حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” جو شخص محصن نہ ہو اور وہ زنا کرے اس کو سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردو“۔
(بخاری ، جلد اول، کتاب الشہادات، حدیث نمبر:2474)
فحاشی و بے حیائی: فحاشی و بے حیائی ایک ہی معنی کے حامل مترادف الفاظ ہیں جو شرم و حیا کے متضاد ہیں۔ فحشا و فاحشہ وغیرہ لفظ فحش سے نکلے ہیں۔ فحش کے معنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں، اور اس کے دوسرے معنی قبح یعنی برائی کے ہیں۔ جس چیز کی خالقِ فطرت نے حد مقرر کردی ہے اس سے آگے بڑھنا قبح یعنی برائی ہے۔ یا یہ کہ جو برائی حد سے زیادہ ہوجائے وہ فحشا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی جنسی خواہش یا شہوانی قوت کی تسکین کے لیے کچھ حدیں مقرر فرمادی ہیں، مثلاً عورتوں سے نکاح کرکے یا مملوکہ لونڈیوں سے جنسی خواہش پوری کرو۔ اب جو آدمی ان حدوں سے بڑھتا ہے مثلاً وہ بغیر نکاح کے کسی عورت سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے، یا کسی مرد سے جنسی خواہش پوری کرتا ہے، تو وہ شخص فحاشی اور بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ فحاشی اور پاک دامنی کے فرق کی قرآن نے یوں وضاحت کی ہے: ’’(مومن وہ ہیں) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا اپنی مملوکہ لونڈیوں کے، ان کے معاملے میں وہ قابلِ ملامت نہیں۔ پس جو اس کے سوا کچھ چاہے تو ایسے لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں‘‘ (المومنون: 23: 7-5)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور زنا کے قریب بھی نہ جائو، بے شک وہ بے حیائی کا کام ہے اور برا راستہ ہے‘‘ (الاسرا:17:32)۔ زنا و بدکاری کے علاوہ برہنہ ہونا، بے حجابی کا لباس پہننا، نظر بد سے مخالف جنس کے افراد کو گھورنا، اپنے ستر کا خیال نہ رکھنا اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت نہ کرنا، فحش شاعری، فحش گانے، فحش موسیقی، مردوں اور عورتوں کی مخلوط محافل وغیرہ سب بے حیائی کے کام ہیں۔ قرآن و حدیث میں فحاشی و بے حیائی سے سختی کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے۔ اس بارے میں کچھ آیات اور احادیث درج ذیل ہیں:
٭ آیاتِ قرآن مجید
-1 اے لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال اور طیب ہیں انہیں کھائو اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برے کام کرنے کا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور یہ کہ تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہو جو تم نہیں جانتے۔ (البقرہ: 2: 169-168)
-2شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے، مگر اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، اور اللہ بہت وسعت والا اور علم والا ہے۔ (البقرہ: 2: 268)
-3 اور ان عورتوں کو نکاح میں نہ لائو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں، مگر جو پہلے ہوچکا سو ہوچکا۔ یہ نہایت بے حیائی اور غضب کی بات ہے اور بہت برا راستہ ہے۔ (النسا: 4:22)
-4اے بنی آدم! ایسا نہ ہوکہ شیطان فتنے میں ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوادیا تھا، اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے تاکہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھادے۔ (الاعراف: 7:27)
-5 (اے نبیؐ!) کہہ دو میرے رب نے تو صرف حرام کیا ہے بے حیائی کی باتوں کو جو ان میں سے کھلی ہوں یا چھپی ہوں۔ (الاعراف: 7:33)
-6 اور لوط کو بھی یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے اہلِ عالم میں سے کسی نے نہیں کیا۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس اپنی شہوت پوری کرنے آتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ (الاعراف: 7: 81-80)
-7اور زنا کے قریب بھی نہ جائو، بے شک وہ فحاشی اور بری راہ ہے۔ (الاسرا: 32:17)
-8 بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلائیں اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (النور: 19:24)
-9(اہلِ ایمان وہ ہیں) جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں۔ (الشوریٰ: 37:42)
٭احادیثِ نبویؐ
-1 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک جزو ہے اور ایمان جنت میں ہے، اور بے حیائی بدی یا (دل کی سختی) میں سے ہے، اور بدی (یا دل کی سختی) دوزخ میں ہوگی۔ (احمد، ترمذی)
-2 حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: جو چیزیں قیامت کے روز ایک مومن کے ترازو میں رکھی جائیں گی اُن میں سے سب سے وزنی چیز حُسنِ خلق ہے، اور اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بے ہودہ گو کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔(ترمذی)
-3 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: فحاشی کسی چیز میں نہیں آتی مگر اسے ذلیل کردیتی ہے، اور حیا کسی چیز میں نہیں آتی مگر اسے زینت بخش دیتی ہے۔ (ترمذی)
-4 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ فحش گو اور لعنت کرنے والے نہ تھے اور نہ گالی دیتے تھے۔ ناراضی کے وقت (صرف اتنا) فرماتے: اسے کیا ہوا، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔(بخاری)