بلاسود معیشت : ماضی ،حال ،مستقبل

کیا اسلامک بینکنگ حقیقت میں بلا سود بینکاری کرتے ہیں؟

وفاقی شرعی عدالت نے ربوٰ کے مقدمے میں اپنے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح طور پر کہی ہے کہ ربوٰ اور سود دراصل ایک ہی چیز ہے اور قرآن نے ربوٰ کو مکمل طور سے حرام قرار دیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اب سے تقریباً 31 برس قبل 14 نومبر 1991ء کو جو فیصلہ دیا تھا اُس میں بھی کہا گیا تھا کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے، اور عدالت نے سود پر مبنی 20 قوانین کو کالعدم قرار دیا تھا۔ آئینِ پاکستان کی شق 38 (ایف) میں بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد (معیشت سے) ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ شرعی عدالتوں میں ربوٰ کا مقدمہ تقریباً 31 برس زیرسماعت رہا جس کا قطعی کوئی جواز موجود نہیں تھا کی حالانکہ شرعی عدالتوں میں عالم جج بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان تاخیری حربوں میں مختلف حکومتوں اور اسٹیٹ بینک کا بھی بڑا اہم کردار رہا۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، دینی و مذہبی جماعتوں، علماء و مفتی صاحبان، دانش وروں اور وکلاء وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں بہت زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، اور نہ ہی معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ نے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے 30 جون 2001ء تک کی مہلت دی تھی۔ جون 2001ء میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ نے اس فیصلے پر عمل درآمد کی مدت میں بلا کسی جواز کے ایک سال کی توسیع حکومت سے یہ تحریری ضمانت لیے بغیر کردی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقیناً کرے گی اور توسیع صرف اس لیے مانگ رہی ہے کہ اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی بینکاری کے نفاذ کی کوششوں کو بڑا دھچکہ تھا۔ سپریم کورٹ کی اس بینچ میں پاکستان کے ایک ممتاز ترین اور عالمی شہرت کے حامل مفتی بھی عالم جج کی حیثیت سے شامل تھے۔ سپریم کورٹ کی ایک اور شریعت اپیلیٹ بینچ نے جس میں دو عالم جج بھی شامل تھے، صرف 10 روز کی سرسری اور رسمی سماعت کے بعد 24 جون 2002ء کو ایک فیصلہ سنایا جس کے تحت سود کو حرام قرار دینے کے 14 نومبر 1991ء اور 23 دسمبر 1999ء کے فیصلوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا، جس نے تقریباً 21 برس بعد 28 اپریل 2022ء کو فیصلہ سنایا جس میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے مزید پانچ برس کا وقت دے دیا۔ اس بات کا امکان بہرحال نہیں ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہوگا۔ اگر ربوٰ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو سود کے خاتمے کے ضمن میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوچکی ہوتی۔ بدقسمتی سے ایسا نظر آتا ہے کہ وطنِ عزیز میں ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کی گئی تھی جس کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ
(الف) معیشت سے سود کے خاتمے کو لمبی مدت تک التوا میں رکھا جائے۔
(ب) اسلامی نظامِ بینکاری کے نام پر 2002ء میں شروع کیے جانے والے نظامِ بینکاری کو سودی نظام کے نقشِ پا پر استوار کیا جائے۔
(ج) ملک میں ’’اسلامی بینکاری‘‘ اور سودی نظامِ بینکاری کو لمبی مدت تک ساتھ ساتھ یعنی متوازی چلنے دیا جائے۔
(د) اس دوران معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ اور پیچیدگیاں پیدا کردی جائیں کہ ملک میں آنے والی دہائیوں میں بھی معیشت سے سود کے خاتمے کی طرف معنی خیز پیش رفت خواب و خیال کی بات بن کر رہ جائے۔
مندرجہ بالا حکمتِ عملی کے تحت کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں ان مقاصد کے حصول میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔ ان 20 برسوں میں سود کے خاتمے کے لیے ماحول پہلے سے بھی زیادہ معاندانہ ہوگیا ہے، مثلاً:
(الف) 30 جون 2002ء کو ملک کے داخلی قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 1800ارب روپے تھا جو 30 ستمبر 2021ء کو بڑھ کر پہلے ہی 28806 ارب روپے ہوچکا ہے۔
(ب) 30 جون 2002ء کو پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 35 ارب ڈالر تھا، جو 30 ستمبر 2021ء کو بڑھ کر 130 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔
وزارتِ خزانہ نے جون 2001ء میں ربوٰکے مقدمے میں جو حلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا اُس میں کہا گیا تھا کہ سود کی بنیاد پر ملک کے داخلی قرضوں کو اسلامی فنانسنگ کے طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر 23 دسمبر 1999ء کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان کے معاشی استحکام اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں ملک کے قرضوں کے حجم میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے اور معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے معنی خیز پیش رفت اُسی وقت ممکن ہے جب اس کے لیے متعدد انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں، جس کے لیے سیاسی عزم نظر نہیں آرہا۔
متوازی نظامِ بینکاری۔ غیر اسلامی اور غیر آئینی
سپریم کورٹ سے ربوٰ کے مقدمے میں ایک سال کی توسیع ملنے کے صرف 3 ماہ بعد 4 ستمبر 2001ء کو اُس وقت کے فوجی حکمران کی صدارت میں پاکستان کے ’’مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے‘‘ میں ڈھالنے کے نام پر ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو عملاً پاکستان میں دوام بخشنے کے لیے غیرآئینی اور غیر اسلامی فیصلے کیے گئے تھے۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے اس وقت کے گورنر، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ارکان کے علاوہ سپریم کورٹ کی شریعت بینچ کے ایک ممتاز عالم جج بھی شامل تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی تھی کہ پاکستان میں ہم نے سب سے پہلے عرض کیا تھا کہ یہ متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے، اور یہ کہ اس اجلاس میں شریک علماء اور دوسرے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ مروجہ ’’اسلامی بینکاری‘‘ کی پشت پر علماء و مفتی صاحبان اور اسٹیٹ بینک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے اور اس کے ذریعے سودی نظام کو عملاً دوام مل گیا ہے، مگر وہ سب 20 برس سے اس معاملے میں خاموش ہیں۔
بلاسودی بینک اور اسلامی بینک
سودی نظامِ بینکاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بینکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے اس میں مندرجہ ذیل عوامل لازماً شامل ہونے چاہئیں:
(الف) اسلامی نظامِ بینکاری میں سود کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
(ب) اسلامی نظامِ بینکاری میں سودی نظام سے ہونے والے ہر قسم کے ظلم، ناانصافی اور استحصال کا لازماً خاتمہ ہونا چاہیے۔
(ج) اسلامی بینکاری کے نفاذ سے اسلامی نظام معیشت کے مقاصد کی تکمیل میں لازماً معاونت ہونی چاہیے اور تمام پارٹیوں کو سماجی انصاف ملنا چاہیے۔
یہ مقاصد صرف اُس وقت حاصل ہوں گے جب اسلامی بینکاری کی اساس نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہو۔ اس کے لیے معاشرے کی اصلاح، اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل نفاذ اور تمام ملکی قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام استحصالی ہے اور معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے سیاسی عزم موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ربوٰ کے مقدمے میں جو حلف نامہ جمع کرایا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ:
(الف) بینکاری کے نظام کو اسلامی نظام بینکاری میں تبدیل کرنے کے ضمن میں متعدد خطرات ہیں اور اس کے نتیجے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اس سے معیشت غیر مستحکم ہوجائے گی۔
(ب) اگر بینکاری میں نفع و نقصان میں شرکت کا اسلامی نظام اپنایا گیا تو بینکاری کے شعبے میں بحران پیدا ہوجائے گا اور ملک سے سرمائے کا فرار شروع ہوجائے گا۔
گزشتہ 20 برس سے پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے جو نظام اپنایا گیا ہے اس کو اسلامی نظامِ بینکاری کہا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ ان بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کو بلاسودی بینکاری کا نظام کہا جا سکتا ہے۔ وہ علمائے کرام جو مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پر ہیں یا بینکوں کی شریعہ کمیٹی کے رکن ہیں، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا، مگر گزشتہ 20 برس سے وہ بھی خاموش ہیں۔
اگر کوئی بینک سود سے پاک بینکاری کرتا ہے، کھاتے داروں کا استحصال کرتا ہے، سٹے بازی یا منافع خوری وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسلامی نظام معیشت سے انحراف کرتا ہے تب بھی اسے ’’بلاسودی بینک‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے جو بینک کام کررہے ہیں وہ دراصل بلاسودی بینک ہیں، البتہ ان بینکوں میں سود کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔
پاکستان میں اسلامی بینکاری کے نام پر جو نظام وضع کیا گیا ہے وہ سودی نظام کے نقشِ پا پر ہے۔ ایک اسلامی بینک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بینک کا کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہے۔ جب کہ اسلامی بینک کے کھاتے داروں کو منافع کی تقسیم اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے تحت ہے (یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں)۔ ایک اور اسلامی بینک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بینک کا کاروبار بڑی حد تک شریعت کے مطابق ہے۔ حالانکہ شریعت میں ’’بڑی حد تک‘‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کو مکمل طور پر شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان اسلامی بینکوں میں کچھ ایسی پروڈکٹس متعارف کرائی گئی ہیں جو سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ بلاسود بینکاری میں بینکوں اور ان سے قرضہ لینے والوں کا عموماً نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان کے کاروبار کا شریعہ کمیٹی کے ارکان جائزہ لیتے ہیں۔ ان سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اسلامی بینک نفع و نقصان میں شرکت کو اپنائیں تو بینکوں کے کھاتے داروں کو زیادہ منافع ملے گا، تمام پارٹیوں سے انصاف ہوگا، افراطِ زر میں کمی ہوگی اور اسلامی معیشت کے فیوض و برکات بھی حاصل ہوں گے۔
اسلامی نظامِ معیشت کے خلاف عملاً گٹھ جوڑ
پاکستانی معیشت دراصل اشرافیہ کی معیشت ہے۔ ملک کے طاقتور طبقے بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں و صوبائی اسمبلیاں، دوسرے فیصلہ ساز ادارے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی متعدد اہم اور قابلِ احترام شخصیات بھی عموماً نہیں چاہتیں کہ پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی نظامِ معیشت اسلام کی حقیقی روح کے مطابق استوار ہو۔ عدل اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام کے نفاذ سے ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں، کالا دھن رکھنے والوں، قومی دولت لوٹنے یا ناجائز طریقوں سے دولت بٹورنے والوں، قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر ناجائز دولت کا قانونی تحفظ حاصل کرنے والوں، بینکوں سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کرانے والوں، ذخیرہ اندوزی، اوور اور انڈر انوائسنگ، اسمگلنگ کرنے والوں اور اپنا جائز و ناجائز پیسہ قانونی و غیر قانونی (ہنڈی/ حوالہ وغیرہ) طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی، چنانچہ ان سب میں ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔
یہی نہیں، اقتدار میں آنے، اقتدار برقرار رکھنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی اشرافیہ (استعماری طاقتیں اور آئی ایم ایف و عالمی بینک وغیرہ) کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ ملکی اور بیرونی اشرافیہ میں بھی عملاً ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ یہ سب پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ البتہ یہ تمام قوتیں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے بلاسودی نظام بینکاری کے فروغ میں معاونت کرتی رہیں گی، کیونکہ یہ عملاً صرف نام کی تبدیلی اور سودی نظام کے نقشِ پا پر ہے۔ اب ملک میں عام لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ’’اسلامی نظام بینکاری‘‘ کے نفاذ سے جس بہتری کے دعوے گزشتہ کئی دہائیوں سے کیے جاتے رہے ہیں وہ صرف کتابی باتیں ہیں اور گزشتہ 20 برسوں میں یہ بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ سوچ نتائج کے اعتبار سے انتہائی تباہ کن ہے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے صرف ’’بلاسودی بینکاری‘‘ گزشتہ 20 برس سے رائج ہے۔
تجاویز:
(1) ہم نے 2011ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’پاکستان اور امریکہ… دہشت گردی، سیاست و معیشت‘‘ میں بھی لکھا تھا کہ شریعہ اسکالرز، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ، مالیاتی سوجھ بوجھ رکھنے والے علماء خصوصاً وہ علماء جو پاکستان میں مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پر ہیں، ان سب کو واضح طور پر کہنا ہوگاکہ وہ ملک میں سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری کو ساتھ ساتھ چلانے کی حکومت اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے۔ اب 28 اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سودکے خاتمے کے لیے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ ہر سال سودی بینکوں کے کاروبار کا 20 فیصد بلاسودی بینکاری کے تحت تبدیل کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک اس ضمن میں احکامات جاری کرے۔
(2) اسٹیٹ بینک و بینکوں کے شریعہ بورڈ اور وہ علماء جو مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری کی پشت پر ہیں، اپنی 21 سالہ خاموشی کو توڑ کر قوم کو واضح طور پر بتائیں کہ کیا پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں/ سودی بینکوں کی شاخوں اور سودی بینکوں کے اسلامی بینکاری کے ذیلی اداروں کو ’’اسلامی بینک‘‘ کہنا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر انہیں ’’بلاسودی بینک‘‘ کہا جائے مگر اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کے کاروبار میں سود کا عنصر شامل نہ ہو۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اسٹیٹ بینک یہ احکامات جاری کرے کہ یکم جولائی 2022ء سے یہ ’’اسلامی بینک‘‘ بلاسودی بینک کہلائیں گے۔
(3) وفاقی وزیرخزانہ نے کہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے پر حکومت اوراسٹیٹ بینک غور و فکر کرکے اپنا ردعمل دیں گے۔ اس ردعمل کے آنے کے بعد مزید تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں، مگر فی الوقت ہم تجویز دیں گے کہ
(الف) جون 2022ء میں پیش کیے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو ممکنہ حد تک اسلامی نظامِ معیشت کے اصولوں پر بنانا ہوگا۔ یہ موجودہ حکومت کا ٹیسٹ کیس ہوگا جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں کتنی مخلص ہے۔
(ب) حکومت اور اسٹیٹ بینک وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں بلاسودی بینکاری، بلاسودی معیشت اور اسلامی نظام بینکاری اور اسلامی نظام معیشت میں فرق واضح طور پر روا رکھیں، اور اس ضمن میں الگ الگ ٹائم فریم اور حکمت عملی کا اعلان کریں۔
تنبیہ:
پاکستان میں 1980ء کی دہائی میں بلاسود بینکاری کا نفاذ کیا گیا تھا۔ اس کے 22 برس بعد 2002ء میں ملک میں متوازی نظام بینکاری شروع کیا گیا جو کہ غیر اسلامی ہے۔ اس کے ساتھ ہی20 برسوں سے کام کرنے والی ’’سود سے پاک‘‘ ان بینکوں کو روایتی (سودی) بینک قرار دے دیا گیا، جب کہ نئے قائم شدہ ’’اسلامی بینکوں‘‘ اور سودی بینکوں کی اسلامی شاخوں نے اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کاروبار شروع کردیا۔ یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اوّل یہ متوازی نظام قطعی غیر اسلامی ہے۔ دوم ان بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا، اور سوم ان بینکوں کی متعدد پروڈکٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں اور ان میں سود کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے جس کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ان ’’اسلامی بینکوں‘‘ کو ’’بلاسودی بینک‘‘ قرار نہ دیا گیا تو یہ سنگین خطرہ موجود ہے کہ مستقبل میں نیک نیتی یا بدنیتی سے ان ’’اسلامی بینکوں‘‘ کو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے جس کے نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔