تین زمانوں کی زندگی

ہر انسان تین زمانوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ ایک زندگی تو زمانۂ حاضر یا لمحۂ موجود کی ہے، اور باقی دو زندگیاں پچھلے اور اگلے زمانوں کی ہیں۔ ہم سانس تو موجودہ عہد میں لیتے ہیں مگر دل و دماغ پر گزرے ہوئے یا پھر آنے والے زمانے چھائے رہتے ہیں۔ یہ ہر انسان کا معاملہ ہے، اس لیے لوگ بالعموم اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کوئی بھی معاملہ جب منطقی حد سے گزرتا ہے تو محض خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ تین زمانوں میں جینے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
اپنے ماحول میں آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو یا تو گزرے ہوئے زمانوں کو رو رہے ہوں گے یا پھر آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہوں گے۔ جو زمانے گزر چکے ہیں اُن میں ہم رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، اب ان کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں۔ اہمیت اگر ہے تو بس اتنی کہ اُن سے سبق سیکھا جائے، یعنی اپنی کوتاہیوں کو یاد کرکے عہد کیا جائے کہ اُنہیں کسی بھی حال میں دُہرانا نہیں ہے۔ ماضی یاد کرنے سے زیادہ سبق سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اُسے یاد بھی اگر رکھا جائے تو صرف اس لیے کہ جو کچھ بھی غلط کیا ہو وہ اب نہیں کرنا۔ اس معاملے میں وہ لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو ڈائری لکھنے کے عادی ہوں۔ وہ اپنی زندگی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں اور اُس سے بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ ڈائری لکھنے کی عادت انسان کو گزرے ہوئے زمانوں کا ڈھنگ سے جائزہ لینے کے قابل بناتی ہے۔ ڈائری لکھنے والوں کا ذہن منظم رہتا ہے۔ اُنہیں بہت زیادہ یاد نہیں کرنا پڑتا۔ لکھنے کی عادت بہت کچھ اُن کی فکری ساخت میں پرو دیتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ ڈائریوں کے ذریعے اپنے گزرے ہوئے زمانوں میں جھانک کر مطلب کی بات نکال لاتے ہیں اور اُس کے مطابق اپنے زمانۂ حال کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری انتہا ہے آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا اور دوسروں کا خون جلانے والوں کی۔ زندگی بسر کرنے کا یہ انداز بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ انسان اگر ہر وقت آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچتا رہے تو خوامخواہ تشویش میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ بے جا تشویش اُسے ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ تر ہوتی جاتی ہے اور انسان محض خیال و خواب کی دنیا کا باشندہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ آنے والے زمانوں کے دامن میں ہمارے لیے کیا ہے اور کیا نہیں ہے اِس کے بارے میں سوچنے کی بھی اہمیت ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اس حوالے سے سوچتے ہی رہنا چاہیے۔ یہ تو اپنے آپ کو ہلکان کرنے والی بات ہوئی۔

گزرے ہوئے اور آنے والے زمانوں میں ہمارے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانے ہمیں بہت کچھ دے چکے ہوتے ہیں اور آنے والے زمانے ہمیں کچھ نہ کچھ دینا چاہتے ہیں۔ جو مل چکا ہے وہ مل چکا ہے اور جو ابھی ملا نہیں اُس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی گنجائش نہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان لمحۂ موجود یعنی زمانۂ حاضر میں زندہ رہے۔ زمانۂ حاضر ہی ٹھوس حقیقت ہے۔ گزرا ہوا زمانہ گزری ہوئی ٹھوس حقیقت ہے، اور آنے والا زمانہ تو ابھی حقیقت بنا ہی نہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے اگر کوئی حقیقت رہ جاتی ہے تو وہ ہے زمانۂ حاضر۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے، ہمیں میسر ہے اُس سے بہ طریقِ احسن مستفید ہونا ہے اور دوسروں کو بھی مستفید کرنا ہے۔ فی الحقیقت یہی زندگی ہے۔

ہر دور کے اہلِ علم و فن نے عام آدمی کو سکھایا ہے کہ ماضی کی یادوں میں گم رہنے اور مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہنے سے کہیں بڑھ کر زمانۂ حاضر میں زندہ رہنا ہے۔ لمحۂ موجود ہی ہمیں کچھ دے سکتا ہے۔ جب ہم اپنے وقت سے مستفید اور محظوظ ہورہے ہوتے ہیں تب زندگی کا چہرہ نکھرتا ہے، اس چمن میں بہار آتی ہے۔ ماضی کو یکسر فراموش بھی نہیں کرنا ہے اور مستقبل کے بارے میں سوچنے سے گریز بھی نہیں کرنا ہے۔ سوال صرف اعتدال اور توازن کا ہے۔ جب تک توازن نہ ہو تب تک زندگی جوبن پر نہیں آتی۔ یہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ وقت نے بارہا ثابت کیا ہے اور کر رہا ہے کہ کامیاب وہی رہتے ہیں جو اگلے اور پچھلے زمانوں کے بارے میں سوچنے کی روش ترک کرکے زمانۂ حاضر میں سانس لیتے ہیں۔

دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام نے جتنی بھی ترقی کی ہے وہ زمانۂ حاضر میں رہتے ہوئے کی ہے۔ زمانۂ حاضر میں رہنے کا مطلب ہے عصری تقاضوں کو سمجھنا، اپنی صلاحیت و سکت میں اضافہ کرنا اور ڈھنگ سے جینے کی راہ نکالنا۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم ماضی اور مستقبل کے بکھیڑوں سے نجات پائیں اور اپنے ذہن کو سوچنے کے قابل رہنے دیں۔ ماضی کی یادوں میں گم رہنے کی صورت میں ذہن محض کُڑھتا ہے یا پھر چند ایک خوش گوار باتوں کی بدولت تھوڑی بہت راحت محسوس کرسکتا ہے، سوچ بہرحال نہیں سکتا۔ سوچنے کے قابل ہونے کے لیے لازم ہے کہ ذہن ماضی کے کباڑ خانے سے باہر نکلے اور زمانۂ حاضر کی فضا میں سانس لے۔ جوکچھ ہمارے سامنے ہے ہمیں اُسے محسوس ہی نہیں کرنا، سمجھنا بھی ہے، اور سمجھنے کے بعد مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل کا حامل بھی ہونا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم مکمل حاضر دماغی کے ساتھ جینے کی عادت پروان چڑھائیں۔ کم لوگ ہی ایسا کرپاتے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو اُسے وہم و گمان اور تشویش میں مبتلا رکھتا ہے۔ چند تلخ یادیں ذہن کو ہر وقت گھیرے رہتی ہیں۔ یوں ذہن کو سوچنے کا وقت ملتا ہے نہ ایسا کرنے کی سکت ہی باقی رہتی ہے۔ ماضی کے بارے میں سوچتے رہنے سے بھی ذہن کی توانائی صرف ہوتی رہتی ہے۔ یہ صرف سراسر ضیاع ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کا ادراک کرپاتے ہیں وہ عملی زندگی میں بہت کامیاب رہتے ہیں۔ جو کچھ بھی گزر چکا ہے اُسے ایک خاص حد تک ذہن کی متحرک سطح میں موجود رہنا چاہیے۔ ہمارا متحرک ذہن زمانۂ موجود میں موجود اشیا اور واقعات کو بہت حد تک سمجھنا چاہتا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب اِسے کام کرنے کی مکمل آزادی دیں۔ یہ آزادی درحقیقت اُسی وقت مل سکتی ہے جب ماضی سے اِس کا پنڈ چھڑادیا جائے۔ یہ اگرچہ آسان نہیں، تاہم ناممکن بھی نہیں۔

ہر عہد میں شخصی ارتقا کے موضوعات پر سوچنے اور لکھنے والوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ انسان کو جاگنے کی حالت میں حاضر دماغ رہنا چاہیے، یعنی لمحۂ موجود میں رہتے ہوئے جینا چاہیے۔ اِسی حالت میں وہ اپنے لیے کچھ بھلا سوچ سکتا ہے۔ جو کچھ ہمارے ماحول میں ہورہا ہے وہ ہمیں بہت کچھ سمجھنے اور سوچنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ ہم اگر ماضی یا مستقبل میں گم رہیں تو زمانۂ حاضر کا غالب حصہ اپنے ہی ہاتھوں ضایع کر بیٹھیں گے۔ عمومی سطح پر یہی ہوتا ہے۔ لوگ کچھ نہ کچھ ایسا ویسا یاد کرکے جلتے اور کُڑھتے رہتے ہیں۔ یہ روش اُنہیں سمجھنے اور سوچنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ ویسے تو ہر دور ہی ہم سے بہت سے تقاضے کرتا ہے، مگر آج معاملات بہت مختلف ہیں۔ تبدیلی کا عمل بہت تیز ہے۔ بہت کچھ بہت تیزی سے بدل جاتا ہے اور ہم صرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اُسے سمجھنے اور پھر ادراک کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دینے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی جائے۔ یہ پورا عمل ہم سے قدم قدم پر حاضر دماغ یا بیدار مغز رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ تقاضا جس نے سمجھا اور نبھایا وہ کامیاب رہا۔

بازار میں ایسی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں جن میں شخصی ارتقا کے ماہرین نے سمجھایا ہے کہ انسان کو اگر واقعی کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے لمحۂ موجود میں رہنے کی عادت ڈالے، اپنے زمانے کو سمجھنے کا شعور پیدا کرے۔ یہ شخصی ارتقا کا بنیادی تقاضا ہے۔ بات برحق ہے۔ ہم جب تک اپنے عہد کو نہیں سمجھ سکتے تب تک کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ جس نے یہ حقیقت جان لی وہ مراد پاگیا۔ ہر کامیاب معاشرہ سب سے زیادہ زمانۂ حاضر میں جیتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہنا کسی بھی اعتبار سے دانش کا سَودا نہیں۔ یہ تو اپنے وجود کو گُھن لگانے والی بات ہوئی۔

قدرت نے ہمیں بیک وقت تین زمانوں میں زندگی بسر کرنے کا آپشن دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زندگی کو تین زمانوں میں تقسیم ہی کردیا جائے۔ ماضی میں بھی ضرورت کے مطابق جانا چاہیے اور مستقبل سے ملاقات بھی ضرورت محسوس ہونے ہی پر کی جانی چاہیے۔ ہمارے لیے اول و آخر حتمی سودمند معاملہ صرف اور صرف زمانۂ حاضر اور لمحۂ موجود کا ہے۔ یہ حقیقت ذہن نشین رہے تو کامیابی آپ کے بھی قدم چُومتی رہے گی۔