”متحدہ“ حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک پست ذہن قیادت کے ہاتھ میں پھنسا پاکستان

پاکستان میں طویل عمر صرف فوجی آمروں کی حکومتوں کو میسر آئی ہے۔ جنرل ایوب دس سال تک ملک و قوم پر مسلط رہے۔ جنرل ضیاء الحق 11 سال تک قوم کے سینے پر مونگ دَلتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف دس سال تک قوم پر سواری گانٹھتے رہے۔ اس کے برعکس 1990ء کی دہائی میں سول حکومتوں کی عمریں بہت کم ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں دو سے تین سال میں لڑھک گئیں۔ میاں نوازشریف کی حکومتوں کو بھی اتنا ہی عرصہ میسر آسکا۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔ انہیں آئی ایس آئی کے صدر دفتر میں 8 گھنٹے طویل بریفنگ دی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے تین سال تک عمران خان کو ہر سردوگرم سے بچایا، مگر اس کے باوجود عمران خان کی حکومت چار سال میں بوڑھی ہوگئی۔ لیکن میاں شہبازشریف کی حکومت تو صرف ایک ماہ میں بوڑھی ہوگئی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ نواز لیگ معیشت کے آئن اسٹائنوں سے بھری ہوئی ہے، مگر جو صورتِ حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق 11 مئی 2022ء کے روز ڈالر بے قابو ہوکر 192 روپے پر پہنچ گیا۔ کراچی اسٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں سرمایہ کاروں کے 110 ارب روپے ڈوب گئے۔ سونے کی قیمت میں فی تولہ 1300 روپے کا اضافہ ہوگیا۔ میاں شہبازشریف کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یکم مئی سے پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی، مگر اِس وقت یہ صورتِ حال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے جدید شہر کراچی میں 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ دیہی سندھ میں گرمی کی شدت بڑھ گئی ہے اور پارہ 46 سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں 12 سے 18 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ اس وقت کراچی میں مرغی کا گوشت 600 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ لیموں جیسی معمولی چیز ہزار سے 1200 روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ شہبازشریف کی حکومت نے یہ تاثر عام کیا تھا کہ وہ سعودی عرب سے 8 ارب ڈالر کا پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے، مگر میاں شہبازشریف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں سے تقریباً خالی ہاتھ آئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی پیکیج کے لیے سخت شرائط سامنے رکھ دی ہیں۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ عمران خان کو امریکہ، اسٹیبلشمنٹ، حزبِ اختلاف، عدلیہ اور ذرائع بلاغ نے مل کر ایوانِ اقتدار سے باہر کیا ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ اقتدار سے باہر ہوتے ہی عمران خان کے گھر صفِ ماتم بچھ جائے گی اور عمران خان عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان اِس وقت تک پانچ بڑے عوامی جلسے کرچکے ہیں۔ ان جلسوں میں ریکارڈ تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ عوام کی پذیرائی نے برطرف عمران خان کے گھر میں شادیانے بجا دیے ہیں۔ آج سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل یہ صورتِ حال تھی کہ عمران خان کی حکومت کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے عوام ان سے سخت ناراض تھے۔ اس صورت حال کے حوالے سے مریم نواز کہا کرتی تھیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اب بکتربند گاڑیوں میں سفر کرنا ہوگا۔ مگر عمران خان کی مزاحمتی سیاست نے عوام کے غم و غصے کو فضا میں تحلیل کردیا ہے۔ اب عوام کی کسی محفل اور کسی مجلس میں عمران خان اور ان کی حکومت کی بری کارکردگی زیربحث نہیں۔ اب کوئی عام آدمی یہ کہتا نظر نہیں آتا کہ عمران خان کے دور میں مہنگائی بہت تھی۔ اب سب کے لبوں پر ایک ہی بات ہے: امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے خلاف سازش کی ہے۔ نوازشریف، شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔ عمران خان کو دورئہ روس کی سزا دی گئی ہے۔ امریکہ نے انہیں اپنی غلامی پر آمادہ نہ دیکھ کر اقتدار سے نکلوا دیا۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ شریف خاندان ایک بار پھر اقتدار میں آگیا ہے۔ اس نے پنجاب کو بظاہر فتح کرلیا ہے۔ مگر اس کے باوجود شریف خاندان کے گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ عمران خان ایک ’’فتنہ‘‘ ہیں۔ اس تجزیے کا مفہوم یہ ہے کہ شریف خاندان عمران خان کو ہینڈل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ ابھی ایک ماہ پہلے تک شریف خاندان اقتدار میں آنے کے خیال سے پوری طرح سرشار تھا، مگر اب مریم کہہ رہی ہیں کہ ہم عمران خان کی بری کارکردگی کا ٹوکرہ کیوں اٹھائیں! اس تجزیے کا مطلب ہے کہ شریف خاندان اقتدار کے چیلنج سے ہراساں ہوگیا ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ابھی عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع بھی نہیں کیا ہے اور شریف خاندان عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے گھبراہٹ محسوس کررہا ہے۔ خدانخواستہ اسلام آباد مارچ بڑا اور خونیں ہوگیا تو نہ جانے شریفوں کا کیا حال ہوگا! اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ عمران خان کو اقتدار سے باہر کردے گی اور پھر چین کی بانسری بجائے گی۔ اس نے عمران خان کو آسانی کے ساتھ اقتدار سے باہر تو کردیا مگر وہ اب تک چین کی بانسری بجاتی نظر نہیں آرہی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے تیار دکھائی دے رہے تھے مگر اب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں کرائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دعوے کے مطابق وہ عمران خان اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی کشمکش میں ’’نیوٹرل‘‘ تھی۔ مگر عمران خان پوری بے خوفی سے اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ اللہ نے مسلمان کو نیوٹرل ہونے کے لیے کہا ہی نہیں، اور یہ کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ شیخ رشید کی پوری زندگی اسٹیبلشمنٹ کی چاکری میں صرف ہوئی ہے، مگر وہ عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اور عمران میں محاذ آرائی ہوئی تو وہ عمران کا ساتھ دیں گے اس لیے کہ عمران کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ امریکہ بھی ابھی تک عمران کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مطمئن اور یکسو نظر نہیں آتا۔ اسے یہ خیال دامن گیر ہے کہ کہیں عمران دوبارہ اقتدار میں نہ آجائے، چنانچہ اس کے لیے شہبازشریف اور ان کی حکومت کی حمایت کرنا بھی دشوار ہے اور حمایت نہ کرنا بھی دشوار ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن اگر شہبازشریف کو فون کرتے ہیں تو بھی مسئلہ ہے، اور نہیں کرتے ہیں تو بھی مسئلہ ہے۔ آئی ایم ایف نرم شرائط پر قرض نہیں دیتا تو اس سے بھی شریف حکومت کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت کو پیٹرول کے نرخوں میں فی لیٹر 35 روپے اور ڈیزل کے نرخوں میں فی لیٹر 75 روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ حکومت ایسا کرے گی تو نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعتیں عوامی غیظ و غضب کا شکار ہونے سے نہیں بچیں گی، اور اگر حکومت پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ نہیں کرتی تو پاکستان تین چار ماہ دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح شریف حکومت کے ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی ہے۔ یہ بات صرف ہم ہی نہیں کہہ رہے، عمران خان کے بدترین مخالف اور شریفوں کے بہترین دوست بھی یہی کہہ رہے ہیں۔

مظہر عباس روزنامہ جنگ کے کالم نگار ہیں۔ وہ جیو سے بھی وابستہ ہیں، اور جنگ اور جیو اینٹی عمران اور پرو شریف خاندان سمجھے جاتے ہیں۔ خود مظہر عباس عمران خان پر تواتر کے ساتھ تنقید کرتے رہے ہیں، مگر انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں عمران خان کی برطرفی پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم کا عنوان یہ رکھا ہے ’’عمران کو ہٹانا کیوں غلط تھا‘‘۔ اس کالم میں مظہر عباس نے کیا لکھا ہے، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:

’’سازش اندرونی تھی یا بیرونی طور پر مداخلت کی گئی، سابق وزیراعظم عمران خان کو اُن کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ہٹایا جانا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی اور جمہوری عمل سہی، مگر یہ کن لوگوں کی مدد سے لائی گئی؟ اور کیا اس پورے عمل سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی یا ہم ایک بڑے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ شاید آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں کتنا غلط ’’کارڈ‘‘ کھیل گئی ہیں۔ آخر ایسی جلدی کیا تھی! چلیں مان لیتے ہیں کہ عمران خان تقرری کے حوالے سے اپنے تئیں کوئی بڑا فیصلہ کرلیتے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن اپنے پسندیدہ ’’ایمپائر‘‘ کے زیرسایہ کھیلنے کی تیاری کررہے تھے۔ یہ بھی تھیوری ہے کہ وہ ملک میں ریفرنڈم کراکے صدارتی نظام نافذ کردیتے، تو کیا ماضی میں آمرانہ سوچ اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف جدوجہد نہیں کی گئی! اب بھی ان فیصلوں کے خلاف ایسی ہی مزاحمت کی جاتی۔ لگتا یہ ہے کہ آسان راستہ چنا گیا یہ دیکھے بغیر کہ آگے دلدل ہے۔ وہ اپوزیشن جو اکتوبر 2021ء تک منتشر تھی اچانک متحد ہوگئی، اور وہ حکومت جسے حزبِ اختلاف سے زیادہ مہنگائی کا طوفان بہا لے جانے والا تھا، اچانک اس ’’بھنور‘‘ سے نکل آئی، سیاسی جماعتوں کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں اور 9 اپریل 2022ء کے بعد سے مقبول نظر آتی ہے، ایک ہمدردی کی لہر اور دوسری بیرونی سازش کے بیانیے سے۔

مقبولیت کی نچلی سطح تک تیزی سے جاتا ہوا کپتان اچانک توجہ کا مرکز بن گیا اور کل کی حزبِ اختلاف جس کے ہاتھ عمران کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ تھا مہنگائی کا، خراب کارکردگی کا، سیاسی انتقام کا، وہ اب دفاعی پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔ حکومت کے پاس آپشن کم ہوتے جارہے ہیں۔ کل کون جیتے گا کون ہارے گا، یا دونوں شکست کھا جائیں گے اور فاتح کوئی تیسرا ہوگا یہ تو پتا نہیں، البتہ اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو کھیل بھی اپنا ہونا چاہیے اور کھلاڑی بھی۔‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 11 مئی 2022ء)

جاوید چودھری کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں اور اینکرز میں ہوتا ہے۔ وہ عمران خان کے خلاف سخت ہیں۔ وہ شریف خاندان کے عاشقِ زار ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ پاکستان کا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شریفوں کے حوالے کردیں۔ لیکن شریف حکومت پر ایک ہی ماہ میں چھا جانے والے بڑھاپے نے جاوید چودھری کے چودہ طبق روشن کردیے ہیں۔ انہوں نے 12 مئی 2022ء کے اپنے کالم کا عنوان رکھا ہے: ’’ن لیگ پھنس گئی‘‘۔ اس کالم میں جاوید چودھری نے کیا لکھا ہے، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
”عمران خان حکومت مکمل فیلیئر تھی، اس نے بالآخر نومبر 2022ء سے پہلے ختم ہوجانا تھا، لیکن اسے جلد بازی میں فارغ کرکے ریاست کو مزید کمزور کردیا گیا، عمران خان حکومت کے خاتمے کا صرف تین طاقتوں کو فائدہ ہوا: وہ بیرونی طاقتیں جو پاکستان کو کمزور سے کمزور تر دیکھنا چاہتی ہیں، یہ طاقتیں اس وقت ہماری صورتِ حال کو انجوائے کررہی ہیں۔

دوسری طاقت پاکستان پیپلز پارٹی ہے، اس کے پاس اقتدار میں واپسی کا صرف ایک آپشن بچا تھا، اس کی حریف جماعتیں ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر ختم ہوجائیں اور اس کے بعد مرزا یار اور گلیاں بچ جائیں، لہٰذا اس صورتِ حال کا پیپلز پارٹی کو فائدہ ہورہا ہے۔ آپ دیکھ لیں حکومت بنتے ہی آصف علی زرداری گھر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں اور ان کے وزراء کسی جگہ حکومت کا دفاع نہیں کررہے، یہ خاموشی سے عمران خان اور شہبازشریف کی لڑائی کو انجوائے کررہے ہیں۔ اور تیسری طاقت عمران خان خود ہیں، ان کی حکومت بدانتظامی کے خوف ناک گرداب میں پھنسی ہوئی تھی، وزراء باہر نہیں نکل رہے تھے، پرویز خٹک 7 جنوری کو ایبٹ آباد کے دورے پر گئے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کا گھیراؤ کرلیا تھا، لیکن حکومت کی روانگی کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں کو نیا خون مل گیا، یہ اب سڑکوں پر بھی ہیں اور لوگ ان کے بیانیے کو قبول بھی کررہے ہیں، یہ صورت حال اگر مزید جاری رہتی ہے تو ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو نقصان ہوگا۔ میاں نوازشریف یقیناً اس وقت سوچتے ہوں گے کہ میں اگر جلدبازی نہ کرتا اور عمران خان کو سیاسی شہادت کا موقع نہ دیتا تو آج حالات کتنے مختلف ہوتے؟ یہ اب اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے ہوں گے کہ ہم نے اگر کوئی بڑا فیصلہ نہ کیا تو ن لیگ اپنی عوامی مقبولیت کھو دے گی۔ کیوں؟ کیوں کہ آئی ایم ایف نے نئے معاہدے سے انکار کردیا ہے، حکومت کو سعودی عرب سے بھی دعاؤں کے سوا کچھ نہیں ملا، چین بھی معاشی بحران کا شکار ہے، یہ دنیا کو اندرونی صورت حال سے ناواقف رکھنے کے لیے سیاحت نہیں کھول رہا، لہٰذا یہ بھی سی پیک کی رفتار بڑھانے اور پاکستانی معیشت میں رقم ڈالنے کے لیے تیار نہیں، یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ شدید مندی کا شکار ہے۔ وہاں کوکنگ آئل اور آٹا نہیں مل رہا، گیس کی کمی کی وجہ سے جرمنی کی انڈسٹری بھی خطرات کا شکار ہوچکی ہے، امریکہ بھی تاریخی مہنگائی کی زد میں ہے، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ 2023ء میں امریکہ اور یورپ مہنگائی اور بے روزگاری کے تمام ریکارڈ توڑ دیں گے، اور تیسری طرف آئی ایم ایف بھی معاشی دباؤ میں ہے، یہ بھی قرضے دینے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا پھر ہمیں مدد کہاں سے ملے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ان حالات کا جنازہ کس کو اٹھانا پڑے گا؟ کندھے بہرحال ن لیگ ہی کے استعمال ہوں گے اور میاں نوازشریف کو اس خوف ناک حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے، یہ جان چکے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہورہا تھا، ہم سری لنکا بن رہے تھے، اور عمران خان کے دوستوں نے اسے نکال کر ن لیگ کو اس گرتی ہوئی چٹان کے نیچے کھڑا کردیا ہے اور ہم نے جذبات میں غلط سیاسی فیصلہ کردیا، یہ یقیناً اس وقت مان رہے ہوں گے کہ ہم پھنس چکے ہیں، ہم اگر حکومت جاری رکھتے ہیں تو سال کے آخر تک اپنا ووٹ بینک کھو دیں گے، اور ہم اگر حکومت توڑ دیتے ہیں تو ملکی بحران مزید گمبھیر ہوجائے گا اور آخری امید بھی دم توڑ دے گی۔

میاں نوازشریف کی لندن میں پارٹی لیڈروں سے میٹنگز جاری ہیں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف سیاسی ٹمپریچر ڈاؤن کرنے کے لیے نئے الیکشن کی تاریخ بھی دے دیں گے اور عمران خان کو انتخابی اصلاحات اور نئے الیکشنز کی پیش کش بھی کردیں گے۔ اگر عمران خان مان گئے تو ٹھیک، ورنہ دوسری صورت میں ریاست کو انھیں ’’سمجھانے‘‘ کی ذمے داری دی جائے گی، ریاست اگر کامیاب ہوگئی اور عمران خان حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے تو ٹھیک، ورنہ دوسری صورت میں میاں نوازشریف حکومت توڑ دیں گے اور ملک کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیں گے، اور اگر خدانخواستہ یہ ہوگیا تو پھر ملک کا واقعی اللہ حافظ ہے، کیوں کہ فوج براہِ راست اقتدار میں نہیں آسکتی، مارشل لا کی صورت میں ملک پر اقتصادی پابندیاں لگ جائیں گی اور ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ملک میں اگر سپریم کورٹ کوئی عبوری حکومت بنادیتی ہے تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، اور یوں ہم دنوں میں سری لنکا بن جائیں گے۔ ہمارے پاس اب صرف ایک ہی حل بچا ہے، ہم فوری طور پر ’’اے پولیٹیکل‘‘ کے بیانیے سے نکلیں اور ملک کی فکر کریں، اسٹیبلشمنٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا بٹھائے، اور یہ لوگ جب تک کسی متفقہ لائحہ عمل تک نہیں پہنچتے آپ اُس وقت تک انھیں باہر نہ نکلنے دیں خواہ اس میں ہفتے ہی کیوں نہ لگ جائیں، اور اس دوران میٹنگ کی کوریج پر پابندی لگا دیں تاکہ افواہ سازی کی فیکٹریاں بند ہوجائیں، ملک میں فوری طور پر جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور لانگ مارچز پر بھی پابندی لگا دیں۔ خدا کی پناہ، ہم نے 30 برسوں سے ملک میں لانگ مارچز کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے، اور اگر سیاست دان اکٹھے نہیں ہوتے تو پھر ریاست اپنی پوری رٹ استعمال کرے، ہم نے اگر کل سری لنکا کی طرح ملک میں کرفیو ہی لگانا ہے تو پھر ہم آج ریاست کی طاقت استعمال کیوں نہیں کرتے؟ وقت نہیں ہے، پلیز آنکھیں کھولیں، جو دل کرتا ہے کریں لیکن ملک بچائیں، ورنہ ہم اس بجٹ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔“
(روزنامہ ایکسپریس۔ 12 مئی 2022ء)

انصار عباسی روزنامہ جنگ اور روزنامہ دی نیوز کے سینئر صحافی ہیں۔ وہ نواز لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی خراب کارکردگی پر کھل کر تنقید کی۔ وہ اس خیال کے حامل تھے کہ اگر عمران کی حکومت جمہوری طریقے سے جاتی ہے تو اسے چلے جانا چاہیے۔ مگر شہبازشریف کی حکومت پر حالات نے جو بڑھاپا چڑھا دیا ہے، اس نے انصار عباسی کے خیالات میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ انہوں نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم کے عنوان ’’عمران خان کو نکال کر کیا ملا‘‘ کے تحت کیا لکھا، ملاحظہ فرمائیے۔ جاوید چودھری کے کالم کی طرح یہ کالم بھی شریفوں کے گھر میں برپا ماتم کا حصہ اور اس کا ایک مظہر ہے۔ انصار عباسی نے لکھا:

”کس نے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لائیں؟ اب بھگتیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے دیتے تو حالات نسبتاً بہتر ہوتے۔ نجانے کل کیا ہوگا؟ معیشت کا کیا بنے گا؟شہبازشریف اور اُن کے اتحادی سب کے سب پھنس گئے۔ کچھ کریں تو بھی نقصان، کچھ نہ کریں تو بھی نقصان۔ آصف علی زرداری کی سیاست میں پی ایچ ڈی، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت سب فیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کی نااہلی، خراب طرزِ حکمرانی، معیشت کی خرابی سب کچھ پیچھے رہ گیا، اب سب سے زیادہ عمران خان کا نیا بیانیہ ہی بک رہا ہے۔

امریکہ نے سازش کی یا یہ سب جھوٹ ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی، کیوں کہ عمران خان جو کہہ رہے ہیں، اُن کے چاہنے والے، ووٹرز اور وہ بھی جو اُن کی حکومت کی کارکردگی سے نالاں تھے، خفا تھے، سب کے لیے جو خان نے کہا، وہی سچ ہے۔ جنہوں نے عمران خان کو نکالا وہ سب چند ہفتوں ہی میں اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا محسوس کررہے ہیں۔

عمران خان حکومت کے معاشی فیصلوں نے بلاشبہ ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے، لیکن ان حالات کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری شہبازشریف حکومت اور ان کے اتحادیوں کی ہے جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی غلطی کی۔ اب جو خراب ہوگا اُس کی ساری ذمہ داری اتحادیوں پر بالعموم اور ن لیگ پر بالخصوص ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف صاحب اپنے چند ن لیگی رہنماؤں کے ساتھ لندن چلے گئے تاکہ میاں نوازشریف سے ملاقات کرکے رہنمائی لیں کہ کیا آگے کیا کرنا ہے؟ فوری مشکل یہ آپڑی کہ پیٹرول اور ڈیزل 40روپے اور 75روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر پیٹرول اور ڈیزل مہنگا کردیا اور سبسڈی ختم کردی تو مہنگائی کا طوفان آئے گا جو موجودہ حکومت کو ہی بہا لے جائے گا۔ ن لیگ اور اتحادیوں کو عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ عمران خان کو موجودہ حکومت کے خلاف عوام کے جذبات ابھارنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ اگر موجودہ حکومت اور اتحادی فیصلہ کرتے ہیں کہ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا نہیں کرنا تو پھر آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا جس کے نتیجے میں دوست ممالک سے بھی قرضے اور معاشی رعایتیں ملنے کا کوئی چانس نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے کی طرف چل پڑے گا جس کے بارے میں سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے۔ یہ سارا معاملہ اب پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ن لیگ کیا فیصلہ کرے گی، لیکن میری ذاتی رائے میں بہتر یہی ہوگا کہ وزیراعظم شہبازشریف جن کی اپنی حکومت درجن بھر اتحادیوں کے کمزور سہارے پر چل رہی ہے، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کریں تاکہ ملک نئے الیکشن کی طرف جا سکے۔ نئے الیکشن اگر اکتوبر میں بھی ہوں پھر بھی موجودہ حکومت کے لیے موجودہ سیاسی ماحول اور معاشی میدان میں بڑے اور ناپسندیدہ فیصلوں کے باوجود چلنا مشکل ہے، کیوں کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھے گا۔ اگر الیکشن کمیشن اگست میں الیکشن نہیں کرا سکتا تو سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں کہ کیا دو مہینے کی مہلت نگران حکومت کی بڑھائی جا سکتی ہے کہ نہیں؟ میں تو تجویز پیش کروں گا کہ شہبازشریف فوری قومی اسمبلی تحلیل کریں۔ نگران وزیراعظم کے لیے اچھی شہرت کے مالک کسی معاشی ماہر جیسا کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کو چنا جائے جن کا مکمل فوکس پاکستان کی معیشت ہو، جس کے لیے وہ مشکل، آسان سب فیصلے کرسکیں۔ یہ عمران خان کو بھی قابلِ قبول ہوگا اور یہ حل موجودہ سیاسی اتحاد کے لیے بھی موزوں ہوگا۔ یعنی موجودہ حکومت چلی جائے اور نگران حکومت جلد از جلد الیکشن کے انعقاد تک معیشت پر دھیان دے۔ اس وقت جو حالات پیدا ہوچکے ہیں اُن میں پاکستان کے مفاد کو سب سے آگے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہوگا کہ نہیں، میں کوئی زیادہ پُرامید نہیں، لیکن کاش ہمارے سیاست دان آپس میں مل بیٹھ کر نئے الیکشن اور معیشت کے فوری خطرے کے بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ کریں۔ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، لیکن میری مقتدر حلقوں سے درخواست ہے کہ بغیر چھپے، سب کے سامنے کم از کم عمران خان سمیت ان سیاست دانوں کو ایک ٹیبل پر بٹھائیں۔ ایک طرف اگر عمران خان کو حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جانے سے احتیاط کرنی چاہیے تو دوسری طرف موجودہ حکومت، اُس کے اتحادیوں اور اداروں کو مل کر ملکی معیشت کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہاں کوئی نیوٹرل نہیں رہ سکتا۔
(روزنامہ جنگ۔ 15 مئی 2022ء)

\جاوید چودھری اور انصار عباسی کے کالموں سے عیاں ہے کہ وہ چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ آگے بڑھے اور عمران خان اور شریفوں کے درمیان مفاہمت کرائے۔ مگر ابھی کل تک پورا شریف کیمپ اسٹیبلشمنٹ کو ’’نیوٹرل‘‘ قرار دے کر اس کی ’’نیوٹرلٹی‘‘ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ اب شریف حکومت مشکل میں آئی ہے تو اسٹیبلشمنٹ سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی غیرجانب داری ترک کرے۔ سوال یہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کس منہ سے عمران خان سے کہے گی کہ وہ نیوٹرل نہیں رہی؟ تو کیا اسٹیبلشمنٹ کا کام صرف شریفوں کو بچانا ہے؟ ان سے ’’ڈیل‘‘ کرنا، انہیں ملک سے فرار کرانا ہے؟ یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عمران خان پہلے دن سے شہبازشریف کی حکومت کو ’’امپورٹڈ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ وہ شریفوں کو چور اور ڈاکو کہتے رہے ہیں۔ چنانچہ اب وہ کس منہ سے ایک امپورٹڈ حکومت اور چور ڈاکو خاندان سے مفاہمت کریں گے؟ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا حقائق سے اس امر کا بھی اظہار ہورہا ہے کہ پاکستان کتنی پست ذہن قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ قیادت وہ ہوتی ہے جو صدیوں اور دہائیوں کے اُس پار دیکھ سکتی ہے۔ مگر ’’شریف قیادت‘‘ ایک مہینے کے اُس پار دیکھنے کی صلاحیت کی بھی حامل نہیں ہے۔ ایسی ہی قیادت کی وجہ سے ہم آدھے پاکستان سے محروم ہوئے تھے، اور ایسی ہی قیادت باقی ماندہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔