کی تنظیم PSJنے شیریں کے قتل کو آزادی صجافت پر براہِ راست حملہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ایک شہری اور معروف صحافی کی موت پر شدید تشویش ہے اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے بھی اس قتل کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ مقتدرہ، شیریں کے قتل کا مقدمہ جرائم کی عالمی عدالت ICCمیں درج کرا رہی ہے۔ فلسطینی رہنما کا یہ عزم ایک بیان سے زیادہ کچھ نہیں، اس لیے کہ اسرائیل ICC کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اسرائیلی فوج کے کلیجے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئے اور اس مظلوم کے جلوسِ جنازہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جنین کے مقامی گرجا گھر سے شیریں کا جنازہ اٹھتے ہی اسرائیلی فوج نے کئی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان کا جنازہ جب نابلوس اور رام اللہ سے ہوتا ہوا مشرقی بیت المقدس میں بیت اللحم کے قریب جبل صہیون (Mount Zion) کے مسیحی قبرستان پہنچا تو پولیس نے سوگواران پر لاٹھی چارج کیا، تابوت کو کاندھا دینے والوں کی گھونسوں اور لاتوں سے تواضع کی گئی اور کئی بار تابوت گرتے گرتے بچا۔ جنازے کی ایسی بے حرمتی کی تو شاید پتھر کے دور میں بھی کوئی مثال نہ ملے۔ آفرین ہے حریت پسند دلاوروں پر جنھوں نے لاٹھی اور لاتوں کی چوٹ صبر اور عزم کے ساتھ برداشت کرکے تابوت کو نیچے نہ گرنے دیا اور بنتِ فلسطین کو پورے احترام کے ساتھ ان کے والدین کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا۔ غیر شادی شدہ شیریں نے ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ سوگوار چھوڑا ہے۔ ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ ان کا تعارف تھا۔ اسی بنا پر ساتھیوں میں وہ شیریں تبسم (مسکراہٹ) کہلاتی تھیں۔ درندوں نے اس لازوال مسکراہٹ کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا، یا یوں کہیے کہ خبر کی تلاش میں نکلنے والی شیریں خود ہی خبر بن گئیں۔
مکہ کے جنت المعلاۃ اور مدینہ کے البقیع کی طرح جبلِ صہیون کا قبرستان مسیحیوں کے لیے تقدیس و حرمت کا حامل ہے، کہ عبرانی روایات کے مطابق یہاں بنی اسرائیل کے کئی انبیا اور حضرت مسیحؑ کے پاک باز و متقی حواریوں (اصحابِ مسیحؑ) کی قبریں ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف کی بے حرمتی تو روزمرہ کا معمول ہے، شیریں اور الجزیرہ سے نفرت میں اسرائیلی فوج نے جبل صہیون کا تقدس بھی پامال کردیا۔ شیریں کے جنازے پر اسرائیلی فوج کی درندگی کے مناظر دیکھتے ہوئے حضرت نعیم صدیقی کا یہ کلام بے اختیار ہمارے لبوں پر آگیا:
ہماری ہستی ہی کیا ہے آخر
بس ایک آوازئہ صداقت
بس ایک شمعِ فضائے ہستی
دبا سکو تو صدا دبادو
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
صدا دبے گی تو حشر ہوگا
دیا بجھے گا تو صبح ہوگی
……….
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔