مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رائے
پاکستان میں یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار ملنے کے بعد ملک کے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہیں؟ سیاست دانوں میں کرپشن اور نااہلی کی شکایت بھی عام ہے۔ مولانا مودودیؒ صرف مفسرِ قرآن نہیں تھے بلکہ آپ ایک بلند پایہ سیاسی مفکر بھی تھے۔ اسلامی ملک کا نظامِ حکومت چلانے کے لیے کسی سیاسی جماعت میں کم از کم کون سی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ آئیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
”اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعووں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر ”تعمیری صلاحیتیں“ اور ”صالح انفرادی سیرتیں“ موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی توفیق تو اللہ کی توفیق سے ”علم“ اور ”تجربہ“ ہر وقت رفع کرسکتا ہے، لیکن ”صلاحیت“ اور ”صالحیت کا فقدان“ سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا“۔
مولانا مودودیؒ مزید لکھتے ہیں:
”ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ خیر و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ، نہ صرف اپنے اخلاص میں صالح و پاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں، اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کردے “۔
(تحریک ِاسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)
مولانا مودودیؒ کی تحریروں کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ اسلامی ملک کا نظام ِحکومت سنبھالیں ان میں کم از کم درج ذیل صفات ہونی چاہئیں :
1۔ایمان میں پختہ
2۔اسلام میں مخلص
3۔تعمیری صلاحیت
4۔صالح انفرادی سیرت
5۔علم و تجربہ
6۔اعلیٰ ترین قابلیت، مہارت و اہلیت
7۔علوم ِجدیدہ پر مجتہدانہ بصیرت اور زندگی کے تمام مسائل کی مکمل سمجھ
خاص بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف پارٹی لیڈر میں درج بالا صفات کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک پوری ٹیم یا گروہ تشکیل دینے کی بات کی جو علم، صالحیت و صلاحیت میں معاشرے کے بہترین افراد پر مشتمل ہو۔
ہمیں کن لوگوں کو عوامی عہدوں کے لیے منتخب کرنا چاہیے اور کن کو نہیں؟ مولانا مودودیؒ نے اس سوال کا جواب اپنی کتاب ”اسلامی ریاست“ میں قرآنی آیات کی روشنی میں دیا ہے:
”اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں (یعنی ذمہ داری کے مناصب) اہلِ امانت (یعنی امین لوگوں) کے سپرد کرو“۔ (النساء)
”تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے“۔ (الحجرات: 13)
”نبی نے کہا کہ اللہ نے حکمرانی کے لیے اس کو (یعنی طالوت کو) تم پر ترجیح دی ہے اور اس کو علم اور جسم میں فراوانی عطا کی ہے۔ “ (البقرہ: 247)
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا مودودیؒ نے صرف خیالی تصور پیش کیا، یا پھر انہوں نے علم، صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر کوئی گروہ بھی تیار کیا؟ مولانا مودودیؒ نے 81سال پہلے 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی، یہ جماعت نہ صرف آج بھی جنوبی ایشیا کے تمام بڑے ممالک میں متحرک اور فعال ہے بلکہ یورپ و امریکہ میں بھی دوسرے ناموں سے منظم اور وسیع نیٹ ورک رکھتی ہے۔ پاکستان میں الیکٹ ایبلز کو جگہ نہ دینے اور فرقہ وارانہ و لسانی سیاست سے گریز کی وجہ سے جماعت اسلامی کو بڑی سیاسی کامیابی کبھی نہیں ملی مگر نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کراچی جیسے بڑے شہر کے میئر رہے، دو بار صوبہ خیبرپختون خوا کی وزارتِ خزانہ ملی، الخدمت فاؤنڈیشن کی شکل میں رفاہی کاموں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے، جبکہ جماعت اسلامی کے تحت پورے پاکستان میں سیکڑوں اسکول و مدارس میں لاکھوں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی میں جماعت اسلامی کا بہت بڑا کردار ہے جس کی مثال کوئی دوسری سیاسی جماعت پیش نہیں کرسکتی۔ یہ آج بھی ملک کی واحد جماعت ہے جس کے اندر جمہوریت ہے اور باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں، پانچ سال پہلے سپریم کورٹ کے سینئر جج نے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ اگر آئین کی شق 62 اور 63 کا اطلاق ہوا تو امیر جماعت اسلامی کے سوا پوری پارلیمنٹ نااہل ہوجائے گی۔
اگر اپنے قیام کے 80سال بعد بھی جماعت اسلامی دیانت داری کا معیار اور اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے تو یقیناً اس کا کریڈٹ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ہی جاتا ہے۔ ملک کے عوام اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی مولانا مودودیؒ کے خیالات میں رہنمائی کا کافی سامان موجود ہے۔