معروف کالم نگار شاہد جتوئی نے بروز اتوار 24 اپریل 2022ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحہ پر جس اہم موضوع پر اپنے زیر نظر کالم میں خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’آج کل پاکستان کے ’’نیو ملٹری ڈاکٹرائن‘‘ پر بحث ہورہی ہے، یہ بحث آگے بڑھانے سے پیشتر یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ یہ نیو ملٹری ڈاکٹرائن کیا ہے اور یہ ہے بھی یا نہیں؟پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی میجر جنرل افتخار بابر کی طرف سے حالیہ پریس کانفرنس میں کہی گئی اس بات کا ’’نیو ملٹری ڈاکٹرائن‘‘ سے موازنہ کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ ’’ان شاء اللہ پاکستان میں اب کبھی بھی مارشل لا نہیں لگے گا۔ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے‘‘۔ اس بات کو میڈیا کے کچھ افراد نے پاکستانی فوج کے لیے نظریئے (نیو ملٹری ڈاکٹرائن) کا نام دینا شروع کردیا ہے اور اس کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید بھی شروع کردی ہے، اس تعریف اور تنقید سے ملک کے طاقت ور ترین حلقوں کی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سیاست دانوں نے اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کو نیو ملٹری ڈاکٹرائن کا نام نہیں دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے پاکستان میں جمہوریت کے لیے نیک شگون قرار دیا ہے۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ یہ بیان جمہوری قوتوں کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ پاکستان کے عام افراد کے لیے یہ امر باعثِ تعجب ہے کہ پاکستان کی فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے لوگوں کو اطمینان ہوا ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی حد تک کم ہوئی ہے۔
ہم جسے نیو ملٹری ڈاکٹرائن کہتے ہیں اس پر فوج کی جانب سے کوئی باقاعدہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، اس لیے اسے فی الحال ’’ظاہر شدہ‘‘ نیو ملٹری ڈاکٹرائن کہنا مناسب ہوگا، کیونکہ اسے حقیقی ڈاکٹرائن ہونے میں وقت لگے گا اور بہت سارے آزمائشی مراحل سے بھی گزرنا پڑے گا۔ پرانے ڈاکٹرائنز نے جو مائنڈ سیٹ بنایا تھا وہ اس نیو ڈاکٹرائن کے خلاف شدید مزاحمت کرے گا اور اس مزاحمت کے لیے آج کل پاکستان میں حالات سازگار ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ (ذہنیت) کی مکمل عکاسی سینئر صحافی اور تجزیہ نگار شاہین صہبائی کے انگریزی میں لکھے گئے ایک تازہ مضمون سے ہوتی ہے جس میں موصوف نے وزیراعظم میاں شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات کی جاری کردہ تصویر پر تبصرے سے اپنے مضمون کی شروعات کی ہے اور اس امر پر سخت اظہارِ افسوس کیا ہے کہ پاک فوج کا کمانڈر ان کے بقول ایک انتہائی بدعنوان اور مقدمات میں مطلوب شخص کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے بیٹھا ہے۔ آگے چل کر شاہین صہبائی نے ریٹائرڈ فوجی افسران سے لاہور میں آرمی چیف کی ملاقات پر اپنا تبصرہ کیا ہے اور یہ رائے دی ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران نے عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے متعلق آرمی چیف کے بیانیے سے اتفاق نہیں کیا۔ شاہین صہبائی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حاضر سروس افسران اور جوان بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔ شاہین صہبائی نے یہ تجویز دی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ استعفیٰ دے دیں، نیا آرمی چیف بے شک نیو ملٹری ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے فوج کو سیاست سے دور رکھے لیکن بہ بقول ان کے جنرل باجوہ کی غلطیوں کو درست کرے، یعنی عمران مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف نہ صرف مفاہمت نہ کرے بلکہ ان کے ساتھ غیر جانب دارانہ رویہ بھی اختیار نہ کرے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ فوراًانتخابات کا انعقاد کرایا جائے۔
سابق وزیراعظم عمران خان بھی یہی بات کررہے ہیں کہ جس نے بھی غلطی کی ہے وہ اپنی غلطی کا ازالہ کرے اور فوری طور پر انتخابات کروائے، لیکن اس بات کی آخر کیا ضمانت ہے کہ انتخابات کے نتائج کو تحریک انصاف یا اس کے بیانیے کے حامی افراد بھی تسلیم کرلیں گے؟ وہ اپنے سب مخالفین کو غدار اور کرپٹ سمجھتے ہیں۔ وہ ان کی جمہوری حکومت یا نمائندگی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ ہر حال میں خود حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر فوج بھی ان کی اس سوچ کی حامی نہیں تو وہ فوج کے کردار کو بھی سوالیہ نشان بنادیتے ہیں۔ یہ فسطائی سوچ بے حد طاقت ور ہوگئی ہے اور بیان کردہ نیو ملٹری ڈاکٹرائن کے خلاف مزاحمت کے ایسے حالات پیدا کرچکی ہے جو ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے وقت عرب دنیا کے مختلف ممالک میں تھے۔ اس نام نہاد تحریک کے دوران انتشار پیدا ہوا اور کسی بھی ملک کی فوج غیر جانب دار نہ رہ سکی۔ مصر اور تیونس میں فوج نے اُس وقت کی حکومتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ شام اور بحرین میں فوج نے بذریعہ طاقت مظاہرین کو کچل ڈالا۔ یمن اور لیبیا میں فوج تقسیم ہوگئی، نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر تباہیوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف افواج کمزور پڑ گئیں بلکہ ان کے ادارے بھی تباہ ہوگئے۔ 2014ء میں مصر کے سابق وزیر صحت اور ثقافت اور افروایشین پیپلز پارٹی سالڈیریٹی آرگنائزیشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر صلمی الحدیدی کراچی آئے، میں نے اور نذیر لغاری صاحب نے ان کا ایک مشترکہ انٹرویو کیا جس میں عرب اسپرنگ تحریک اور اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں ان سے سوالات کیے۔ انہوں نے تین اہم باتیں کیں، پہلی یہ کہ پین اسلام ازم، پین عرب ازم اور ہر ملک کی قوم پرستی کمزور ہوئی۔ ان تینوں کا ہر سامراج مخالف تھا، دوسری بات یہ کہ عرب اسپرنگ تحریک میں جو انقلاب آئے یا انتشار پیدا ہوا اس کا محرک متوسط طبقہ تھا، جس کے پاس روزگار بھی تھا اور معاشی تحفظ بھی، لیکن وہ کرپشن کے خاتمے، جمہوریت اور آزادی کے نعرے کی آڑ میں فسطائیت (Authoritatian)کی سوچ میں اور آمریت پسندی میں بہہ گئی۔ یہ مڈل کلاس انتہا پسند تنظیموں کا ایندھن بن گئی، اور انتہا پسند تنظیمیں امریکہ کے خلاف نعرے لگا کر امریکہ کے ایجنڈے پر عمل کرنے میں لگی رہیں۔ تیسری بات انہوں نے یہ کی کہ انتہا پسند تنظیموں سے لڑوا کر امریکہ عرب ممالک کے فوجی اداروں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر الحدیدی اُس زمانے میں مصر کی فوج کے حوالے سے بہت پُرامید تھے کہ مصر ان تباہ کاریوں سے نکل آئے گا۔ ان کے بہ قول پہلی وجہ یہ تھی کہ مصر کی فوج قومی فوج ہے جس میں مصر کی تمام اقوام، نسلی اور مسلکی گروہوں کو نمائندگی حاصل ہے اور وہ کسی ایک گروہ کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ اس کی اپنی سوچ بھی گروہی نہیں ہے۔ مصری فوج کے قومی ہونے کی اُن کے پاس یہ دلیل تھی کہ وہ حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی عوام کے ساتھ تھی اور محمد مرسی کے خلاف بھی عوام کے ساتھ تھی۔ مصر کی فوج امریکہ کی جنگ کا حصہ نہیں بنی اور اس نے ڈالرز کو بھی لات مار دی۔ ڈاکٹر الحدیدی نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ مصر کی مڈل کلاس اپنے جوہر میں قوم پرست ہے، اس پر اندرونی یا بیرونی اثرات نہیں ہیں، اس لیے مصر جلد ہی فسطائی بہائو سے باہر نکل آیا۔ مصر کی مڈل کلاس غیر نصابی ہے اور اس میں شناخت کا بحران ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈاکٹر الحدیدی کی کہی گئی باتوں کو پورے طور سے گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی فوج کی تشکیل اور عناصر و ہیئت ترکیبی مصر کی فوج سے بہت مختلف ہے اور پاکستان کی مڈل کلاس مطالعہ پاکستان اور پرانے ریاستی بیانیے سے متاثر نصابی مڈل کلاس ہے جو ہمیشہ فسطائی سوچ کا ایندھن بنتی رہی ہے۔ اس وقت جو علاقائی اور عالمی حالات ہیں، ان میں تحریک انصاف کی طرف سے انتشار اور گھر گھر لڑائی کا جو بیانیہ دیا جارہا ہے، وہ ملک اور اداروں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بیانیہ ازخود ہی دم توڑ دے گا اگر مذکورہ نیو ملٹری ڈاکٹرائن کو قابلِ عمل بنایا جائے اور پرانے ڈاکٹرائنز میں پھنسا اور اسیر نہ رہا جائے۔ سیاست میں مداخلت کی ہر دلیل کو رد کیا جائے۔ بنیادی دھارے کی سیاسی قوتیں ہی ملک اور اداروں کا بہتر طریقے سے تحفظ کرسکتی ہیں اور انتشار کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔‘‘
(نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم اور ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)