اسرائیلی حکومت نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی بستیاں مسمار کرکے 4 ہزار کے قریب نئے گھر تعمیر کرنے کی منظوری دے دی۔ ان مکانات کی ملکیت کے لیے یہودی ہونا شرط ہے۔ پہلے مرحلے میں 2536 اور اس کے ایک سال بعد مزید 1452 مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ یہاں آباد ہزاروں فلسطینیوں کو خیموں میں منتقل کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔
صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کر اُن کی زمینوں پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 1967ء سے جاری ہے جب ”چھ روزہ جنگ“ کے نام سے مشہور عسکری تصادم میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس سمیت دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی جنگ میں شام سے سطح مرتفع گولان اور مصر سے صحرائے سینا کے ساتھ بحر روم پر واقع زرخیر پٹی غزہ ہتھیالی گئی۔
تحفظِ انسانی حقوق کے لیے سرگرم عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ”عرب علاقوں کا مدنی اور شہری تشخص تبدیل کرکے مردم نگاری (demography) کو یہودی اکثریت میں تبدیل کرنے کے لیے جبری نقل مکانی اور بے دخلی کا سلسلہ اسرائیلی ریاست کے قیام یعنی 1948ء سے جاری ہے۔ اسرائیلی حکومت عرب اکثریتی علاقوں میں زمین سمیت تمام وسائل وہاں کے مکینوں سے چھین کر غاصب یہودی آبادکاروں کے حوالے کررہی ہے۔“ (حوالہ: الجزیرہ آن لائن، 6 مئی 2022ء، نامہ نگار فرح نجار)
”چھ روزہ جنگ“ میں قبضہ کرتے ہی مشرقی یروشلم کو فوری طور پر اسرائیلی ریاست کا حصہ بنالیا گیا تھا، جسے اسرائیل اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔ یہودیوں کا مقدس مقام یعنی دیوارِ گریہ، مسیح علیہ السلام کی جائے پیدائش بیت اللحم، پہاڑ پر تعمیر کیا گیا منبر جہاں سے حضرتؑ وعظ دیا کرتے تھے، اور مسلمانوں کا قبلہ اوّل مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ اسرائیلی حکومت اور مقامی بلدیہ نے علاقے کا تشخص تبدیل کرنے کے لیے اسے مشرقی یروشلم کا نام دیا ہے، تاہم فلسطینیوں کے لیے یہ اب بھی ”القُدس شریف“ ہے۔ دورِ فاروقی میں آزادی کے وقت سے اسے القُدس شریف کہا جاتا ہے۔
اس جنگ سے پہلے دریائے اردن کا مغربی کنارہ اسرائیل کے قبضے میں تھا جہاں یہودیوں کی اکثریت ہے، جبکہ مشرقی علاقہ اردن کی ہاشمی سلطنت کا حصہ تھا۔ جنگ کے فوراً بعد اسرائیل نے مشرقی کنارے کو اپنے مغربی کنارے میں ضم کرلیا۔ دلچسپ بات کہ انضمام کے بعد اس پورے علاقے میں عربوں کی اکثریت ہے۔ انتہائی مغربی جانب اور شمال میں کچھ بستیوں کے سوا سارے علاقے میں عرب آباد ہیں۔ یروشلم بھی یہیں واقع ہے جسے دارالحکومت بنانے کا قصہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس انضمام کو مسترد کرتے ہوئے یہ علاقہ اردن کو واپس کرنے کی قرارداد منظور کرلی تھی، لیکن امریکہ اور برطانیہ نے سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ درجنوں قراردادیں منظور کرچکی ہے۔ صرف 1967ء میں جولائی سے دسمبر تک 7 قراردادیں منظور کی گئیں جن میں اسرائیل سے 1967ء کی سرحدوں پر واپس جانے کے ساتھ مشرقی بیت المقدس سمیت تمام مقبوضہ عرب علاقوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی شدید مذمت کی گئی۔
ابتدا میں فوجی چھائونیاں اور دفاعی مورچے تعمیر کرنے کے لیے فلسطینیوں کو اُن کے مکانوں سے نکال کر اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ان سخت جانوں کی اکثریت نے اردن جاکر آرام دہ زندگی گزارنے کے بجائے امیدِ بہار پر شجرِ فلسطین سے پیوستہ رہنے کو ترجیح دی اور وہیں خیمے گاڑ لیے۔ وقت کے ساتھ فوجی مورچے، نشانہ بازی کے میدان اور عسکری تنصیبات کی ”ضرورت“ بڑھتی رہی، یا یوں کہیے کہ فلسطینیوں کے مکانات اجڑتے اور خیمے آباد ہوتے رہے۔ امریکہ نے بکمالِ مہربانی ان خیموں کے لیے خطیر رقم عطا فرمائی۔
جنگِ رمضان (1973ء) میں شکست کے بعد عرب اور مسلمان دنیا مایوسی کے گرداب میں ڈوب گئی اور تصادم کے بجائے تعاون و پُرامن بقائے باہمی کا بیانیہ تصنیف ہوا۔ مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور اردن کے فرماں روا شاہ حسین اس بیانیے کے مصنفین شمار ہوتے ہیں۔ تحریک آزادیِ فلسطین کے سربراہ جناب یاسر عرفات ابتدا میں اس حکمت عملی کے خلاف تھے لیکن جلد ہی انھیں بھی زمینی حقائق کا ”ادراک“ ہوگیا۔ اسرائیلی سمجھ گئے کہ امن کی خواہش عربوں کا اعترافِ شکست اور شاخِ زیتون درحقیقت دست برداری اور سپردگی کا علَم ہے۔
گزشتہ صدی کے اختتام پر انتہا پسند اسرائیلی سیاست پر غالب آگئے، دوسری جانب نائن الیون (9/11) نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا۔ مشرق وسطیٰ سے مشرقِ بعید تک مسلم اکثریت کے چھوٹے بڑے تمام ملکوں کی خودمختاری عملاً تحلیل ہوگئی اور چند ایک کے سوا سبھی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا ہراول دستہ بن گئے۔ فلسطین کی تحریک آزادی سمیت اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلمان ”مہذب“ دنیا کی نظر میں مشکوک قرار پائے۔
اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں کی ہیئت تبدیل کرکے انہیں ریاست اسرائیل کا حصہ بنانا شروع کردیا۔ وادیِ اردن قدیم عبرانی نام یہود ویشمرون یا یہود والسامرہ سے موسوم کردی گئی۔ اس کا عبرانی مخفف ”یوش“ ہے۔ اسرائیلی مورخین کے مطابق سامریہ حضرت سلیمانؑ کی شمالی اور یہودا حضرت کی جنوبی سلطنت کا حصہ تھا۔ اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ اس اعتبار سے غلط ہے کہ لفظ ”یہودی“ بعثتِ حضرت عیسیٰؑ کے بعد ایجاد ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہودی مذہب کے ماننے والے خود کو بنی اسرائیل (حضرت یعقوبؑ کی اولاد)کہتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کا انکار کرنے والوں نے خود کو یہودی کہنا شروع کیا۔
انتہاپسند بن یامین نیتن یاہو نے وزیراعظم بنتے ہی 2009ء میں علاقے کو یوش کہنا شروع کیا۔ پینسٹھ سال سے یہاں مارشل لا نافذ ہے۔ یہ علاقہ قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ نہیں، اور ریاست کے سرکاری نقشوں میں بھی یہودا اور سامریہ کو مقبوضہ علاقہ دکھایا جاتا ہے۔ عرب باشندے دریائے اردن کے دونوں کناروں کو فلسطینی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ خود اسرائیلی عدالت نے مشرقی یروشلم کے سوا پوری وادی کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا ہے۔ امریکہ، عالمی عدالتِ انصاف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی دریائے اردن کے دونوں کناروں کو فلسطینی ریاست کا حصہ گردانتے ہیں۔ دوسری مدت کا انتخاب جیتنے کے بعد 2013ء میں امریکی صدر اوباما نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل و فلسطین دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے حامی ہیں اور ان کے خیال میں مشرقی یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔
ستمبر 2014ء میں اسرائیلی کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے آئین و قانون نے یہودا اور السامریہ کی وادیوں کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنادینے کی قرارداد منظور کی۔ اجلاس کے صدر نیتن یاہو کی منت سماجت کے باوجود اجلاس میں موجود سات میں سے تین ارکان نے اس تجویز کو اقوامِ عالم کی امنگوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے مخالفت میں ہاتھ بلند کیے۔ ان ”باغیوں“ کی قیادت وزیر انصاف محترمہ زپی لوینی (Tzipi Livini) کررہی تھیں۔ لوینی صاحبہ فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے والے اسرائیلی وفد کی سربراہ تھیں۔ انھوں نے قرارداد کو غیر منصفانہ اور اس کی حمایت کرنے والے وزرا کو انتہائی غیر ذمہ دار قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ مہذب دنیا اس بل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور یہ طرزعمل قوموں کی برادری میں اسرائیل کو تنہا کردے گا۔ اس مبنی برحق اور منصفانہ طرز فکر و عمل پر لوینی صاحبہ سیاسی اعتبار سے سنگسار کردی گئیں۔ انھوں نے امن و انصاف کے لیے ”مبارک تحریک“ (عبرانی نام حسنوا) کے نام سے علیحدہ سیاسی جماعت کھڑی کی، لیکن ”غدار“ زپی کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرناپڑا، حتیٰ کہ 2019ء کے آغاز میں 63 سالہ زپی لوینی سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں۔ آج کل موصوفہ اپنا زیادہ وقت امریکہ میں گزارتی ہیں۔
قرارداد پر بحث کے دوران وزیر داخلہ گدیون سعر (Gideon Saar) نے نفرت انگیز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہودا اور سامریہ قدیم سلطنتِ اسرائیل کا حصہ ہیں اور موجودہ ریاست اسرائیل سے ان کا انضمام فطری ہے۔ علاقے میں آزاد فلسطینیوں کے بارے میں مسٹر سعر نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ اگر عربوں کو اسرائیلی حاکمیت پسند نہیں تو وہ مصر، اردن، لبنان اور شام کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب نیتن یاہو کا اقتدار ڈگمگایا تو سعر صاحب نے ”امیدِ نو“ کے نام سے نئی جماعت بنالی جس کو گزشتہ عام انتخابات میں 6 نشستیں ملیں، موصوف آج کل وزیرانصاف ہیں۔
یہی وہ وقت تھا جب صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد مصری حکومت نے غزہ کی سخت ناکہ بندی کردی تھی جس کی وجہ سے غزہ کے ساتھ مشرقی کنارے پر اشیائے ضرورت اور غذائی اجناس کی قلت نے فلسطینیوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کررکھا تھا۔ حزب اللہ شام کے اندرونی معاملات میں الجھی ہوئی تھی۔ شیعہ سنی تعصب نے فلسطینیوں کو ایران کی حمایت سے محروم کردیا تھا، اور امداد کے راستے مسدود ہونے کے بعد فلسطینی خود کو بہت تنہا محسوس کررہے تھے۔ اسرائیل کے عسکری ماہرین کا خیال تھا کہ یہ فلسطینیوں پر فیصلہ کن ضرب لگانے کا مناسب وقت ہے کہ اُن کے لیے صہیونی فوج کی موثر مزاحمت ممکن نہیں۔
امریکہ نے اس فیصلے کی مخالفت بلکہ شدید مذمت کی اور صدر اوباما کا ”ناراضی سے بھرا پیغام“ لے کر امریکی وزیر خارجہ جان کیری بنفسِ نفیس تل ابیب تشریف لائے، لیکن نیتن یاہو نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب یہ معاملہ پارلیمان میں ہے اور وہ مداخلت نہیں کرسکتے۔
اُس وقت سے اب تک غربِ اردن سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے تعمیر کی جانے والی 250 بستیوں میں ساڑھے سات لاکھ اسرائیلیوں کو بسایا گیا ہے۔ ان کالونیوں کو فلسطینی آبادی سے الگ رکھنے کے لیے درمیان میں کنکریٹ کی بلند و بالا دیوار کھڑی کی گئی ہے جسے امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر apartheid wall کہتے ہیں۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی بستیوں کے قیام کا حالیہ اعلان اُس ”اقلیتی“ حکومت نے کیا ہے جو اسلامی خیالات کی حامل رعم پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کو 120 کے ایوان میں 60 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں رعم کے 4 ارکان شامل ہیں۔
سابق صدر اوباما کی طرح صدر بائیڈن کو بھی اس اعلان پر ”سخت تشویش“ ہے۔ معلوم نہیں واشنگٹن لاچار ہے جس کی وجہ سے اسرائیل اُس کے بیانات کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا، یا مکار، کہ سب کچھ باہمی رضامندی سے ہورہا ہے اور بیان بازی نُورا کُشتی کا حصہ ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں جب 3000اسرائیلی مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی تو امریکی وزارتِ خارجہ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”فلسطینی اراضی پر اسرائیلی بستیوں کا قیام، کشیدگی میں کمی اور بحالیِ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطابقت نہیں رکھتا“۔ اشک شوئی کے لیے اسرائیل نے تعمیر کا کام وقتی طور پر مؤخر کیا اور چند ماہ بعد منصوبہ مکمل کرلیا گیا۔
صدر بائیڈن اگلے ماہ سرکاری دورے پر اسرائیل جارہے ہیں اور قصرِ مرمریں کی ترجمان نے کہا تھا کہ بستیوں کی تعمیر پر پابندی اسرائیل یاترا کی ایک شرط ہے۔ خیال ہے کہ نوکرشاہی کے حیلوں سے تعمیر کا کام مؤخر کرکے امریکی صدر کو شرمندگی سے بچنے کا موقع فراہم کیا جائے گا، اس لیے کہ ”سپر پاور“ کے سُپر رہنما میں دورئہ اسرائیل منسوخ کرنے کی ہمت نہیں، چنانچہ تعمیرات کو چند دن مؤخر کرکے خیالِ خاطرِ احباب کا اہتمام کیاجارہا ہے۔
امریکہ کے ردعمل پر سخت اشتعال کا اظہار کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے رکنِ پارلیمان نیر اورباش (Nir Orbach)نے کہا کہ جو لوگ يہودا ور السامریہ کو اسرائیل کا حصہ نہیں مانتے انھیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ اسی لہجے میں بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ محترمہ ایلٹ شیکڈ نے کہا کہ یہودا اور سامرہ میں یہودیوں کی آبادکاری ہماری سالمیت و خودمختاری کا استعارہ، فطری ضرورت اور بنیادی حق ہے جس پر بات چیت کی کوئی ضرورت نہیں۔
لاکھوں لوگوں کو اُن کے آبائی گھروں سے نکال کر بھیڑ بکریوں کی طرح خیموں کی طرف ہنکادینا آزاد انسانوں کو غلام بنادینے کے برابر ہے، جس پر دنیا کی خاموشی تو غیر متوقع نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں خون اور آبروئے مسلم سب سے بے قدر و بے وقعت ہے، لیکن حیرت اُن روشن خیال مسلمانوں پر ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ فلسطینیوں کی انتہاپسندی کا نتیجہ ہے۔ وسائل کی کمی کی بنا پر فلسطینی بے دخلی کی مزاحمت نہیں کرسکیں گے لیکن احساسِ محرومی اور اشتعال خودکش بمباروں کو جنم دے سکتا ہے۔ اسرائیلی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ محض فوجی برتری اور قوتِ قاہرہ سرحدوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ فلسطینیوں کو گھیر کر مارنے اور دیوار سے لگانے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ پُرامن بقائے باہمی میں ہی سب کا بھلا ہے۔ صدر بائیڈن کو چاہیے کہ اپنے دورے میں یہ پیٖغام اسرائیلی قیادت کو پہنچادیں کہ صاحبِ نظراں نشہِ طاقت ہے خطرناک۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر
masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔