کسی ادبی نشست کی صدارت کرنا بالکل ویسا ہی بے مزہ کام ہے جیسا آج کل ہمارے ملک کی صدارت کرنا۔ رمضان کے آخری دنوں میں ایک ادبی نشست کی ’صدارتِ بے لذت‘ کی دعوت ملی تو ہماری بھی وہی حالت ہوئی جو ہمارے بھائی، ہمارے دوست، ہمارے صدر مملکت ڈاکٹر عارف الرحمٰن الٰہی علوی ابن ڈاکٹر حبیب الرحمٰن الٰہی علوی کی بلاول سے حلف لیتے ہوئے ہوئی ہوگی۔ بقولِ جونؔایلیا:
کوئی حالت نہیں، یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
ہوا یوں کہ ادبی نشست میں جھبرے بالوں والے ایک دانشور نے بڑی ’جھبرائی ہوئی‘ آواز میں اپنے ایک ممدوح شاعر کے متعلق یہ دعویٰ کرڈالاکہ ’موصوف کی صورت میں میرؔ نے نیا جنم لے لیا ہے‘۔ ہماری باری آئی تو ہم نے جھبرو میاں کے اس خیال کی تائید کی اور کہا:
’’بے شک موصوف کی صورت میں میرؔ نے ایک بار پھر نیا جنم لے لیا ہے۔ مگرپچھلے جنم میں میر تقی میرؔ سے یقیناً کوئی ایسا بہت بڑا پاپ ضرور سرزد ہوگیا ہوگا جس کی انھیں اب تک اتنی سخت سزا مل رہی ہے‘‘۔
خوش قسمتی سے ادبی نشست اذانِ عصر ہوجانے کے باعث تمام ہوگئی۔ مگر اس محفل کے ایک شریک، نمازِ عصرسے چمٹے چمٹے ہمارے ساتھ ہمارے گھر تک تشریف لے آئے۔ الحمدللہ افطار کرکے رخصت ہوگئے۔ سحری تک نہیں رُکے۔ دراصل اُنھوں نے میرؔ کے متعلق ہمارے محولہ بالا بیان پرسخت تعجب کا اظہار فرمایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھاکہ
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
سو، ہم نے اُنھیں سمجھانے کی خاطر عرض کیا:
’’اے عزیز! ہندوؤں اور بودھوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اس کے اعمال کے مطابق ایک نیا جنم مل جاتا ہے۔ اگر اعمال اچھے ہوں تو کسی اچھی شکل و صورت میں جنم ملتا ہے، اگر کرتوت برے تھے تو بہت بُری شکل میں جنم ملتا ہے، حتیٰ کہ کتے بلی کی صورت میں بھی۔ اس عقیدے کے اثرات اُردو محاوروں پر بھی پڑے۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ نشست گاہ سے ہمارے گھر تک آپ ہمارے ساتھ اس طرح سے چمٹے چلے آرہے ہیں جیسے ہمارا آپ کا جنم جنم کا ساتھ ہو‘‘۔ یہ سن کر سارے دانت نکالتے ہوئے مسکرا دیے مگر ساتھ نہیں چھوڑا۔
’’جنم جنم کے ساتھ‘‘ کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو دونوں ہی ہر جنم میں اول درجے کے نکوکار رہے ہوں گے یا پھر پرلے درجے کے بدکار، تب ہی ساتھ قائم رہا۔ مگر یہ عقیدہ اسلامی عقاید سے متصادم ہے۔ لوگ بے جانے بوجھے اور بے سوچے سمجھے ’جنم جنم خوش رہو‘ یا ’جنم جنم آباد رہو‘ جیسے کلمات استعمال کرتے ہیں۔ یہ کلمات ہمیں تو دُعا کے بجائے ’بد دُعا‘ محسوس ہوتے ہیں۔ کوئی بھی جان دار ہو، اُس پر تو ایک ہی موت بہت بھاری پڑتی ہے، جب کہ یہاں اس تمنا کا اظہار کیا جارہا ہے کہ میاں! خوش یا آباد رہنے کے لیے جاؤ مرو اور بار بار مرو۔ ستم یہ کہ میرؔ صاحب کا تعلق تو سادات سے تھا مگر اُن کو بھی بار بار نیا جنم دلواکر اُن ہی کے اس شعر پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی:
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اردو میں ’جنم‘ کا لفظ پیدائش یا ولادت کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مگر ہندی میں ’روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں منتقل ہونا‘ جنم کہلاتا ہے۔ بھادوں کے اندھیرے پاکھ کے آٹھویں دن کرشن جی نے جنم لیا تھا، لہٰذا اس دن ’جنم اشٹمی‘ کا تہوار منایا جاتا ہے۔
بحرؔ نے بھی اس ہندی مفہوم سے فائدہ اُٹھایا اور غرقِ گریہ ہونے کے مابعد غرقِ دریا بھی ہوگئے:
غرقِ گریہ ہے شب و روز بتوں کے غم میں
بحرؔ تیرا ہے جنم مردمِ دریائی کا
زناکاری کے لیے ہندی میں ایک بہت دلچسپ ترکیب استعمال کی جاتی ہے: ’جنم بگاڑنا‘۔ زندگی برباد ہوجانے کو بھی ’جنم بگڑنا‘ کہتے ہیں۔ دیکھیے ایک جرم سے کس طرح دو، دو نتائج جنم لے رہے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں بچوں کے نئے جنم پر (یعنی پچھلے قالب سے نکل کر ان شریر بچوں کے نئے قالب میں آجانے پر) پنڈت صاحبان ستاروںکے حساب سے پوری عمر کا احوال یا زائچہ ایک کاغذ پر درج کرکے ماتا پتا کو دے دیتے ہیں، غالباً کچھ بھینٹ وغیرہ بھی لیتے ہوں گے۔ یہ زائچہ ’جنم پترا‘، ’جنم پتری‘ یا ’جنم کنڈلی‘ کہلاتا ہے۔ جنم کنڈلی کے مطابق بچہ پیدائشی بدنصیب نکلا تو اُسے ’جنم جلا‘ /’جنم جلی‘ کہہ کر اظہار ہمدردی یا اس کے برعکس کرلیا جاتا ہے۔ بچے نے جہاں جنم لیا، وہ جگہ اس کی ’جنم بھومی‘ قرار پائی۔ اسی کو ’جنم استھان‘ بھی کہہ لیجے۔ پھر جس روز جنم لیا اُس دن کو ’جنم دن‘کہہ کہہ کر برس کے برس اُس کا یومِ پیدائش بھی مناتے چلے گئے۔ دیہانت ہوجانے کے بعد بھی اب کے برس گاندھی جی کا ایک سو تِرپن واں جنم دن منا لیا جائے گا۔ حالاں کہ خود اپنے ہی عقیدے کے مطابق وہ اتنے عرصے میں نہ جانے کن کن بچگانہ صورتوں میں، کہاں کہاں اور کتنے جنم مزید لے چکے ہوں گے۔
ستاروں کے یہ ہندوانہ اثرات مسلمانوں پر بھی پڑے۔ یوں ہم سب کے ’ستارے گردش میں آگئے‘۔ حتیٰ کہ ہم نے جسے جی جان سے چاہا تھا، اُسے شریکِ زندگی بنانے میں ناکام ہوئے تو باحسرت و یاس باہم قرار پایا کہ ’ہمارے تو ستارے ہی آپس میں نہیں ملتے، ہم ناحق آپس میں ملتے رہے‘۔ پھر ستارے جس مہ جبیں سے در پردہ ملے ہوئے تھے اُس کے والدین کی طرف سے بانٹے جانے والے دعوت نامے پر بڑے فخر سے لکھا گیا ’’ہماری دختر نیک اختر کا نکاح…‘‘ نیک اختر کا مطلب تھا ’اچھے ستاروں والی‘۔ یہاں معاملہ صرف اتنا ہی نہیں کہ ’دختر‘ کا قافیہ ’اختر‘ سے باندھ کر اُسے نیک ٹھیرادیا۔ صاحب! ساری خوش بختی ہی ستاروں سے وابستہ کردی گئی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تقدیر اور ہر قسم کا خیر و شر صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ستاروں کو پوجنا شرک ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
بات جنم جنم کی ہورہی تھی، بیچ میں ستارے بکھر گئے۔ ہمارے ایک پشاوری شاعر دوست نے دل پشوری کرتے کرتے پشاور کے ایک انتہائی مال دار خاندان میں اپنے ستارے ملانے کی کوشش کی۔ رات رات بھر جاگتے رہتے اوراپنے گول گول دیدے مٹکایا کرتے۔ اس جگراتے میں آسمان کی طرف منہ اُٹھا اُٹھا کر اپنے مقدر کے ستارے ہی نہیں گنا کرتے تھے، یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے:
’’او صنم، او صنم! … تیری خاطر لیا … میں نے اُلّو کا جنم‘‘
نیا جنم کامیاب رہا۔ دونوں کے ستارے مل گئے۔ اب وہ خاتون اُنھیں اکثر وہی بناتی رہتی ہیں، جس کا محترم نے بخوشی جنم لیا تھا۔
کسی کا شعر ہے، نہیں معلوم کس کا شعر ہے، پر ہے آبِ زر سے لکھنے کے لائق۔ لیکن محض اس لائق بھی نہیں کہ آب زر سے لکھ کر ایک طرف ڈال دیا جائے۔ صاحبو! اِسے آبِ زر سے لکھ کر فریم کروانا، اور فریم کروا کے ہر ہونے والے شوہر کو اپنی ہونے والی بیگم سے اپنی ذاتی نگرانی میں (ہجے کروا کروا کر) پڑھوانا لازم ہے:
جو دل میں ہے آنا، صنم بن کے آ
خدا بن کے آنے سے کیا فائدہ