جناب سید سعادت اللہ حسینی حفظہ اللہ موجودہ امیر جماعت اسلامی ہند ہیں، ان کی کئی عالمانہ اور فاضلانہ تقاریر سننے کا اتفاق ہوا جس سے ان کی مفکرانہ سوچ، دین اور زمانۂ حاضر سے آگاہی اور امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر ان کی ماہرانہ دسترس کو دیکھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ وہ صاحبِ قلم بھی ہیں اور ان کے قلم سے مضامین و مقالات بھی نکلتے رہتے ہیں، جن کو پڑھ کر ان کی فکری بلندی کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان کو اپنے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین۔
ان کی غالباً پہلی کتاب ہے جو پاکستان میں شائع ہوئی ہے، یہ گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ نئی دہلی بھارت میں ابوالاعلیٰ سید سبحانی کے ادارے ہدایت پبلشرز سے شائع ہوئی ہے، اسی کو پاکستان میں ادارۂ مطبوعات طلبہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔
ابوالاعلیٰ سید سبحانی تحریر فرماتے ہیں:
’’واضح مؤقف اور صاف تصویر کسی بھی فکری تحریک کی لازمی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت اُس وقت شدید ہوجاتی ہے جب یہ فکری تحریک عام انسانی سماج کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور اپنا حصہ بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
زمانے کی تبدیلی اپنے ساتھ بہت سے مسائل اور بہت سے مباحث لے کر آتی ہے، ان مسائل اور مباحث کو بروقت ایڈریس کرنا، انہیں صحیح رخ دینا اور ان سے متعلق صحیح صحیح رہنمائی فراہم کرنا فکری اور عوامی، ہر دو سطح پر، نفوذ اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شرطِ لازم ہے۔
’’بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر‘‘ اپنے موضوع پر متفرق مگر بہت ہی اہم اور قیمتی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں تہذیب، تکثیری سماج، سیکولرزم، نیشنلزم، نوآبادیت، روایت پسندی اور جدیدیت جیسے موضوعات پر اسلامی مؤقف کی ترجمانی کرنے والے بہت ہی فکرانگیز مضامین شامل ہیں۔ ہندوستان کی اسلامی تحریک کو علمی و فکری سطح پر کن چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجون کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کچھ تیاریاں درکار ہیں، اس مجموعۂ مضامین میں اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
ہدایت پبلشرز کے قیام کے اوّل روز سے یہ بات پیش نظر رہی ہے کہ موجودہ دنیا اور اس کے مسائل کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے، اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا معروضی جائزہ لیا جائے، قرآن و سنت کی تعلیمات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور موجودہ حالات کے تناظر میں قرآن و سنت کی رہنمائی کو استدلال کی مضبوطی اور بیان کی پختگی کے ساتھ منظرعام پر لایا جائے۔
محترمی و مکرمی جناب سید سعادت اللہ حسینی کے مضامین کا یہ مجموعہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ان مضامین میں جدت بھی ہے اور تخلیقیت بھی… استدلال کی مضبوطی بھی ہے اور بیان کی پختگی بھی۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب عام ذہنوں میں اٹھنے والے بہت سے سوالات اور اشکالات کا ازالہ کرے گی اور فکری سطح پر وابستگانِ اسلامی تحریک کو ایک رخ دینے کا کام کرے گی‘‘۔
محترم المقام سید سعادت اللہ حسینی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ ان مضامین اور تقریروں کا مجموعہ ہے جن میں تحریکِ اسلامی کی فکر کے بعض پہلو زیر بحث آئے ہیں۔ اس مجموعہ کے اکثر مضامین شائع شدہ ہیں، بعض تقریریں ہیں، وہ بھی یا تو شائع ہوچکی ہیں یا سوشل میڈیا پر ویڈیو کی صورت میں پھیل چکی ہیں اور گزشتہ سات آٹھ سالوں پر محیط ہیں۔
تحریک اسلامی ایک فکری و نظریاتی تحریک ہے۔ نظریاتی تحریک سماج میں ایک ڈسکورس کھڑا کرتی ہے۔ وہ سماجی تبدیلی کا اپنا وژن پیش کرتی ہے۔ اس وژن کی فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ اس کے حق میں مستحکم دلائل دیتی ہے۔ سماج میں رائج دیگر افکار و نظریات کے بارے میں بھی وہ واضح مؤقف اختیار کرتی ہے۔ جن باتوں کی تائید ہوسکتی ہے، ان کی وضاحت کے ساتھ تائید کرتی ہے، جن باتوں کے ساتھ ترمیم و اصلاح کے بعد مطابقت کی گنجائش نکلتی ہو، ان کو بھی دلائل کے ساتھ واضح کرتی ہے، اور جو باتیں اس کی فکر سے راست متصادم ہوں، ان پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ یہی کسی بھی ڈسکورس کے اجزا ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کا آغاز اسی ڈسکورس سے ہوا۔ مولانا مودودی اور تحریک کے دیگر اولین نظریہ سازوں نے مدلل طریقے سے اسلام کا وژن پیش کیا۔ اس تبدیلی کے خدوخال کی وضاحت کی جو اسلام سماج میں لانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اقامتِ دین کی جامع اصطلاح اختیار کی۔ ان مفکرین نے اسلام کے بالمقابل جن نظریات اور نظام ہائے زندگی کی طرف لوگ مائل تھے، ان پر کھل کر تنقید کی اور ان کی کمزوریوں اور خامیوں کی وضاحت بھی کی۔ خود مسلمانوں میں جو غلط افکار اور رویّے رائج تھے، ان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان اساسی افکار کے علاوہ، آزاد ہندوستان کے بدلے ہوئے ماحول میں کئی اسلامی مفکرین نے اس ڈسکورس کو آگے بڑھایا۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ، مولانا عروج قادریؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ، ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور مولانا سید جلال الدین عمری جیسے بزرگوں کے نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں۔ ان سب بزرگوں نے بدلے ہوئے ماحول میں اسلامی فکر کے خدوخال واضح کیے اور نئی سماجی حقیقتوں کے درمیان، اسلامی تحریکی ڈسکورس کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔
گزشتہ دو دہے، عالمی اور ملکی سطح پر بڑی اہم اور دوررس تبدیلیوں کا زمانہ ہے۔ اس عرصے میں اسلام بڑی قوت کے ساتھ ایک نظریاتی طاقت کی حیثیت سے ابھرا۔ اس عروج نے ساری دنیا میں اسلام سے خوف یا اسلاموفوبیا کو جنم دیا، اور جگہ جگہ نہایت جارح اسلام مخالف طاقتیں ظہور پذیر ہوئیں اور انہیں تیزی سے عروج بھی نصیب ہوا۔ اس صورت حال نے مسلم نوجوانوں میں طرح طرح کے ردعمل بھی پیدا کیے اور کنفیوژن بھی بڑھایا۔
دوسری طرف گلوبلائزیشن، ٹیکنالوجی کے فروغ اور معیشت کے نئے طریقوں نے بہت سے تنائو اور کشیدگیاں بھی پیدا کیں۔ معاشی استعمار ایک ہمہ گیر عالمی طاقت کے روپ میں ابھرا اور اس نے نہ صرف پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا بلکہ دنیا کے وسائل پر بھی پوری طرح قابض ہوگیا۔ دنیا میں بے نظیر معاشی نابرابری پیدا ہوئی۔ کمزور اور پسماندہ طبقات میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہوا اور جگہ جگہ طرح طرح کی مزاحمتی تحریکیں بپا ہوئیں۔
مابعد جدیدیت نے سوچنے کے نئے انداز پیدا کیے۔ جدیدیت کے اکثر تصورات بدلنے لگے اور اصطلاحات نے نئے معنی اختیار کرنا شروع کیے۔ انارکیت، ردِّ نو آبادیت، سیاست شناخت (Identity Politics) وغیرہ جیسے تصورات نے مغربی سرمایہ داری کے مقابلے میں متبادل تصورات فراہم کیے۔
فکرِ اسلامی کو ان سب واقعات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ اس مجموعہ مضامین کی نوعیت انہی میں سے بعض سوالات کو اسلامی فکر کی روشنی میں سمجھنے کی طالب علمانہ کوشش ہے۔ یہ کوئی مربوط کتاب نہیں ہے بلکہ الگ الگ اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف کو اندازہ ہے کہ ان مضامین کی اکثر بحثیں بہت ابتدائی نوعیت کی ہیں۔ کئی مضامین میں صرف سوالات اٹھانے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ان مضامین کو اس امید کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ تحریک کے اہلِ علم ان بحثوں کو آگے بڑھائیں گے۔ اللہ کی مرضی اور توفیق شاملِ حال رہی تو راقم الحروف بھی ان موضوعات پر اور ان جیسے دیگر موضوعات پر زیادہ تفصیل سے لکھنے کی کوشش کرے گا، اور یہی درخواست اہلِ علم دوستوں اور بزرگوں سے ہے۔
مجموعہ کے پہلے مضمون میں اسلامی تہذیب کی بنیادیں اور خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک بہت ہلکا پھلکا مضمون ہے جو اصلاً طلبہ کے درمیان کی گئی ایک تقریر ہے، جسے بعد میں مضمون کی شکل دے دی گئی۔ اسلامی تہذیب پر کئی بزرگوں نے گراں قدر کام کیا ہے۔ اس مضمون میں گہری علمی بحثوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کلچر اور سولائزیشن کی جدید اور مابعد جدید بحثوں کے تناظر میں اسلامی تہذیب کے عناصرِ ترکیبی اور مظاہرِ تہذیب سے ان کے رشتے کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ملک کی اسلامی تحریک اور اس جیسی دیگر تحریکوں کو جن اہم اور بنیادی سوالات کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر اس مجموعہ میں سیکولرزم، قومیت اور تکثیریت جیسے سوالات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان مضامین کا مقصد اسلام کے آئیڈیلز کی پیشکش نہیں ہے بلکہ موجودہ حالات میں اسلامی تحریکوں کی حکمت عملی کے لیے نظریاتی بنیادیں کیا ہوں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ تحریک کے اوّلین مفکرین نے جب جدیدیت کے افکار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اُس وقت ان اصطلاحات کے مخصوص معنی رائج تھے۔ اب اس بدلی ہوئی دنیا میں اور مابعد جدید دور میں یہ اصطلاحیں کئی معنوں میں مستعمل ہیں۔ چنانچہ ان کے سلسلے میں رویّے کی تعیین کرتے ہوئے ان مختلف معنوں پر غور کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ان مضامین میں اسی کی کوشش کی گئی ہے۔
ردِّ نو آبادیت (Decoloniality) موجودہ دور میں ایک اہم فلسفیانہ و سماجیاتی رجحان ہے۔ استعمار کی ہمہ گیر بالادستی نے ساری دنیا کو آزادی اور نجات کے راستے ڈھونڈنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمارے ملک میں دلت اور آدیباسیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی تحریکوں نے بھی ان تصورات کا اثر قبول کیا ہے۔ اس موضوع پر لکھے گئے مضمون میں رد نوآبادیت اور آزادی کے اسلامی تصورات اور اسلامی طریقوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
آزاد ہندوستان میں تحریکِ اسلامی نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں؟ یہ سوال اکثر زیر بحث آتا ہے۔ ایک مضمون ’’ہندوستان میں اسلامی تحریک کا فکری ارتقا اور موجودہ حکمت عملی‘‘ میں اس سوال کو تفصیل سے زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون میں ان تاریخی عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو تحریک کی ابتدائی فکر کی پیش کش کا فوری سبب بنے تھے، اور ان سماجی، سیاسی اور نظریاتی تبدیلیوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جو تحریک میں بعض عملی تبدیلیوں اور فکری ارتقا کا باعث بنیں۔
دو مضامین، تحریک کی عملی ضرورتوں سے متعلق ہیں۔ ان مضامین میں بنیادی طور پر یہ گزارش کی گئی ہے کہ ایک فکری تحریک، فکری جدوجہد اور علمی و اجتہادی کاوشوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان میں موجودہ علمی چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان حالات میں تحریک کو جن علمی و فکری کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے، ان کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
اس وقت اسلامی تحریک کو ہمارے ملک میں جو سب سے اہم کام درپیش ہے وہ دعوت کا کام ہے۔ دعوتِ دین کے موضوع پر کئی بزرگوں نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کا مقصد دعوت کے اصولوں یا طریقہ کار کی وضاحت نہیں ہے، بلکہ دعوتی میدان میں کام کرتے ہوئے درپیش بعض عملی مسائل کے حل کی تلاش ہے۔
تحریکِ اسلامی، قدامت پرستی اور جدیدیت پرستی دونوں کی ناقد بن کر ایک صدائے اعتدال کے روپ میں سامنے آئی تھی۔ دنیا کے موجودہ حالات میں جدیدیت اور اس کے بعد مابعد جدیدیت کی یلغار میں بہت زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ردعمل میں قدامت پرستانہ آوازوں میں بھی پھر ایک بار شدت آگئی ہے۔ ان حالات میں تحریک کے مسلکِ اعتدال کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ایک مضمون میں اسی سبق کی محض یاد دہانی کرائی گئی ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں اقامتِ دین کا تصور تنقیدوں کی زد میں ہے۔ یہ تنقیدیں اسلام مخالف طاقتوں کی جانب سے بھی ہیں اور مسلمان مفکرین کی جانب سے بھی۔ ایک مضمون میں مسلمان مفکرین کی جانب سے اقامتِ دین کے تصور پر جو تنقیدیں کی جاتی ہیں، ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔
امید ہے کہ اہلِ علم اس کاوش کا استقبال کریں گے اور اس بحث کو آگے بڑھائیں گے۔
میں ان تمام قارئین اور سامعین کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ان مباحث پر سوالات، تبصروں، تنقیدوں اور تائیدی کلمات کے ذریعے اسے آگے بڑھانے میں تعاون کیا۔
میں ہدایت پبلشرز اور برادرم ابوالاعلیٰ سبحانی کا بھی ممنون ہوں جن کی توجہ، کوشش، مسلسل یاد دہانی، اصرار اور فالو اپ کے بغیر اس کتاب کا منظرعام پر آنا ممکن نہ تھا۔
ڈاکٹر رفعت صاحب، مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب اور مولانا محی الدین غازی صاحب نے اشاعت سے قبل اس کتاب کے مسودے کا مطالعہ فرمایا۔ بعض قیمتی مشورے دیئے۔ میں ان کا بھی احسان مند ہوں اور ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتا ہوں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً ارزقنا اجتنابہ‘‘۔
کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں:
-1 اسلامی تہذیب کیا ہے؟، -2تکثیری سماجوں میں امتِ مسلمہ کا کردار، -3 سیکولرزم اور اسلامی تحریک، -4 نیشنلزم، اسلام اور اسلامی تحریک، -5 رد نوآبادیت اور اسلام کا تصورِ آزادی، -6 ہندوستانی سماج میں اسلام کی نمائندگی، -7 ہندوستان میں اسلامی تحریک کا فکری ارتقا اور موجودہ حکمتِ عملی، -8 تحریکِ اسلامی اور فکری چیلنج، -9 تحریکی لٹریچر اور درپیش علمی معرکہ، -10 روایت پسندی، جدیدیت اور مولانا مودودی کا مسلک اعتدال، -11 تصورِ اقامتِ دین پر اعتراضات… ایک جائزہ