ایک طرف بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات میں بہتری کا دعویٰ کررہی ہے، تو دوسری طرف کشمیر کا زخم بدستور رستا چلا جارہا ہے۔ کشمیر میں حالات کی نارملسی کا بیرومیٹر سری نگر کی جامع مسجد ہوکر رہ گئی ہے۔ جامع مسجد سری نگر… جہاں پر جمعہ کو کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق خطبہ دے کر حالاتِ حاضرہ پر روشنی ڈالتے ہیں… 4 اگست 2019ء سے محاصرے میں ہے۔ جامع مسجد کے مرکزی دروازے پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور اسے خاردار تاروں اور کڑے پہرے کا شکار بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اِس بار عیدالفطر کی نماز کے لیے جامع مسجد کے دروازے اپنے نمازیوں کے لیے نہ کھل سکے۔ لوگوں نے محلوں کی مساجد یا درگاہ حضرت بل میں نماز عید ادا کی۔ کشمیر کے کئی سیاست دانوں اور حریت راہنمائوں نے عیدالفطر کی نماز پر اس پابندی پر شدید احتجاج کیا۔
اس سے چند ہی دن پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کا تشخص ختم کرنے کے بعد پہلی بار علاقے کا دورہ کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کی نئی نسل کو اُن حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کا سامنا ان کے باپ دادا کو کرنا پڑا تھا۔ نریندرمودی نے کشمیر میں یہ دعویٰ کیا کہ کشمیر کا تشخص ختم کرنے کے بعد حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018ء میں دہشت گردی کے 417 جبکہ 2021ء میں 229واقعات ہوئے۔ اسی عرصے میں عسکری نوجوانوں کی ہلاکت کا تناسب 91 اور 42 رہا۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگر حالات میں بہتری کی یہی رفتار رہی تو چند برسوں میں کشمیر سے پیرا ملٹری فورسز کو ہٹایا جاسکتا ہے۔
ایک طرف مودی حالات میں بہتری کے دعوے کے ساتھ مستقبل کے تصوراتی کشمیر کی منظر کشی کررہے تھے تو دوسری طرف بھارتی فورسز 9 عسکریت پسندوں کو مار گرانے کا دعویٰ کررہی تھیں، جبکہ کشمیر پولیس کے آئی جی کے مطابق رواں سال کے پہلے چار ماہ میں 62 عسکریت پسندوں کو شہید کیا گیا۔ بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ دراندازی کم ہوگئی، اس کے باوجود کشمیر میں مقامی عسکری نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور غیر کشمیری مزدوروں پر حملوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں، جس سے پنڈتوں کی واپسی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ کشمیر پولیس کے آئی جی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اب کشمیر میں ہائبرڈ ملی ٹینٹ سامنے آرہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا پولیس کے پاس پہلے سے کوئی ریکارڈ نہیں، یہ معمول کی زندگی گزارنے والے لوگ ہیں۔ یہ ساری صورتِ حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کشمیر میں خرم پرویز جیسے انسانی حقوق کے علَم برداروں کو جیلوں میں ڈال کر اور کئی بے باک صحافیوں کو قیدی بناکر قبرستان جیسی خاموشی طاری کرنے کے باوجود حالات کا آتش فشاں لاوا اُگل رہا ہے۔ حالات کا آتش فشاں پھٹ جانے کا خوف ہے کہ جامع مسجد کو عیدین کی نمازوں کے لیے بھی نہیں کھولا گیا۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ حالات کا یہ پریشر ککر کبھی اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ جب بھی جامع مسجد نمازیوں کے لیے کھلے گی عوام اپنے جذبات کا اظہار کریں گے اور اس سے ماحول پر تنی خوف کی چادر میں چھید ہونے کا عمل دوبارہ شروع ہوجائے گا۔
بھارت میں حجاب کو متنازع بنانے کے بعد بھارتی منصوبہ سازوں نے اب یہ سلسلہ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر تک دراز کردیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بارہ مولہ کے ایک فوجی اسکول میں اساتذہ اور طالبات کو حجاب نہ پہننے کی ہدایت کی گئی ہے، جس پر کشمیر میں احتجاج ہورہا ہے۔ یہ کشمیر کے تشخص اور شناخت کو بدلنے کی بھارت کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کا آغاز ہے۔ ایک اسکول سے یہ سلسلہ تمام سرکاری اسکولوں تک دراز کیا جائے گا۔ بھارت نے پانچ اگست کا قدم یونہی بے سبب اور الل ٹپ نہیں اُٹھایا تھا، بلکہ اس کے پیچھے گہرے عزائم تھے جو اب رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں۔ حجاب پر پابندی کا آغاز اسی سمت میں ایک اور قدم ہے۔
کشمیر اس وقت بھارت کے ہاتھوں قتل گاہ بن چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورے سے پہلے کشمیر میں جعلی مقابلوں اور پکڑ دھکڑ کا خوفناک سلسلہ شروع کیا گیا۔ کئی مقامات پر مسلح تصادم کے اسٹیج سجائے گئے۔ یوں مودی کے دورے کی مانگ میں کشمیری نوجوانوں کے لہو سے سندور بھرا گیا۔ ان کشمیری نوجوانوں کے لواحقین نے بھارتی فوج کا یہ مؤقف مسترد کیا کہ ان کا تعلق کسی عسکری تنظیم سے تھا۔ بھارتی فوج نے ہر لاش پر کسی نہ کسی عسکری تنظیم کا اسٹکر چسپاں کرکے دنیا کو تاثر دیا کہ کشمیر میں پاکستان سے کنٹرول ہونے والی تنظیموں کے نوجوان اب بھی سرگرم ہیں۔ پہلی بار ایک انکائونٹر کے بعد کشمیری نوجوان مشتعل ہوکر باہر آئے اور انہوں نے شہیدوں کی لاشوں کو اُٹھا کر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ایک بار پھر بھارتی فوج پر پتھر بازی کی۔ پانچ اگست کے بعد بھارتی فوج نے کشمیر پر خوف کی جو چادر تان رکھی تھی کشمیری نوجوان اب اسے جھٹک کر سامنے آرہے ہیں۔ نوجوانوں کا احتجاج اور پتھرائو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ایک بار پھر بے خوف ہوکر سامنے آنے کو تیار ہیں۔ حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیر میں مودی کی آمد پر ہڑتال ہوئی اور لوگ اس دورے سے قطعی لاتعلق رہے۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کشمیریوں کی ترقی کے لیے اُن کا خصوصی اسٹیٹس ختم کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں بھارت نے کشمیر کا اسلامی تشخص بدلنے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔