آج پوری دنیا میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس کا تعلق سبھی کی زندگی سے ہے مگر اِس حوالے سے زیادہ سوچا نہیں جارہا۔ یہ مسئلہ ہے ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ کا۔ ماحول میں رونما ہونے والی خرابیاں خاموش قاتل کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان خرابیوں کے ہاتھوں ہر سال لاکھوں اموات واقع ہو رہی ہیں مگر پھر بھی اِس حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ حکومتیں ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کہیں کاروباری مفادات آڑے آجاتے ہیں اور کہیں سیاسی و معاشرتی مصلحتیں راستا روک لیتی ہیں۔
انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں دنیا بھر کی اقوام کو ماحول کی گراوٹ کے بارے میں ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ رپورٹ خطرے کی گھنٹی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کاربن ڈائی اکسائڈ کا اخراج اب تک خطرناک حدوں کو پار کیے ہوئے ہے۔ اس معاملے کو درست نہ کیا گیا تو روئے ارض پر حیاتیاتی تنوع ہی کو نہیں بلکہ خود حیات کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا بھر میں سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں متعدد ممالک خطرے میں ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے لیے یہ صورتِ حال زیادہ پریشان کن ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ میں بھارت سمیت کئی ممالک کے بارے میں تفصیلات درج ہیں اور اِن ممالک کے صوبوں کا فرداً فرداً ذکر کیا گیا ہے مگر یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں میڈیا صرف جنگ کی کوریج کر رہے ہیں، ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں دکھارہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ خود ماحول کو نقصان پہنچانے والا ایک بڑا عامل ہے۔ جنگ کے دوران استعمال ہونے والے گولا بارود سے صرف فضا نہیں، پانی بھی آلودہ ہو جاتا ہے اور لوگوں کو سانس لینے میں غیر معمولی دشواری کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کے حصول میں بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب بھی جنگ چھڑتی ہے تو معاشرتی اور معاشی بہبود کے لیے مختص فنڈز دفاعی بجٹ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اِس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ یوکرین کی جنگ نے کئی ممالک کو دفاعی بجٹ بڑھانے کی تحریک دی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے نمٹنے کے اقدامات کے لیے فنڈز برائے نام رہ گئے ہیں۔ یوں ہم ماحول کو نقصان سے بچانے کا ایک اچھا موقع بہت آسانی اور تیزی سے کھو رہے ہیں۔ ماحول کو محفوظ رکھنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ عالمگیر مسئلہ ہے۔ کوئی ایک ملک بھی یہ کہتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتا کہ یہ اس کا دردِ سر نہیں۔ ہم سب اِس سیّارے پر بستے ہیں۔ زمین کو پہنچنے والا کوئی بھی نقصان ہم سب کا ہے۔ اور اِس کی بہبود کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی ہم سبھی مستفید ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے مل جل کر ماحول کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ اب اصلاحِ احوال کے لیے بہت کچھ کرنا ہے اور تیزی سے کرنا ہے۔ تاخیر کا مطلب پورے کُرّۂ ارض کی تباہی ہے۔
کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں موسموں کا ڈھانچا بدل گیا ہے؟ کہیں بہت زیادہ بارش ہو رہی ہے اور کہیں بہت زیادہ خشک سالی ہے۔ موسمِ گرما اور موسمِ سرما طویل تر ہوتے جارہے ہیں۔
عالمی درجۂ حرارت کے بڑھنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں دنیا بھر میں متعدد ممالک کے کئی حصے خطرات سے دوچار ہیں۔ اِن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں سمندری پانی شہری آبادیوں میں دور تک آکر زمینوں کو بنجر بنارہا ہے۔
سمندر کی سطح بلند ہونے سے جن ممالک کو خطرات لاحق ہیں اُن میں پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ بھی شامل ہیں۔ پورے مالدیپ کے وجود کو بلند ہوتی ہوئی سمندری سطح سے خطرہ لاحق ہے۔ بھارت کے بیشتر ساحلی علاقوں میں بلند ہوتی ہوئی سمندری سطح خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
بھارت میں کم و بیش 35 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ 15 سال میں یہ تناسب 40 ہوچکا ہوگا۔ اس وقت بھی بھارت کے متعدد بڑے شہروں میں اکثریت انتہائی غیر معیاری زندگی بسر کر رہی ہے۔ دہلی میں صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ سانس لینے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت بھر میں کروڑوں افراد اس مسئلے کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب کچھ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا نتیجہ ہے۔
دنیا بھر میں شہروں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے اور نئے شہر بھی آباد ہوتے جارہے ہیں۔ بہت سے بڑے شہر بے ڈھنگے انداز سے بڑھنے کے نتیجے میں انتہائی مشکل حالات کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ کراچی بھی اُن میں شامل ہے۔ بھارت کے متعدد بڑے شہر آبادی میں بے ہنگم اضافے کے باعث شدید الجھنوں کا شکار ہیں۔ موزوں منصوبہ سازی کے بغیر شہروں کو وسعت دینے سے صحتِ عامہ کے لیے شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ بے طور وسعت پانے والے شہروں کا ماحول انتہائی گراوٹ کا شکار ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے اور ٹریفک بڑھنے سے فضائی آلودگی کا گراف بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ بنیادی سہولتیں نہ ہونے سے صحتِ عامہ کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں میں کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتیں مجموعی درجۂ حرارت بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ایئر کنڈیشنرز اور گاڑیوں کی بہتات سے بھی ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں طوفانِ باد و باراں اور بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اوسط درجے کی بارشیں کم ہوگئی ہیں۔ موسلا دھار بارشوںمیں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ بارش سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور شہروں میں بھی سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں موسموں کی شدت نے صحتِ عامہ کے لیے اضافی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ موسمِ گرما اور موسمِ سرما کی طوالت انسانی صحت پر بہت بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگوں کے معمولات اور کھانے پینے کے طریقے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ کسانوں کو بھی اپنی فصلوں کو موسم کی شدت سے بچانے کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں شدید گرمی سے فصل جل جاتی ہے یا پھر سُوکھ جاتی ہے۔ اسی طرح طویل موسمِ سرما سے بھی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ماہرین نے اس امر پر شدید پریشانی ظاہر کی ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے کامیاب اقدامات کے باوجود دنیا بھر میں گرمی کم کرنے میں خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی۔ بہت سے ممالک میں شدید گرمی کے باعث لوگوں کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُنہیں کام کے اوقات میں بھی تبدیلی کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے جو انسان کو بے حال کردیتی ہے اور وہ عمومی سطح کی محنت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسے میں فجر کی نماز کے بعد کام پر نکل جانے کی صورت میں قدرے معتدل ماحول میں زیادہ اور اچھا کام کیا جاسکتا ہے۔ دن میں دس ساڑھے دس بجے تک گرمی بڑھتی ہے۔ تب تک بہت سا کام نمٹایا جاسکتا ہے۔ عرب دنیا میں شدید گرمی کے دوران دن میں ڈھائی تین گھنٹے کا آرام دیا جاتا ہے۔ لوگ دفتر سے گھر جاکر آرام کرتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب گھر نزدیک ہو۔ پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش جیسے پس ماندہ ممالک میں یہ ممکن نہیں۔ اول تو یہاں یہ کلچر ہی نہیں کہ کوئی آجر اپنے محنت کشوں اور کاری گروں کو شدید گرمی میں ڈھائی تین گھنٹے آرام کا موقع دے۔ اور پھر شہروں میں مکانات بہت مہنگے ہونے کے باعث صنعتی اور تجارتی علاقوں کے نزدیک سکونت اختیار کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کم اجرت پانے والوں کے لیے معاملات اور بھی خراب ہیں۔
مزدوروں کے لیے راحت کا سامان کرنے کی خاطر چھاؤں کا اہتمام لازمی ہے۔ ماہرین شجر کاری پر زور دے رہے ہیں۔ شہروں میں جگہ جگہ بڑے اور گھنے درخت ہوں تو لوگوں کو سُکون سے کچھ دیر بیٹھنے کی صورت میں توانائی بحال کرنے میں مدد ملتی ہے۔
زیادہ سے زیادہ شہر بسانے کے لیے جنگلات کا رقبہ کم کرنے کا بھی رجحان سا چل پڑا ہے۔ یہ مسئلہ بھی عالمگیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہروں کو منظم انداز سے وسعت دی ہے مگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث شہر بے طور بڑھ رہے ہیں اور اِس کے نتیجے میں جنگلی حیات کے لیے گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ درختوں کی بہتات والے علاقے اب تیزی سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ شہروں میں بڑے پیمانے کی شجر کاری اس مسئلے کی شدت کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے مگر افسوس کہ اب تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔
جنگلات کا رقبہ گھٹتے رہنے سے ایک طرف تو جنگلی حیات خطرے میں ہے اور دوسری طرف بہت سے کیڑے مکوڑے ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ کیڑے مکوڑے نئے ماحول کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ اب اِن سے تدارک کے لیے کیے جانے والے اقدامات بالعموم حوصلہ افزا نتائج کے حامل نہیں ہوتے۔
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کوئی بھی بیماری جانوروں سے انسانوں کی طرف منتقل نہ ہو۔ اس کے لیے بہت حد تک لازم ہے کہ جنگلات کا رقبہ بڑھایا جائے تاکہ جنگلی حیات کو انسانوں سے گھلنے ملنے کا زیادہ موقع نہ ملے۔ جب زرعی مقاصد کے لیے یا پھر شہر بسانے کی خاطر جنگلات دھڑا دھڑ کاٹے جاتے ہیں تب کیڑے مکوڑے اور دیگر جاندار تیزی سے اور بڑے پیمانے پر انسانوں میں گھل مل جاتے ہیں۔
کچرا ٹھکانے لگانے کے حوالے سے انتہائی درجے کی لاپروائی نے بھی ماحول کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں کچرا معیاری انداز سے ٹھکانے لگانے کے بجائے جلادیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فضائی آلودگی کا گراف مزید بلند ہوتا ہے۔ فضا کی خرابی سے عمومی سطح پر بھی سانس لینے میں دشواری بڑھتی ہے اور بہت سے امراض میں مبتلا افراد کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
ماحول کو پہنچنے والے نقصان ہی کے نتیجے میں انسان کے کھانے پینے کے معمولات بھی بدل گئے ہیں اور غیر معیاری خوراک کے زیادہ استعمال سے بیماریوں کو راہ مل رہی ہے۔ بہت زیادہ پروسیس کی ہوئی چیزیں کھانے سے صحتِ عامہ کا معیار گرتا جارہا ہے۔ بڑے شہروں میں عام آدمی کی خوراک میں فاسٹ فوڈ آئٹمز کی شمولیت سے موٹاپا ایک بڑی بیماری کے روپ میں ابھر کر سامنے آچکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2030 سے 2050 کے دوران کم و بیش 25 لاکھ افراد اُن پیچیدگیوں کے ہاتھوں مریں گے جو فاسٹ فوڈ اور ایسے ہی دیگر آئٹمز نے پیدا کی ہوں گی۔ بہت سے تنظیموں نے اپنے تخمینوں میں بتایا ہے کہ ہر سال ہونے والی اموات میں 24 فیصد کسی نہ کسی طور ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ماحول کی پیچیدگی کے باعث ہر منٹ دل، گردوں اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا 13 افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال ایک کروڑ 30 لاکھ افراد ایسی پیچیدگیوں کے باعث موت کے گھاٹ اترتے ہیں جنہیں تھوڑی سی توجہ اور معمولی سے خرچ سے ٹالا جاسکتا ہے۔
آج دنیا بھر میں انسانی فضلے اور دیگر کچرے کی ٹریٹمنٹ کا نظام متعارف کرایا جاچکا ہے۔ جن معاشروں میں اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جاتا وہاں صحتِ عامہ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش 3 ارب 60 کروڑ افراد کو معیاری بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ اس کے نتیجے میں ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں کم و بیش 2 ارب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ گندا پانی پینے سے ہر سال آٹھ لاکھ سے زائد افراد پیچش اور دیگر بیماریوں کے ہاتھوں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے دل کے علاوہ پھیپھڑے کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ ان بیماریوں میں افراد کو کے لیے اضافی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ہر سال تمباکو نوشی کے پیدا کردہ عوارض کے ہاتھوں اور ماحول کی گراوٹ کے نتیجے میں موت کو گلے لگانے والوں کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے۔ ہر سال 60 کھرب سگریٹ بنانے کے لیے 60 کروڑ درخت کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اگر سگریٹ پینے کی عادت پر قابو پالیا جائے تو سگریٹ کی کھپت کم ہوگی، درخت کم کاٹے جائیں گے اور ماحول پر اِس کا بہت اچھا اثر مرتب ہوگا۔
پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو ماحول دوست بنانے سے بھی ماحول کی گراوٹ پر قابو پانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ ہم اپنے صاف پانی کے ذخائر میں گٹر کا پانی اور کچرا شامل ہونے سے روک کر بھی ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ صنعتی اداروں کا کچرا یا فضلہ بھی ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کی صورت میں ماحول کی خرابی بہت حد تک روکی جاسکتی ہے۔
یہ تمام معاملات بتاتے ہیں ہماری زندگی اور ماحول کا تعلق کس نوعیت کا ہے اور ہم اپنے لیے بے جا مشکلات کس طور پیدا کرتے ہیں۔ ماحول کو درست کیے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے اور ماحول کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت سی عادات کو ترک کرنا اور بہت سے معمولات سے کنارا کش ہونا لازم ہے۔ کورونا کی وبا نے بتادیا ہے کہ ماحول کو صاف نہ رکھنے کی صورت میں ہم اپنے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ ماحول کے معیار ہی سے صحتِ عامہ کا معیار بلند ہوتا ہے۔ صحتِ عامہ کے لیے سب سے زیادہ پیچیدگیاں خراب ماحول سے پیدا ہوتی ہیں اس لیے ماحول کے معاملے میں انتہائی درجے کی حسّاسیت پیدا کرنا لازم ہے۔
جنگلات کاٹ کر بستیاں بسانے سے وباؤں کا پھیلنا بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ چند برس کے دوران جنوبی ایشیا سمیت بہت سے خطوں میں عمومی وبائیں بھی بہت تیزی سے پھیلی ہیں۔ حکومتوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ جنگلات کا رقبہ نہ گھٹایا جائے، درخت بے جا طور پر نہ کاٹے جائیں۔ روشنی اور گھریلو ایندھن کے طور پر صاف اور ماحول دوست توانائی کو حکومتوں کی ترجیحات میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔