خودکش حملوں کا تسلسل

جامعہ کراچی میں منگل 26 اپریل کو کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر چینی اساتذہ پر خودکش حملہ یقیناً قابلِ مذمت و افسوس ناک ہے۔ بہرحال یہ حیران کن اور رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ لمحہ فکریہ بھی ہے، جہاں پروفیسر Huang Guiping،Chen Sai،Ding Mufang اور وین کا ڈرائیور خالد نواز جاں بحق ہوئے۔ چینی اساتذہ چینی زبان پڑھاتے تھے۔ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے یہ پہلی منصوبہ بندی و کارروائی ہے جس میں ایک خاتون نے جسم سے بارود باندھ کر دھماکا کیا، وگرنہ خودکش یا فدائی حملے یہ گروہ پہلے بھی کرا چکے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی طرح بی ایل اے کے اس حصے کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں۔ انہوں نے خود کو سرداروں اور نوابوں کے چنگل سے آزاد کرلیا ہے۔ مسلح سیاست کے قائل سردار اور نواب زادے اس نئے رجحان و میلانات کے بعد دھول میں لپٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کے یہ گروہ البتہ نواب خیر بخش مری مرحوم کی فکری تربیت سے نکلے ہیں، جو ان کی فکر اور تعلیمات سے راہنمائی لے رہے ہیں۔
؎

افغانستان سے واپسی کے بعد نواب مری نے ”حق توار“ کے نام سے فکری و تربیتی نشستوں کا آغاز کیا، جن میں بی ایس او اور دوسرے بلوچ نوجوان باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ دراصل 1990ء کی دہائی ہی میں ریاست مخالف چنگاریاں سلگنا شروع ہوئیں، جبکہ ریاست کے ادارے غفلت کی نیند سو رہے تھے۔ کالعدم بی ایل اے کا یہ دھڑا کوئٹہ کے کاسی روڈ پر واقع کوچہ سلطان کے باسی اسلم عرف اچھو نے قائم کیا۔ اسلم اچھو اور عبدالنبی بنگلزئی نواب مری کے فکری شاگرد، تربیت یافتہ اور معتمد خاص تھے۔ چناں چہ جب سال 2000ء میں کالعدم بی ایل اے نے باقاعدہ کارروائیاں شروع کردیں تو اسلم اچھو نواب زادہ بالاچ مری کی قیادت میں کالعد بی ایل اے سے وابستہ ہوا۔ بالاچ مری کے افغانستان میں انتقال کے بعد کمان اُن کے چھوٹے بھائی نواب زادہ حیربیار مری نے سنبھال لی تو بھی اسلم اچھو پہلے کی طرح اہم حیثیت کا حامل تھا۔ مری خاندان میں ترجیحات و قیادت کا اختلاف پیدا ہوا۔ حیربیار مری کے چھوٹے بھائی زامران مری نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے)کے نام سے الگ تنظیم قائم کرلی۔ زامران مری اسلم اچھو کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، بلکہ اسے درمیان سے نکالنے کی نیت رکھتے تھے۔ اسلم اچھو نمایاں تھا اور معاملات پر دسترس رکھتا تھا۔ ہوا یوں کہ حیربیار مری کے ایک کمانڈر بزرگ مری نے نشاندہی کرکے اسلم اچھو پر حملہ کرایا۔ فورسز کے آپریشن میں وہ زخمی ہوا، بلوچستان حکومت نے اس کے مارے جانے کی قطعی خبر جاری کردی تھی جو چند دنوں بعد غلط ثابت ہوئی۔ اسلم اچھو زخمی حالت میں قندھار پہنچ گیا۔ قندھار کے بعد تب کی افغان حکومت کے توسط سے مزید علاج کے لیے نئی دہلی منتقل کیا گیا، اور صحت یاب ہونے کے بعد واپس قندھار منتقل ہوکر دوبارہ متحرک ہوگیا۔ اس گروہ نے سب سے پہلے 2011ء میں شفیق مینگل کی رہائش گاہ پر خودکش حملہ کرایا جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔ اسلم اچھو کی اہلیہ بھی افغانستان منتقل ہوگئی تھی۔ 11اگست2018ء کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چینی ماہرین کی بس پر خودکش حملہ اسلم اچھو کے جواں سال بیٹے ریحان نے کیا تھا، جس نے بارود سے بھری کار بس سے ٹکرانے کی کوشش کی، اس حملے میں چینی ماہرین سمیت چھ افراد زخمی ہوئے۔ ریحان کو اسلم اچھو اور اس کی اہلیہ نے حملہ کرنے سے پہلے رخصت کیا تھا۔ مابعد نومبر2018ء میں کراچی میں قائم چین کے قونصل خانے پر حملہ ہوا، جس میں پولیس اہلکار سمیت دو عام شہری جان سے گئے، اور حملہ کرنے والے تینوں نوجوان مارے گئے۔ پھر مئی 2019ء میں گوادر کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں بی ایل اے کے حملہ آور داخل ہوئے۔ ہدف پورٹ پر کام کرنے والے چینی ماہرین اور عملہ تھا۔ کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ہوٹل کلیئر کیا گیا جس میں ہوٹل کے چار ملازمین اور ایک سیکورٹی اہلکار جان سے گئے۔ تین حملہ آور بھی مارے گئے۔ جون2020ء میں کراچی کے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرایا گیا جس میں تین سیکورٹی گارڈ اور ایک پولیس سب انسپکٹر کے ساتھ ساتھ چار حملہ آور مارے گئے۔ اگست2021ء میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر کا کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کرایا گیا، جس میں چار راہ گیر بچے جاں بحق اور ایک چینی انجینئر زخمی ہوا۔ اسی طرح فروری 2022ء میں نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کے کیمپوں پر بیک وقت حملے کیے گئے۔ یہ کارروائی تقریباً تین دن تک جاری رہی۔ 15 حملہ آور اور 9 فوجی جاں بحق ہوئے۔ یہ تمام حملے فدائی تھے، یعنی مسلح افراد تادم مرگ لڑنے کے ارادے سے گئے تھے۔ یہ سب تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ یہاں تک کہ جامعہ کراچی کے اندر بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون، شاری بلوچ نے خودکش بم دھماکا کیا۔ شاری بلوچ تربت کے ایک پڑھے لکھے خاندان کی فرد تھی۔ دو بچوں کی ماں اور ایم فل کی طالبہ تھی۔ شوہر ڈاکٹر ہے۔ شاری بلوچ سیاسی سوجھ بوجھ کی حامل تھی۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے وابستہ رہی۔ وہ کارروائی کے لیے بہت پہلے خود کو پیش کرچکی تھی۔ گویا اُس کے اس انتہائی اقدام کے پیچھے سیاسی و فکری عوامل کارفرما تھے۔ اس کے اور شوہر کے درمیان پوری ذہنی ہم آہنگی تھی۔ اس بنا پر شوہر پہلے ہی بچوں سمیت روپوش ہوگیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بلوچستان کے اندر نوجوان اس نوع کے فکری و سیاسی رجحانات قبول کررہے ہیں۔ شاری بلوچ کے اقدام سے ان رجحانات و احساسات کو مہمیز ملی ہے۔ شاری بلوچ پیچھے رہ جانے والوں کو راستہ بتا کر گئی ہے۔ چناں چہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچ نوجوان ڈاکٹر اللہ نذر، اسلم اچھو اور بشیر زیب سے گہرا اثر لے چکے ہیں، اور لے رہے ہیں۔ دسمبر2018ء میں بی ایل اے کا سربراہ اسلم اچھو قندھار کے عینو مینہ“ کے مقام پر بم دھماکے میں اپنے تین یا چار کمانڈروں سمیت جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد تنظیم کی کمان بشیر زیب نے سنبھال لی۔ اسلم اچھو نے مجید بریگیڈ کے نام سے الگ فورس قائم کی تھی جو مجید لانگو کے نام سے منسوب ہے۔ مجید لانگو بی ایل اے کا کمانڈر تھا جس نے 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملہ کیا تھا، اور خود دھماکے کی زد میں آکر چل بسا تھا۔ اس کے چھوٹے بھائی کا نام بھی والدین نے مجید رکھا جسے مجید جونیئر پکارا جاتا۔ مجید جونیئر رواں انسرجنسی کے اندر بی ایل اے کا اہم کمانڈر تھا، جس نے کئی سنگین وارداتیں کیں۔ درجنوں بم دھماکے کیے اور بڑی تعداد میں آبادکاروں کو قتل کیا، یہاں تک کہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو بھی قتل کیا۔ شفیق احمد خان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ مجید لانگو 2011ء میں کوئٹہ کے علاقے وحدت کالونی کے اندر فورسز کے محاصرے اور آپریشن میں مارا گیا۔ یعنی مجید بریگیڈ مذکورہ دو بھائیوں کے نام سے منسوب ہے۔ مجید بریگیڈ کا کوآرڈی نیٹر، کیپٹن رحمان گل ہے۔ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والے اس شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پاک آرمی میں 109 لانگ کورس میں تھا، رحمان گل .بریگیڈ کا ٹرینر بھی

ہے،ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بھی جاری کرتا ہے۔ گویا بلوچستان کو درپیش یہ مسئلہ سنجیدہ اقدام کا متقاضی ہے، مگر حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ شاہ زین بگٹی کو عسکریت پسندوں سے بات چیت کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور بشیر زیب ان جیسوں کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتے، نہ ہی ان کی نگاہ میں اس سطح کے لوگوں کی کوئی وقعت ہے۔ لہٰذا بلوچستان کا مسئلہ سیاسی بنیادوں پر سیاسی ذرائع کے توسط سے حل کرنے کی تگ و دو کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ طاقت کے ذریعے مسائل عارضی طور پر حل ہوتے ہیں۔ باوقار قومی و سیاسی بڑوں و زعماء اور اہل الرائے اس تناظر میں معاون و کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے بلوچستان کے اندر علی الخصوص حکومتوں کے قیام و تشکیل میں عوام کے جذبات و احساسات کے برعکس فیصلے منوائے گئے ہیں۔ ایسی حکومتیں اور ان سے وابستہ افراد نوجوانوں میں اشتعال انگیز جذبات اور احساسات کا موجب بنے ہیں۔ ظاہر ہے جب حکومتوں کی کلید کاسہ لیسوں، بدعنوان اور لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوگی تو خوشگوار سیاسی فضا کے قیام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نہ بلوچ معاشرے کے اندر اس طبقے کو اہمیت حاصل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اندر خواتین پارلیمنٹرین تک غبن اور لوٹ مار میں مگن ہیں۔ غیر منصفانہ رویّے اور چلن ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان بھی اداروں کے خلاف نعرے لگواتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس نوع کی سیاست1948ء سے سر اٹھاتی رہی ہے، سی پیک تو آج کی بات ہے۔ گویا حقِ اختیار اور وسائل کی ملکیت کا نعرہ آج کا ہرگز نہیں ہے۔ غیر ملکی ہاتھ کے کھل کھیلنے کا راستہ بند کرنا ہے تو اپنے لوگوں کو قریب لانا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا جائے کہ آیا پیش نظر ہے بھی؟ اور اس پر کتنا عمل درآمد ہوا؟