قوم کو انتشار اور مایوسی سے بچایئے!

توقع تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی منظوری اور نئی حکومت، جسے اس لحاظ سے، قومی حکومت، بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ملک کی چھوٹی بڑی کم و بیش ایک درجن جماعتیں اس حکومت کا حصہ ہیں، کے قیام کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں استحکام آئے گا اور ملک مثبت سمت میں نئے عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کر سکے گا، عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے ان کے مصائب میں کمی آئے گی اور مسائل کے حل کی کوئی راہ سجھائی جائے گی اس طرح بہتر ماحول میں لوگوں کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا موقع جلد از جلد دیا جائے گا یوں قوم ماضی کے مقابلہ میں زیادہ صاف ستھرے افکار اور کردار کے حامل لوگوں کو منتخب کرے گی۔ جن پر مشتمل نو تشکیل شدہ حکومت ملک کی کشتی کو گرداب سے نکالنے کے لیے حکمت و تدبر سے پیش قدمی کرے گی مگر اسے اپنی سیاسی قیادت کی بدتدبیری قرار دیا جائے یا ملک و قوم کی بدقسمتی کہ حالات بد سے بدتر کی جانب بڑھ رہے ہیں، معاشرہ خوفناک انتشار، تفریق اور تقسیم کا شکار ہو چکا ہے، سیاستدان باہم دست و گریبان ہیںاور ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں، الزامات اور بہتان تراشی کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک و قوم کے مفاد کی کسی کو فکر نہیں، کھلم کھلا مفادات کی سیاست کی جا رہی ہے، ذاتی اور گروہی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی جا رہی ہے کسی کو احساس تک نہیں کہ اس طرز عمل کے نتیجے میں ہم قوموں کی برادری میں ذلت و رسوائی اور پسپائی کی کن پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں، آئینی و قانونی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے قومی اداروں کی عزت و توقیر خاک میں ملائی جا رہی ہے ہر طرف بے یقینی اور خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں ملک کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پرورش پا رہے ہیں، ملک کی تاریخ کا شاید یہ واحد اور انوکھا موقع ہے کہ چاروں صوبوں میں گورنر کے منصب خالی ہیں اور ریاستی مشینری تقریباً مفلوج دکھائی دے رہی ہے۔ ایوان صدر اور حکومت کے مابین کشمکش آئے روز نیا منظر دکھا رہی ہے، ان سطور کی تحریر کے دوران ہی عدالت عظمیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے آئین کی دفعہ 63 ۔ اے کی وضاحت کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر اپنی رائے تین دو کی اکثریت سے سنا دی ہے جس کے مطابق کسی جماعت کے منحرف رکن کا ووٹ رائے شماری کے دوران شمار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ سے وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا مستقبل خاصا مخدوش ہو گیا ہے۔ وفاق میں میاں شہباز شریف کی حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہے گویا اب اگر کوئی بھی اتحادی ساتھ چھوڑ جائے تو مخلوط حکومت کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا یوں یہ حکومت پوری طرح اپنے اتحادیوں کے رحم و کرم پر اور ان کی بلیک میلنگ کے سامنے قطعی بے بس ہو گی کیونکہ ریزرو کے طور پر رکھی ہوئی تحریک انصاف کے منحرف ارکان کی کمک عدالت عظمیٰ کی رائے آنے کے بعد شہباز حکومت کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی۔
جب کہ پنچاب میں چونکہ حمزہ شہباز کی حکومت قائم ہی تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے ووٹوں سے ہوئی تھی اور اس عمل کے خلاف درخواست بھی الیکشن کمیشن کے پاس زیر سماعت ہے، تاہم عدالت عظمیٰ کی رائے آنے کے بعد الیکشن کمیشن اس رائے مطابق فیصلہ دینے کا پابند ہے اس لیے حمزہ شہباز کی حکومت کا مزید قائم رہنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح سیاسی بحران عدالت عظمیٰ کی رائے کے بعد مزید سنگین اور صورتحال پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتیں مل بیٹھ کر ان لا ینحل سیاسی، معاشی، معاشرتی، آئینی اور قانونی مسائل کا حل تلاش کریں مگر تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی ایسی قوت بھی موجود نہیں جو ان متحارب سیاسی فریقوں کو ایک میز پر بٹھا کر مذاکرات کے ذریعے بحران کا کوئی حل نکالنے پر آمادہ کر سکے!!!
پاکستان کے عوام کو انتشار، افراتفری، تفریق اور تقسیم سے بچانا ، اتحاد و یکجہتی کا راستہ دکھانا اور ایک ہجوم سے ایک قوم کی شکل دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کہ یہی وہ قوت تھی جس کے ذریعے کسی فوجی یا معاشی قوت کی عدم موجودگی کے باوجود ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی جرأتمند اور مدبر قیادت اور علامہ اقبال کے افکار کی رہنمائی میں چالاک اور سازشی انگریز حکمرانوں اور طاقتور ہندو اکثریت کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ایک آزاد و خود مختار ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ قیام پاکستان کے وقت بھی اور آج بھی ہمیں ایک قوم کی لڑی میں پرونے والی واحد قوت اسلام تھی جس نے ہمیں پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی، بنگالی بہاری اور مہاجر سے بلند تر ہو کر ایک قوم بنا دیا تھا اسی طرح ہم شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث کی سوچ سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف مسلمان بن گئے تھے، آج بھی ہمیں اگر دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے اپنا مقام بنانا ہے تو ہر طرح کی علاقائی، لسانی، فرقہ ورانہ، ذات، برادری اور قبائلی عصبیتوں سے دامن چھڑا کر اسلام کے سایۂ عافیت میں پناہ تلاش کرنا ہو گی ورنہ آئے روز کے یہ بحران، انتشار و افتراق، بے یقینی و افراتفری، مایوسی و نا امیدی ہی ہمارا مقدر رہے گی…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)