نسیم انجم (پ:1956ء)موجودہ ادبی منظرنامے کا ایک اہم نام ہے۔ نسیم انجم نے نثر کی مختلف جہتوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے (دھوپ چھائوں، آج کا انسان، گلاب فن اور دوسرے افسانے)، پانچ ناول (کائنات، نرک، پتوار، آہٹ، سر بازار رقصاں) اور تنقید پر دو کتابیں (خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زن، فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ) شائع ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ دو عشروں سے ’’ساختہ بے ساختہ‘‘ کے عنوان سے ایک روزنامے میں کالم نگاری بھی کررہی ہیں اور کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
نسیم انجم نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں بالعموم معاشی و سماجی مسائل، غربت و افلاس، بے روزگاری، قتل و غارت، تشدد پسندی، دہشت گردی اور تھانہ کلچر کو موضوع بنایا ہے۔ نسیم انجم کا مشاہدہ گہرا اور وسیع ہے۔ انھوں نے جرائم پیشہ افراد کی نفسیات اور نفسیاتی کشمکش اور عہدِ حاضر کے سماجی و معاشرتی حالات و واقعات کو اپنے افسانوں کے کرداروں کے ذریعے اجاگر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ نسیم انجم کا ناول ’نرک‘ ایک منفرد موضوع پر ہے۔ یہ پہلا ناول ہے جس میں ’مخنث‘ کی زندگی اور ان کو درپیش مسائل کا بڑی باریک بینی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
پیش نظر کتاب ’’نسیم انجم کی ادبی خدمات‘‘ پر محترمہ فرزانہ کوثر کا ایم۔ فل اردو کے لیے لکھا جانے والا تحقیقی مقالہ ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے یہ تحقیقی مقالہ ممتاز محقق اور ادیب ڈاکٹر خالد ندیم (صدر شعبہ اردو اور مشرقی زبانیں، سرگودھا یونیورسٹی) کی زیرنگرانی لکھا ہے۔
یہ تحقیقی مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں نسیم انجم کی سوانح و شخصیت کا بھرپور تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس باب میں اُن کے خاندانی پس منظر، اُن کی شخصیت کے تشکیلی عناصر، تعلیمی و تخلیقی سفر اور اُن کے ذہنی، علمی و ادبی ارتقا کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا اور تیسرا باب بالترتیب نسیم انجم کی افسانہ و ناول نگاری سے متعلق ہے، ان ابواب میں اُن کے افسانوں اور ناولوں کا تعارف، موضوع، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظرنگاری اور اسلوبِ بیان کو زیر ِ بحث لایا گیا ہے۔ چوتھا باب نسیم انجم کی متفرق ادبی خدمات سے متعلق ہے۔ اس باب میں ان کی تحقیق و تنقید، کالم، تبصرے اور مضامین، طنز و مزاح اور ڈرامہ نگاری وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے۔ پانچویں باب میں ناقدین ِ ادب کی آراء کی روشنی میں اُن کے ادبی مقام و مرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایم۔فل۔ کی سطح پر محنت سے لکھے جانے والے اس مقالے کی اشاعت خوش آئند ہے، جس کے لیے مقالہ نگار اور نگرانِ مقالہ دونوں قابلِ مبارک باد ہیں۔