ملکی سیاسی صورت حال تین مناظر کے گرد گھوم رہی ہے۔ پہلا منظر یہ ہے کہ فوج سیاست سے الگ اور غیر جانب دارہے۔
دوسرا منظر یہ کہ شہباز حکومت دستور کی شق 95 کی روشنی میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد قائم ہوئی اور پارلیمنٹ کو اگست 2023ء تک دستوری میعاد دستیاب ہے، تاہم زمینی صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ صدر نے عدالتِ عظمیٰ کے نام ایک مکتوب میں وفاقی حکومت کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کی استدعا کررکھی ہے۔ تحریک انصاف کے 125 ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دے رکھے ہیں لیکن اسپیکر قومی اسمبلی ان کی تصدیق کا عمل شروع نہیں کرپائے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا منصب عدالت میں زیر سماعت ہے، سندھ میں نامزد گورنر نسرین جلیل ابھی حلف نہیں اٹھا سکیں، خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت اپنی مدت مکمل کرے، بلوچستان میں اسمبلی اور حکومت کے اپنے ہی رنگ ہیں۔ سیاسی صورت حال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان سڑکوں پر ہیں۔ اسے احتجاج کہیے یا انتخابی مہم… وہ اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ اس ساری صورت حال پر ملک کی مقتدر قوت خاموش ہے۔ ان سے متعلق عمران خان کا شکوہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں، بلکہ نجی مجلسوں میں ان کے فرمودات یہاں نقل نہیںکیے جا سکتے۔ کچھ زیر زمین معاملات ایسے حساس ہیں کہ ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔
تیسرا منظر یہ ہے کہ معیشت کا بحران جس قدر نظر آرہا ہے اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران حکومت نے عدم اعتماد کی تحریک کی بو پاکر پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں سے متعلق فیصلہ کرکے اقتصادی طور پر ایک تباہ کن قدم اٹھایا، اس کا مقصد عدم اعتماد کی صورت میں آئندہ حکومت کو مفلوج کرنا تھا۔ یہ معاشی بوجھ بتارہا ہے کہ حالات خوفناک ہیں۔ ملک میں غیر یقینی فضا کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات تارِ عنکبوت سے معلق ہیں اور کوئی دوست ملک ایک ٹکہ دینے کا روادار نہیں۔ یہ صورتِ حال اسمبلیاں تحلیل ہونے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اگر یہ کام ہوگیا تو معاشی بحران رفع ہونے کے بجائے مزید خوفناک ہوجائے گا۔ عوام کو اعتماد میں لے کر سخت معاشی فیصلوں کا کڑوا گھونٹ بھرنے کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ پی ٹی آئی نے جو الیکشن کا راگ الاپ رہی ہے، یہ طے کیا ہے کہ موجودہ انتخابی قوانین کے ذریعے ہی انتخابات منعقد ہوجائیں۔ وہ جانتی ہے کہ اس بار الیکشن کے نتائج 2018ء والے نہیں ہوں گے، لہٰذا وہ دھرنوں کی سیاست جاری رکھنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ نوازشریف جلد الیکشن کے حامی ہیں مگر انہیں وزیراعظم شہبازشریف، کابینہ اور آصف علی زرداری قائل کررہے ہیں کہ ملکی معاشی صورت حال میں جلد الیکشن کرانے سے سیاسی نقصان ہوگا۔ نوازشریف کو آصف علی زرداری نے براہِ راست رابطہ کرکے قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترامیم کی جائیں اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔پاکستان جہاں آج سنگین معاشی، سیاسی اور سماجی چیلنجوں سے دوچار ہے وہیں عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے منفی موسمی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کے ایک بڑے حصے کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط کی سی صورت حال میں مبتلا ہوجانے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ خشک سالی کا یہ چیلنج انسانی برادری کو کتنے بڑے پیمانے پر متاثر کرے گا، اندازہ ہے کہ کرہ ارض کی 40 فیصد تک زمین تنزلی کا شکار ہے جس سے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت 44 ٹریلین ڈالر مالیت کی عالمی جی ڈی پی کا تقریباً نصف خطرے کی زد میں ہے۔ پاکستان کا اس خطرے سے براہِ راست دوچار 23 ملکوں میں شامل ہونا حکمرانوں اور قومی رہنمائوں کے لیے یقیناً فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر پورے اہتمام کے ساتھ بچائو کا آغاز کردیا جائے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت مسلسل بڑھ رہی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق 2025ء تک پاکستان پانی کی انتہائی قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائے گا، لیکن ہماری ناعاقبت اندیشی کا یہ عالم ہے کہ ملکی سیاسی لیڈرشپ کو جنگ و جدل ہی سے فرصت نہیں، جبکہ ہر نوع کی تباہی و بربادی ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے قومی معیشت کی جو تصویر کھینچی ہے اُس سے بھی واضح ہے کہ ملک سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ وزیر خزانہ کے بقول ڈالر کی پرواز اور مہنگائی میں اضافہ آئی ایم ایف سے معاہدے اور پھر اس کی خلاف ورزی کے اثرات ہیں۔ عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتِ خرید اور پاکستان میں قیمتِ فروخت کے درمیان فرق سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہلچل مچی ہوئی ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت 10.4ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑ کر گئی، یہ رقم قرض اتارنے میں استعمال ہوچکی ہے اور اس وقت زرمبادلہ کے یہ ذخائر صرف 45دن کی درآمدات کے مساوی ہیں۔
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کی وجہ سے قومی معیشت کی کشتی خطرناک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور مشکل فیصلوں کے بغیر یہ بھنور سے نہیں نکل سکتی۔ حکومت کو اندازہ ہورہا ہے کہ ملک کو درپیش معاشی بحران سے نمٹنا کس قدر دشوار ہے۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیراعظم نے بنیادی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور پیٹرول و ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کے جو اعلانات کیے تھے، ان پر عمل درآمد محال ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف سے حکومت کے ابتدائی مذاکرات میں جوامید نظر آئی تھی وہ بھی تحلیل ہوچکی ہے۔ تاہم وزیر خزانہ عندیہ دے رہے ہیںکہ ملکی معیشت کو دلدل سے نکالیں گے جس کے لیے ظاہر ہے کہ حکومت کو مشکل مگر ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ شرائط کے مطابق متعین نہ ہوئے تو آئی ایم ایف معاہدہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم سمجھا جارہا ہے کہ دوست ملکوں کی مالی معاونت اور سرمایہ کاری کا انحصار بھی اسی معاہدے پر ہے۔ ملک کو درپیش مشکلات کا حل یہی ہے کہ تمام غیر ضروری سرکاری اخراجات ختم کرکے آگا بڑھا جائے تاکہ زرمبادلہ کی زیادہ سے زیادہ بچت اور تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔
ملکی حالات کا پس منظر ہمارے سیاسی مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، لہٰذا حکومت کے سامنے اس وقت جو چیلنج ہیں اُن میں سب سے اہم یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت کیا ہو؟ ایک سوچ یہ ہے کہ اگر یہ حکومت جلد انتخابات کرا دیتی ہے تو عمران حکومت کے چھوڑے ہوئے معاشی و انتظامی ملبے کا بوجھ اُٹھانے سے بچ سکتی ہے، معیشت کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کا بوجھ نگران حکومت کے سر منڈھا جاسکتا ہے، لیکن مسلم لیگ(ن) میں دوسری سوچ یہ ہے کہ حکومت کارکردگی دکھائے اور متوازن فیصلوں کے ذریعے معاشی حالات مستحکم کرے، اور اس کے ذریعے عمران خان کو بھی سخت جواب مل سکتا ہے جس سے اُن کی جارحانہ مہم اور’’امریکی سازش‘‘ کی تھیوری روکی جاسکتی ہے۔
حکومت مخمصے میں ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کیا جائے یا نیا معاہدہ کیا جائے۔ جو بھی کیا جائے گا شرائط تو آئی ایم ایف ہی رکھے گا۔ پی ٹی آئی حکومت نے تاثر دیا کہ سبسڈیز فنڈڈ ہیں، جو کہ نہیں تھیں۔ یہ مجموعی طور پر 300 ارب کا مسئلہ ہے۔ یہ صورت حال آئی ایم ایف بھی دیکھ رہا ہے مگر آئی ایم ایف شرائط نرم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
ملکی سیاسی صورت حال کا تجزیہ یہی ہے کہ آج ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنے معاشی مستقبل کے لیے حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ یہ ایسی فیصلہ کن گھڑی ہے جس میں قوم کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے بہترین رہنمائی درکار ہے، اور ملک کی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ مشکل فیصلوں کے خطرات مول لینے کو تیار نہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ غیر جمہوری قوت ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے کود سکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ہی یہ بوجھ اٹھائے۔ ملک کے معاشی حالات اور جغرافیائی تبدیلیوں کے تلخ حقائق اس قدر گمبھیر ہیں کہ تنہا کوئی سیاسی جماعت تیل کی قیمتوں کے گرم توے پر بیٹھنے اور عوامی ردعمل کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ ایک ایسی صورت حال ہمارے سامنے ہے جس میں ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ایک سنجیدہ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس جانب ملّی یک جہتی کونسل نے اسلام آباد میں اپنے ایک اجلاس میں روڈمیپ دیا ہے۔ مخلوط حکومت میں بھی اس جانب کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی، تاہم مخلوط حکومت مشکل فیصلوں کے لیے قومی سطح کی سیاسی جماعتوں سے حمایت چاہتی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے گائیڈ لائن دی ہے اور مشاورت میں رائے یہی سامنے آئی ہے کہ حکومت تحریک انصاف سے سیاسی انتقام نہیں لے گی، بے ضابطگیوں پر کارروائی ضرور ہوگی، انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی، اور عمران خان کا دبائو قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ملکی معیشت پر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے صرف مفتاح اسماعیل ہی گفتگو کریں گے اور پارٹی سے وابستہ معاشی ماہرین اُن کی مکمل رہنمائی کریں گے۔ مفتاح اسماعیل کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بہترین قابلِ عمل ڈیل کریں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ معیشت اور نئے انتخابات کے بارے میں قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہر آپشن پر گفتگو کی جائے اور اصل فیصلہ اسی فورم میں ہوگا۔ یہ تجویز بھی دی گئی کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں صدرِ مملکت، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس پاکستان، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز بھی مدعو کیے جائیں تاکہ معاشی مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔
ملکی معاشی اور سیاسی صورت ِحال کا حتمی تجزیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ مشکل فیصلوں کے لیے ملک کا ہر سیاسی اور غیر سیاسی اسٹیک ہولڈر حکومت کے ساتھ کھڑا ہو۔ اگر ملک کے معاشی مسائل کا حقیقی تجزیہ کیا جائے تو ہمیں ایک ایسی تصویر نظر آتی ہے جس میں ماضی کی ہر حکومت کی بدانتظامی ایک بڑے عنصر کے طور پر سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروباری اداروں میں توانائی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے والے شعبے کے علاوہ ہوابازی اور ریلوے نمایاں ہیں۔ مالی سال 2019ء کے دوران سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کاروباری اداروں سے حاصل ہونے والے محصولات کا حجم تقریباً 4 ٹریلین روپے تھا، جب کہ ان کے اثاثوں کی مالیاتی اور غیر مالیاتی قدر 37 ٹریلین ہے، توانائی کے شعبے کی کمپنیوںکے اثاثے 7.8ٹریلین روپے، اور انفرااسٹرکچر کی مالیت 5.3ٹریلین ہے، اسی طرح تیل اور گیس کے اثاثے 2.6ٹریلین روپے ہیں۔ ان سے ہونے والی آمدنی جی ڈی پی کا دس فیصد ہے۔ یہ ادارے ملک میں 450,000 افراد کو روزگار فراہم کرتے ہیں اور یہ تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق افرادی قوت کا 0.8 فیصد ہے۔ اہم اشیا اور سروسز کی فراہمی کے باوجود ان اداروں کی مالیاتی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔ اداروں کو مجموعی طور پر 143 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ تیل اور گیس کی کمپنیوں نے 242 ارب روپے کا خالص منافع کمایا۔ حکومت کے لیے مسائل یہ ہیں کہ ایسی کمپنیاں حکومت کو اپنی آمدن میں حصے دار نہیں بناتیں، جب کہ نقصان کی صورت میں حکومت کو بوجھ اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں، ان میں پی آئی اے، ریلوے، این ایچ اے، مواصلات سب شامل ہیں جنہیں 267 ارب روپے اور توانائی کمپنیوںکو 117 ارب روپے کا نقصان ہوا، جس کی ذمہ داری حکومت اٹھاتی ہے۔ یہ ملکی معیشت کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ پی ڈی ایم حکومت اسی وجہ سے بوکھلائی معلوم ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی اس کوشش میں ہے کہ امریکہ سے دوستی بڑھا کر عالمی و داخلی سیاست میں اپنی جگہ بنا لے، وہ اسی لیے حکومت کا حصہ بنی ہے۔ بلاول کے لیے واشنگٹن کے بلاوے بلاوجہ نہیں ہیں، پیپلزپارٹی اس پر شاد نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے جنوبی کوریا سے ایک پیکیج ڈیل کی ہے جس سے سندھ میں صحتِ عامہ کے منصوبوں پر کام ہوگا۔ اس نے وفاق سے اپنے ہسپتال اسی لیے واپس مانگے ہیں۔ پیپلزپارٹی بلاول کے لیے وزارتِ خارجہ سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ اسے حکومت میں حصہ لے کر خود کو سندھ کی دیہی سیاست سے باہر نکالنا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سے وہ پنجاب میں اپنا شیئر مانگ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے اسے قومی اسمبلی کی 20 اور 40 صوبائی نشستیں مل جائیں، یوں سندھ میں ہونے والے سیاسی نقصان کو وہ یہاں سے پورا کرلے گی۔ اس کی حکمت عملی یہی ہے کہ بے قابو مہنگائی کے ایشوز وہ مسلم لیگ(ن) کے لیے چھوڑ دے، اس لیے اُس نے شہبازشریف کی خواہش کے باوجود وزارتِ خزانہ نہیں لی۔ اس طرح معاشی بحران کا طوق مسلم لیگ(ن) کے گلے میں پڑ گیا ہے۔
سفارتی اور معاشرتی حوالوں سے بھی پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، لیکن اس کا اعتراف حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتیں بوجوہ نہیں کررہیں، بلکہ دن رات اسے مزید تباہ کرنے میں لگی ہیں۔ تاہم سرِدست سب سے اہم مسئلہ جو سر پہ کھڑا ہے وہ معیشت کا ہے، اور اس میں بھی بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرکے اچانک مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام کے قہروغضب کا خطرہ مول لیا جائے؟ اسی الجھن کا حل نکالنے کے لیے مسلم لیگ(ن) کی قیادت لندن میں سرجوڑ کر بیٹھی تھی۔
ایک سوچ یہ ہے کہ عمران خان کے گند کو اپنے سر لینے کے بجائے فوری انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے، اور دوسری رائے اس کے برعکس یہ ہے کہ پہلے معاملات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جائے اور ساتھ ہی عمران خان کو بے نقاب بھی کیا جائے اور پھر انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔ پیپلزپارٹی کا پلان یہ ہے کہ انتخابی اور نیب اصلاحات کے بعد انتخابات کرائے جائیں، اس نے مسلم لیگ(ن) کو راضی کرلیا ہے، نوازشریف بھی راضی ہوگئے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔ الیکشن کمشنر کے مطابق اکتوبر سے پہلے انتخابات کرا ہی نہیں سکتے۔ انتخابات کرانے کا دوسرا آپشن 2023ء ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی کوشش ہے کہ سستا تیل درآمد کیا جائے، اسی لیے سعودی حکومت سے بات چیت ہورہی ہے۔ اصل مسئلہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا ہے، جب تک یہ حتمی شکل میں سامنے نہیں آتا تب تک مشکلات ہیں۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی اس وقت 100بلین سے بڑی ہے، عارضی حل کے لیے ایک تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے حصص کسی کو بیچ دیے جائیں تو حکومت کو ایک بڑی رقم مل سکتی ہے۔ حکومت بجلی لائنز کی نجکاری پر بھی غور کررہی ہے۔ پانی سندھ کا ایک بڑا ایشو ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بدین تک سمندر اوپر آگیا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ ہے۔ اِس صورت حال نے ملک کے بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کا تنازع بھی پیدا کردیا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی حکومتِ سندھ کی شکایت سے متفق نہیں۔ مشترکہ ٹیم نے گڈو اور سکھر بیراجوں کی پیمائش کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تونسہ بیراج سے چھوڑا جانے والا پانی سندھ کے گڈو بیراج میں نہیں پہنچ رہا۔ تونسہ سے سندھ کے لیے چھوڑے جانے والے 60ہزار کیوسک پانی کا معاملہ ہے جس سے سندھ میں قلت ہوئی ہے۔ اب یہاں سے 67ہزار کیوسک تک بڑھا دیا گیا ہے، لیکن معاملہ ابھی تک ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ بدین کے قریب سمندر اوپر آگیا ہے جس سے یہ مسئلہ بن رہا ہے۔