اکیسویں صدی کے سماجی مسائل اور اسلام

اللہ جل شانہٗ نے ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی پر علومِ دینیہ کے ابواب ایسے وا کیے ہیں اور ان کے قلم سے اسلام کے لیے ایسی خدمت لی ہے جو صدیوں زندہ رہے گی، ان شاء اللہ۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے امتِ مسلمہ کے سلگتے اور زندہ مسائل پر عالمانہ اور مجتہدانہ تحقیق پیش کی ہے، اور کتاب و سنت کی روشنی میں اپنا تجزیہ وضاحت کے ساتھ تحریر کردیا ہے۔ سید ہدایت الرحمٰن حسن بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ ان کی توجہ سے بھارت میں چھپنے والی یہ کتاب پاکستان میں دستیاب ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کو سیال قلم عطا کیا ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے، آمین۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام تحریر فرماتے ہیں:

’’اکیسویں صدی اپنے جلو میں جہاں حیرت انگیز سائنسی ایجادات، تمدنی ترقیات اور سفر و حضر کی سہولیات لے کر آئی ہے، وہیں بہت سے ایسے سماجی اور اخلاقی مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن سے دنیا فتنہ و فساد کی آماج گاہ بن گئی ہے، اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے اور انسانی سماج حیوانات کے باڑے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر سماجی مفکرین اور مصلحین ان مسائل سے پریشان ہیں، لیکن انہیں کوئی راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اُس میں یہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے، اور جو انسانی معاشرے ان مسائل سے دوچار ہیں، اگر ان میں حقیقی اسلامی تعلیمات کو نافذ کیا جائے تو ان مسائل کو بہ خوبی حل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اسلام کو اتنا بدنام کردیا گیا ہے اور اس کی تصویر اتنی مسخ کردی گئی ہے کہ وہ عالمِ انسانیت کے لیے رحمت کے بجائے زحمت معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں دور کی جائیں اور اس کی صحیح تصویر پیش کی جائے۔

راقم سطور نے 2011ء کے اوائل سے ’’عالمی سماجی مسائل اور اسلام‘‘ کے موضوع پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس کی ابتدا ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے ہوئی تھی۔ پھر ستمبر 2011ء میں مرکز جماعت اسلامی ہند کی تصنیفی اکیڈمی سے وابستہ ہونے کے بعد بھی اس نے اس موضوع پر کام جاری رکھا اور ایک ایک مسئلے پر مستقل مقالہ تیار کیا۔ انہی مقالات کا مجموعہ زیر نظر کتاب کی صورت میں ہدیۂ قارئین ہے۔ ’’پلاسٹک سرجری اور اسلام‘‘ کے عنوان سے مقالہ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سالانہ سیمینار منعقدہ مدورائی (تامل ناڈو) 28 فروری تا 2 مارچ 2009ء، اور ’’عام تباہی کے اسلحہ کا استعمال‘‘ کے عنوان سے مقالہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی کے سیمینار بہ عنوان Peace and Progress:Role of Religions منعقدہ 11، 12 فروری 2012ء علی گڑھ میں پیش کیا گیا تھا۔ موضوع کی مناسبت سے انہیں بھی شاملِ کتاب کردیا گیا ہے۔ ان مقالات میں بعض مباحث کی تکرار پائی جاتی ہے۔ کہیں کہیں تکرار حذف کردی گئی ہے، لیکن کہیں کہیں اسے حسب ضرورت باقی رکھا گیا ہے۔
ان مقالات میں سے بیشتر سہ ماہی ’تحقیقات اسلامی‘ علی گڑھ میں شائع ہوئے ہیں۔ راقم سطور کے لیے خوشی، اطمینان اور شرف کی بات یہ ہے کہ اس کے محسن و مربی مولانا سید جلال الدین عمری، امیر جماعت اسلامی ہند و صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ نے اشاعت سے قبل ان پر نظر ڈالی ہے، ان کی نوک پلک درست کی ہے اور ان کے مواد کو بہتر بنانے کے لیے قیمتی مشورے دیے ہیں اور اشاعت کے بعد قارئین نے انہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور تحسین و آفریں کے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے متعدد مقالات افادۂ عام کے لیے کتابچوں کی صورت میں شائع ہوئے، ان کے متعدد ایڈیشن نکلے اور مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے کیے گئے۔ امید ہے، اس کتاب میں ان کی شمولیت سے استفادہ کا دائرہ وسیع ہوگا۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس عاجز سے مزید دین کی خدمت کا کام لے اور اسے اخلاص سے نوازے۔ انہ قریب سمیع مجیب‘‘۔
جن موضوعات پر مقالات لکھے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

نکاح کے بغیر جنسی تعلق، جنسی بے راہ روی اور زناکاری، رحم مادر کا اجرت پر حصول، ہم جنسیت کا فتنہ، مصنوعی طریقہ ہائے تولید، اسپرم بینک: تصور اور مسائل، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل، گھریلو تشدد، بوڑھوں کے عافیت کدے، پلاسٹک سرجری، عام تباہی کے اسلحہ کا استعمال

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی تحریر فرماتے ہیں:
’’عالمی سطح پر انسانی سماج کو درپیش ان مسائل نے دنیا کے تمام مفکرین، دانش وروں، سیاست دانوں، امن و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سماجی مصلحین کو پریشان کر رکھا ہے۔ انہیں کوئی راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اور ان کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے وہ نت نئی تدابیر اختیار کرتے ہیں، مگر مسائل ہیں کہ مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔ طرح طرح کے قوانین بناتے ہیں، مگر وہ ذرا بھی مؤثر ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ فطرت سے بغاوت کا یہ انجام تو سامنے آنا ہی تھا اور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزہ تو چکھنا ہی تھا۔

اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے قطعی مختلف ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبے کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقہ کار کا پابندکرتا ہے، جس کا نام ’’نکاح‘‘ ہے۔ اس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق صحیح بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور خاندان کا ادارہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کی نظر میں زنا صرف وہی نہیں جس میں جبر واکراہ شامل ہو، بلکہ وہ بھی ہے جو طرفین کی رضامندی سے ہوا ہو۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا ہر حال میں حرام ہے، خواہ اس کا ارتکاب سماج کی نگاہوں کے سامنے ہو یا پوشیدہ، اور اس میں طرفین کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔ اس کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطرتی داعیہ کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اس کے نزدیک انسان اپنے اعضائے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادۂ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرائے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اس کے نزدیک ’’عفت و عصمت‘‘ اعلیٰ اخلاقی قدر اور بڑی قیمتی شے ہے، اس لیے اسے پامال کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ اس کے نزدیک اولاد شادی شدہ جوڑے کے لیے اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے، اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ نے روزی اور وسائلِ معاش فراہم کرنے کا ذمہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے، اس لیے کم افادیت یا عدم افادیت کے بہانے مادہ (Female) جنین کا اسقاط کروانا جائز نہیں۔ اس کے نزدیک بوڑھے والدین خاندان کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ہر طرح سے خدمت کرنا، ان کے لیے دیدہ و دل کو فرشِ راہ کرنا، اور ان کی تنک مزاجی کو برداشت کرنا سعادت مند اولاد کا فریضہ ہے۔ اس نے نظامِ خاندان میں مرد اور عورت دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں تفصیل سے بیان کردی ہیں اور مرد کو گھر چلانے کی اضافی ذمہ داری دے کر پابند کیا ہے کہ وہ عورت پر کسی طرح کا ظلم نہ کرے، ورنہ اس کی بازپرس ہوگی۔

خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصے تک دنیا کے قابلِ لحاظ حصے میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اور اب بھی جن معاشروں میں ان پر عمل کیا جارہا ہے وہ پاکیزگی، امن اور ہمدردی و رحم دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی موجودہ دور کے مذکورہ بالا سماجی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ان کے برے اثرات اور پیچیدہ عواقب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، انہیں اسلام کی ان تعلیمات کو اختیار کرنے اور انہیں اپنے سماج میں نافذ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے‘‘۔
کتاب خوب صورت طبع کی گئی ہے، حسین و جمیل رنگین سرورق سے مزین ہے۔