عمران خان کی حکومت بدل گئی اور نئی حکومت نے اقتدار بھی سنبھال لیا۔ خیال تھا کہ اب محاذ آرائی کی سیاست کا خاتمہ اور سیاسی استحکام میں پیش رفت ہوگی۔ لیکن یہ سب سیاسی اندازے غلط ثابت ہوئے اور سیاسی محاذ آرائی یا سیاسی درجہ حرارت میں زیادہ شدت، تنائو، ٹکرائو اور جوش نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے درست کہا تھاکہ وہ اقتدار سے نکلنے کے بعد گھر نہیں بیٹھیں گے بلکہ اقتدار سے باہر نکل کر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ عمران خان کے بارے میں یہ اندازے بھی غلط ثابت ہوئے کہ وہ اقتدار کی موجودگی میں اپنی مقبولیت کھوبیٹھے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ ان کی اقتدار سے رخصتی کا جو طور طریقہ اختیار کیا گیا اُس نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ وہ جس انداز اور جس جوش سے اپنی حکومت کی بے دخلی پر عالمی سازش اوراس کے کچھ پاکستانی کرداروں کے بارے میں اپنا بیانیہ پیش کررہے ہیں اس نے ان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین سمیت فیصلہ ساز حلقوں میں بھی ان کی مزاحمتی سیاست زیر بحث ہے۔
جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کی حکومت کی رخصتی پُرامن طریقے سے ممکن ہوجائے گی اور اس کے نتیجے میں کوئی سیاسی بھونچال نہیں آئے گا، وہ غلطی پر تھے۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد ملک میں سیاسی، سماجی، قانونی، مذہبی اور علمی و فکری محاذ پر جو تقسیم پیدا ہوئی ہے وہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس تقسیم میں محض سیاسی جماعتیں یا افراد ہی نہیں بلکہ ادارے بھی شامل ہیں جس سے مسائل کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یقینی تھی کہ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد آسانی سے گھر نہیں بیٹھیں گے بلکہ وہ عملی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دیں گے اور حکومت کو کسی بھی سطح پر مستحکم نہیں ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اقتدار سے عملی طور پر نکلنے کے بعد سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ وہ تواتر سے بڑے عوامی جلسوں کی مدد سے حکومت کے لیے سیاسی محاذ پر مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ان کا بڑا سیاسی پڑائو مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہے جہاں وہ لاکھوں افراد کی مدد سے ایک بڑا دھرنا دینا چاہتے ہیں۔
عمران خان کا ایک ہی مطالبہ ہے، وہ فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات کے حامی ہیں اورکسی بھی صورت میں موجودہ حکومت کو یہ وقت دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ 2023ء میں جاکر انتخابات کروائے۔ ان کے بقول جو بھی کردار ان کی حکومت کے خاتمے میں شامل تھے ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بحران کے حل کے لیے انتخابات کا فیصلہ کریں۔ عمران خان اپنا یہ مطالبہ منوانے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا سیاسی منظرنامہ بدستور شدید سیاسی محاذ آرائی کے درمیان ہی گھرا رہے گا۔ محاذ آرائی کی سیاست کی ایک بڑی وجہ بار بار کے سیاسی تجربات یا سیاسی مہم جوئی پر مبنی عمل ہیں۔ اس تجربے نے بنیادی طور پر ہماری سیاست کو استحکام سے بہت دور کردیا ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی مجموعی سیاست اسی سیاسی مہم جوئی کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے، اورکوئی بھی حکومت یا وزیراعظم ایک مضبوط سیاسی، جمہوری اور گورننس کے نظام کو قائم نہیں کرسکا۔ کیونکہ جب حکومت جائز و ناجائز خود کو بچانے، اور حزبِ اختلاف حکومت گرانے کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنا لیں تو پھر سیاسی عدم استحکام ہی غالب ہوتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور شہبازشریف کی نئی حکومت کے بعد صرف کردار ہی بدلے ہیں، اور جو سیاسی طور طریقے تھے اُن میں مزید شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی وزیراعظم سے لے کر اُن کے وزیر اور ارکان تک عمران خان مخالف سیاست میں پیش پیش ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو بہت سی بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کی مخالفت یا اپوزیشن کا سامنا تھا، مگر یہاں عمران خان موجودہ حکومت کے خلاف اکیلے ہی کھڑے ہیںکیونکہ بیشتر سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں۔اس لحاظ سے عمران خان کا بطور حزبِ اختلاف چیلنج ماضی کی حزبِ اختلاف سے بڑا ہے، اور وہ خود کو اور اپنی سیاست کو کیسے آج کی حکومت پر غالب کرسکیں گے،یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حکومت کا ایک بڑا مسئلہ جہاں عمران خان کی مزاحمتی تحریک سے نمٹنا ہے وہیں اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج گورننس، بالخصوص معاشی ریلیف کا ہے۔ کیا اس مختصر عرصے میں شہباز حکومت عوامی سطح پر کوئی بڑا معاشی ریلیف ممکن بناسکے گی، یہ بہت مشکل سوال ہے۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں جو معاشی مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں انہوں نے بھی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ اگر حکومت کوئی ریلیف نہیں دیتی اورمعاشی صورت حال میں بہتری نہیں آتی تو اس کا بڑا منفی اثر مسلم لیگ (ن) اورنئے انتخابات پر پڑے گا۔ پاکستانی لوگ جادوئی طریقے سے معاشی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں جو کسی بھی صورت میں ممکن نہیں، اوراس کی ایک بڑی وجہ خود اہلِ سیاست ہیں جو اقتدار سے باہر محض جذباتیت کی بنیاد پر سیاست کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
اصل میں سیاسی اور جمہوری پارلیمانی نظام کی کامیابی کی شاہ کلید حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بہت سے اہم سیاسی اورمعاشی امور پر اتفاقِ رائے کی سیاست ہوتی ہے، یا ایک دوسرے کے اچھے کاموں میں ساتھ دینے کی پالیسی ہی جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ ہماری سیاست میں ایک دوسرے کی عدم قبولیت کا پہلو پہلے سے موجود ہے اور بدستور اس میں مزید مسائل ابھر رہے ہیں، ایسے میں پارلیمانی جمہوری سیاست کسی بھی صورت میں مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کسی بھی صورت میں انتقامی سیاست نہیں کرے گی، مگر لگتا ہے وہ اپنی پرانی حکمت عملی پر ہی چلیں گے اور عمران خان سمیت اُن کی ٹیم کو احتساب کے نام پر مقدمات میں الجھایا جائے گا۔ ایسی صورتِ حال میں سیاسی محاذ آرائی اور ٹکرائو میں مزید اضافہ ہوگا جو ملکی سیاست کو اور زیادہ بدنما کرنے کا سبب بنے گا۔ معیشت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی جماعتوں کی سطح پر قومی اتفاقِ رائے درکار ہے، اور اس میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، لیکن لگتا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اور ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہی ’’سیاسی محاذ آرائی‘‘ پر مبنی سیاست ہے، اوراسی کو بنیاد بناکر وہ اپنے سیاسی مخالفین پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان آنے والے کچھ عرصے میں ایک بڑی جنگ پارلیمنٹ میں کم اور سیاسی میدان میں زیادہ دیکھنے کو ملے گی۔ عمران خان کے مقابلے میں خود حکمران جماعت کو بھی ردعمل کے طور پر عوامی جلسوں میں اترکر جوابی حملہ کرنا ہوگا، وگرنہ کھلا سیاسی میدان عمران خان کے حق میں جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حکومتی بوجھ اسے تن تنہا اٹھانا ہے، اور مشکل صورتِ حال میں اس کی اتحادی جماعتیں اس کے ساتھ نہیں کھڑی ہوں گی۔ اس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سیاسی تنائو ہے، اور جس انداز سے بالخصوص سوشل میڈیا پر اداروں پر تنقید ہورہی ہے وہ خود بھی ریاستی اداروں کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے چند مہینوں میں ہمیں سیاسی محاذ پر یا ریاستی اداروں
کی سطح پر خاصا ٹکرائو دیکھنے کو ملے۔ ایک دوسرے کی حمایت اورمخالفت میں جلسے جلوس کی سیاست اورسیاسی درجہ حرارت اس وقت قومی سیاست پر غالب ہے، جو مزید بڑھے گا۔
کیونکہ سیاسی طور پر ہم نے طے کررکھا ہے کہ اپنی سیاسی ترجیحات کو قومی سیاسی ترجیحات یا قومی مفاد سے جوڑنے کے بجائے ذاتی بنیاد اور جماعتی بنیاد سمیت شخصی بنیاد پر جوڑ نا ہے۔ ایسی سیاست سے ملک ترقی نہیںکرتے بلکہ طاقت اور اقتدار کی سیاست کا یہ جنون ملکی سیاست کو مزید پیچھے کی طرف دھکیلے گا۔