ترک صدر طیب اردوان کا دورہ سعودی عرب

گزشتہ چند ماہ سے خلیجی ممالک اور ترکی کے درمیان پسِ پردہ بات چیت یا بیک ڈور ڈپلومیسی کی جو خبریں آرہی تھیں، ان کی رمضان کے آخر میں تصدیق ہوگئی جب ترک صدر رجب طیب اردوان، شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب پہنچے۔ اس دورے میں شاہی خاندان اور سعودی حکومت نے ترک صدر کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ دوسری جانب صدر اردوان نے بھی شاہ سلمان کے لیے حد درجہ عزت و احترام کا مظاہرہ کیا۔ سعودی بادشاہ کو ضعیف العمری کی وجہ سے چلنے میں مشکل ہوتی ہے چنانچہ شاہی محل کے لان پر استقبالیہ تقریب کے بعد وہاں سے محل کے اندر جاتے ہوئے ترک صدر نے شاہ سلمان کی کہنی کو آہستگی سے سہارا دیا جس سے گھر کے بزرگ کے ساتھ احتراماً سرجھکاکر چلنے کا تاثر پیدا ہوا۔ شاہی خاندان میں صدر اردوان کی اس وضع داری کو بہت پسند کیا گیا۔ سعودیوں نے ترک صدر کے لیے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے دروازے کھول دیے جو سعودیوں کے یہاں مہمانوں کی عزت افزائی کی علامت ہے۔ ڈھائی ماہ پہلے صدر اردوان کے دورئہ متحدہ عرب امارات میں بھی میزبانوں کی طرف سے اسی قسم کی گرم جوشی نظر آئی تھی۔

ترکوں اور آلِ سعود کے درمیان چپقلش عثمانی دور سے جاری ہے۔ اس دوران امام عبدالوہابؒ کی فکر سے متاثر، خاندانِ سعود اور ترکوں میں کئی خونریز تصادم ہوئے، تاہم جب 1932ء میں المملکۃ السعودیہ کے نام سے آزاد ریاست قائم ہوگئی تو ترکی کے صدر کمال اتاترک نے سعودی عرب کو تسلیم کرکے مکمل سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ ابتدا میں ان دونوں ملکوں کے تعلقات بہت عمدہ رہے اور خارجہ امور پر باہمی مشاورت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اسی صلاح و مشورے کا نتیجہ تھا کہ برطانیہ کے شدید دبائو کے باوجود سعودی عرب بھی ترکوں کی طرح دوسری جنگِ عظیم میں غیر جانب دار رہا۔

ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں بال اُس وقت پڑا جب شاہ سعود بن عبدالعزیز کا مشورہ رد کرتے ہوئے ترکی 1955ء میں امریکہ نواز سینٹو (CENTO)المعروف معاہدئہ بغداد کا اتحادی بن گیا۔ سعودی فرمانروا کا مؤقف تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں غیر جانب دار رہنے کی وجہ سے ترکی اور سعودی عرب لڑائی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے چنانچہ ہمیں سرد جنگ سے بھی خود کو دور رکھنا چاہیے۔ لیکن ترک صدر جلال بایار اور وزیراعظم عدنان میندریس کا خیال تھا کہ بحر اسود میں روسی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے مقابلے کے لیے مضبوط ترکی کو اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ساتھ عراق، ایران، پاکستان اور برطانیہ، امریکہ کی سرپرستی میں بننے والے اس عسکری اتحاد کا حصہ تھے۔ سعودی عرب کے وزیراعظم شاہ فیصل بن عبدالعزیز سینٹو میں شمولیت کے حامی تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1962ء میں شاہ سعود کی معزولی کے عوامل میں سے ایک نکتہ بغداد معاہدے سے انکار بھی تھا۔

ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی پشت پناہی پر دونوں ملک یکسو تھے اور اس دوران سعودی عرب نے ترکی کو نقد مالی مدد بھی فراہم کی۔ امریکہ کے 1991ء میں عراق پر حملے کی بھی ان دونوں ملکو ں نے کھل کر حمایت کی اور 2003ء کے امریکی حملے کی اصولی مخالفت کے باوجود دونوں نے چچا سام کا ساتھ دیا۔

دسمبر 2010ء میں تیونس سے طلوع ہونے والی لہرِ آزادی یعنی الربیع العربی (Arab Spring)کے آغاز پر ریاض اور انقرہ کے درمیان دوستی اور دشمنی کا ایک مہین سلسلہ شروع ہوا۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف ہونے والی بغاوت میں ترکی اور سعودی سمیت تمام خلیجی ممالک ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ لیبیا اور یمن کے معاملے پر بھی سعودی عرب اور ترکی میں کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی جدوجہد سعودی عرب کو پسند نہ آئی، اور پھر وہاں عوامی سطح پر اخوان المسلمون کے بڑھتے ہوئے اثر سے خلیجی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ پارلیمانی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد جون 2012ء میں جب ڈاکٹر محمد مرسی 51.73 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے تو خلیجی ممالک اور ترکی کی راہیں جدا ہوگئیں۔
جناب اردوان جو اُس وقت ترکی کے وزیراعظم تھے، صدر مرسی کی پشت پر آکھڑے ہوئے۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے عرب ملک میں عوامی قوت سے ایوانِ اقتدار میں اخوان کا پُروقار داخلہ خلیجی بادشاہتوں کے ساتھ اسرائیل اور اُس کے امریکی و مغربی اتحادیوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنا۔

اسی کے ساتھ تیونس اور مراکش کے انتخابات میں بھی اخوانی فکر سے وابستہ النہضہ اور حزب العدالۃ والتنمیۃ (Justice and Development Party) کامیاب ہوگئیں۔ شمالی افریقہ کا نیا نظریاتی جغرافیہ امریکہ بہادر کے لیے ناقابلِ قبول تھا، چنانچہ مغرب کی ایما پر مصر میں سیکولر اتحاد نے صدر مرسی کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کردیا اور اس ”کارِ خیر“ میں سلفی تحریک النور پیش پیش تھی۔ پارلیمانی انتخابات میں اخوان نے 235 اور النور نے 123 نشستیں حاصل کی تھیں، یعنی 508 کے ایوان میں اسلامی قوتوں کا تناسب دوتہائی سے زیادہ تھا۔ لیکن النور، مخلوط حکومت سازی کے لیے اخوان کی دعوت مسترد کرکے سیکولر قوتوں کے شانہ بشانہ سڑکوں پر آگئی۔ فوج اس تحریک کی پشت پر تھی اور 3 جولائی کو جنرل السیسی نے صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ ”انتہا پسندی“ کے خاتمے کے لیے مصر میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس کے ذکر کا یہاں موقع نہیں۔

سعودی عرب اس کشمکش میں دامے درمے قدمے سخنے جنرل السیسی کی پشت پر تھا تو رجب طیب اردوان اخوان کے اتحادی۔ انھوں نے جنرل السیسی کو قاتل اور غاصب کہا۔ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے علما کا خیال ہے کہ اخوان کے معاملے میں ترکی کے دوٹوک رویّے نے سعودی عرب کی ناراضی کو صدر اردوان سے نفرت میں تبدیل کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2014ء میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی نشست کے لیے ہونے والے انتخاب میں سعودی عرب نے کھل کر ترکی کے خلاف مہم چلائی اور انقرہ سلامتی کونسل میں جگہ نہ پاسکا۔

اخوان کی وجہ سے سعودی عرب اور قطر کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوا اور 2017ء میں محمد بن سلمان المعروف MBSکے ولی عہد بننے کے بعد معاملہ مزید سنگین ہوگیا، حتیٰ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے فلسطینی حماس اور اخوان کی پشت پناہی کے الزام میں قطر سے سفارتی تعلقات توڑ کر اپنی فضائی، بری اور آبی سرحدیں قطر کے لیے بند کردیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کو ”منطقی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کا دور لد گیا اور یہ بات قطر کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔

ناکہ بندی قطر کے لیے انتہائی تباہ کن ہوسکتی تھی، اس لیے کہ خلیج کی یہ ننھی سی ریاست سبزی، گوشت، دودھ دہی اور غلہ سعودی عرب سے خریدتی ہے۔ اس موقع پر ترکی کھل کر قطر کی مدد کو آیا اور غذائی اجناس کی فراہمی کے ساتھ اُس نے قطر کے دفاع کے لیے بحری جہاز اور فوجی بھی وہاں بھیج دیے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کی اس تیز رفتار کارروائی کی بنا پر MBSنے قطر کے خلاف عسکری مہم جوئی کا ارادہ ترک کردیا۔

سعودی ترک تعلقات میں ایک اور فیصلہ کن موڑ 2018ء میں آیا جب واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کردیے گئے۔ جمال خاشقجی شاہی خاندان پر سخت تنقید کیا کرتے تھے۔ اس معاملے پر سرکاری مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کے اٹارنی جنرل شیخ سعود بن عبداللہ نے بتایا کہ جمال خاشقجی اپنی چند دستاویزات کی توثیق کے لیے قونصل خانے آئے تھے۔ وہاں ان کی کچھ لوگوں سے بحث مباحثے کے دوران شدید تلخ کلامی ہوئی اور لڑائی کے نتیجے میں جمال خاشقجی جاں بحق ہوگئے۔ سعودی اٹارنی جنرل کے مطابق ذمہ داروں کو سزائیں سنادی گئی ہیں۔ ترک حکومت کا اصرار ہے کہ جرم استنبول میں ہوا ہے اس لیے مقدمہ ترکی ہی میں چلنا چاہیے۔

لیبیا کے معاملے پر بھی اب سعودی عرب اور ترکی کے اختلافات شدید ہوگئے ہیں۔ سعودیوں کا خیال ہے کہ لیبیا کی وفاقی حکومت نظریاتی طور پر اخوان کے زیراثر ہے، چنانچہ ریاض، حفتر ملیشیا کی پشت پناہی کررہا ہے۔ اس دہشت گرد ملیشیا کو امریکہ، فرانس اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔

”دشمن کا دشمن دوست“ کے اصول پر سعودی عرب نے نگورنوکاراباخ تنازعے میں آذربائیجان کے مقابلے میں آرمینیا کی حمایت کی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں سعودی عرب، یونان، متحدہ عرب امارات، مصر اور اسرائیل نے طیب اردوان کو بحر روم، بحراحمر اور خلیج کے لیے نیا خطرہ قرار دیا۔ سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ نے الزام لگایا کہ صدر اردوان تجدیدِ خلافتِ عثمانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل صدر اردوان نے علاقائی اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا کے نتیجے میں ترک معیشت شدید دبائو میں ہے۔ روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کی بنا پر امریکہ نے ان کے ملک پر پابندیاں لگادی ہیں جس سے ترک برامدات متاثر ہورہی ہیں۔

اس سال کے آغاز پر صدر اردوان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو خیرسگالی کا سندیسہ بھیجا جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا جواب مثبت تھا اور ایک عرصے بعد ترکی اور اسرائیل نے ایک دوسرے کے ملکوں میں سفیر دوبارہ تعینات کردیے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے صدر اسحق ہیزرگ نے ترکی کا دورہ کیا۔ یہ 14 سال بعد دونوں ملکوں کے پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات تھی۔

صدراردوان نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف بھی خیرسگالی کے پیغامات کے ساتھ ایلچی بھجوائے ہیں اور قاہرہ سے آنے والے اشارے حوصلہ افزا ہیں۔ فروری میں صدر اردوان کے دورے کے بعد سے انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سلسلہِ پیام و کلام میں باقاعدگی آگئی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق امارات نے یمنی حوثیوں سے مصالحت کے لیے ترکوں سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔
سعودی عرب خود بھی سفارتی سطح پر مشکلات کا شکار ہے۔ امریکی کانگریس میں جمال خاشقجی قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ یمن میں خونریزی، شہری آبادیوں پر بمباری اور جنگ کے نتیجے میں قحط نے ایک انسانی بحران پیدا کردیا ہے اور اب درجنوں اراکینِ کانگریس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ کی فروخت روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس تناظر میں ریاض اب یمن کی بے نتیجہ و بے مقصد جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہ رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ریاض سے آنے والے اشاروں سے لگتا ہے کہ MBSترکی اور ایران سے تعلقات کو معمول پر لانے یا کم از کم کشیدگی ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ صدر اردوان کو رمضان کے آخری عشرے میں دورے کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا دونوں جانب سے گرم جوشی کا اظہار بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔ صدر اردوان کے حالیہ دورئہ سعودی عرب کا خیرمقدم کرتے ہوئے امارات کے ولی عہد محمد بن زید (MBZ)نے کہا کہ ”بھائیوں“ کے درمیان بے تکلف ملاقاتوں سے علاقے میں امن و استحکام کی کوششوں کو تقویت حاصل ہوگی۔

اسی کے ساتھ سعودی عرب نے یمن کے ایران نواز حوثیوں کی طرف شاخِ زیتون لہرانی شروع کردی ہے۔ جس دن صدر اردوان سعودی عرب آئے اسی روز سعودی نواز خلیجی اتحاد کے عسکری سربراہ جنرل ترکی المالکی نے 163حوثی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ قیدیوں کا تبادلہ نہیں بلکہ خیرسگالی کا یک طرفہ مظاہرہ ہے۔ حوثیوں نے اس پر کسی غیرمعمولی خوشی یا جوابی اقدام کا اعلان نہیں کیا لیکن سعودی پُرامید ہیں کہ اس خونریزی کا پُرامن خاتمہ بعید از قیاس نہیں۔ یہ جنگ 2015ء سے جاری ہے جس نے یمن کو عملاً کھنڈر بنادیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے تنازعات جہاں پیچ در پیچ اور حددرجہ گنجلک ہیں، وہیں تقریباً ہر جگہ طاقتور غیر ملکی طاقتوں کے اثرات بھی ہیں۔ فرقہ وارانہ رنگ نے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ مردانِ صف شکن کے ساتھ کئی کلیدی و تزویراتی موڑ پر پردہ نشینوں نے دام ہم رنگِ زمین بچھا رکھے ہیں، یا یوں کہیے کہ رنگین آنچل اور چلتے پھرتے سائے اِدھر سے اُدھر کوندتے پھررہے ہیں۔
ان تنازعات کے کچھ فریق پُرجوش، بعض تذبذب کا شکار، جبکہ ایک بڑی تعداد شکوک و شبہات اور اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہے، لیکن یہ تمام ”کھلاڑی“ بے مقصد لڑائی سے اکتائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یہی اس معاملے کا خوش آئند پہلو ہے، تاہم موہوم اشاروں سے امیدیں وابستہ کرلینا مناسب نہیں، کہ راستہ مخصوص مفادات کی بارودی سرنگوں اور مذہبی منافرت کے ٹائم بموں سے پٹا پڑا ہے۔