ماضی کا شاندار تاریخی اور یادگارِ زمانہ شہر شکارپور جو آج صوبہ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح بدقسمتی سے بجائے عروج اور ترقی کی طرف گامزن ہونے کے، حکمرانوں کی بے حسی، بدعنوانی اور نااہلی کے سبب زوال پذیر اور انحطاط پذیر ہوتا چلا جارہا ہے، لیکن اس کے باوجود شکارپور میں علم و ادب سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد اپنے اپنے انداز میں وسائل اور سرمایہ کی عدم دستیابی اور کمیابی کے باوجود علم و ادب کی جوت جگائے ہوئے ہے۔ ان افراد میں سے ایک اہم اور نمایاں نام عبدالجبار ولد غلام رسول منگی کا بھی ہے جو علمی اور ادبی حلقوں میں عبدالجبار عاجزؔ منگی کے نام نامی سے معروف ہیں۔ موصوف سندھی زبان میں ایسی عمدہ اور دل پذیر شاعری کرتے ہیں کہ انہیں سندھی زبان کی شاعری کے آسمان کا ’’جگمگاتا ہوا ستارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عبدالجبار عاجزؔ منگی 10 جنوری 1972ء کو گوٹھ چھتومنکی تعلقہ گڑھی یاسین ضلع شکارپور میں پیدا ہوئے۔ درجہ اوّل تا مڈل تعلیم اپنے گوٹھ کے اسکول سے ہی حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان 1988ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول نئوں دیرو سے پاس کرنے کے بعد 1990ء میں سی اینڈ ایس گورنمنٹ ڈگری کالج شکارپور سے انٹر اور 1992ء میں شاہ لطیف کالج شکاپور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ منگی صاحب پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں لیکن شاعری میں ان کے استاد معروف شاعر اور ادیب ارباب علی عادلؔ چوہان ہیں (تعارف فرائیڈے اسپیشل میں چھپ چکا ہے)۔ انہیں شاعری کا شوق تو اوائل عمری ہی سے تھا لیکن اس ’’دشت کی سیّاحی‘‘ کا باقاعدہ آغاز 1990ء میں کیا۔ ابتداً ان کی شاعری معروف سندھی اخبار روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ حیدرآباد اور سندھی زبان کے بچوں کے مختلف رسائل میں شائع ہوئی جس سے ان کے حوصلوں کو اور جِلا ملی اور وہ مزید کمرِ ہمت کس کر اس میدان میں سرگرم عمل ہوگئے، اور پھر تو ’’چل سو چل‘‘ کے مصداق سندھی زبان کے لگ بھگ تمام معروف ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات میں ان کی شاعری چھپنے لگی اور باقاعدہ ان کی شاعری کو علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہونا شروع ہوگئی۔ شاعر ہو یا پھر ادیب… داد و تحسین ملنا شروع ہوجائے تو اس کے فن میں مزید نکھار آجاتا ہے اور پختگی بھی۔ یہی کچھ عبدالجبار عاجزؔ منگی کے ساتھ بھی ہوا۔ موصوف اب سندھی زبان کے شعرا میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری میں بڑی روانی اور اثر ہے۔ ان کے ہاں روایت کے ساتھ ساتھ جدتِ ادا بھی ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری بے حد پسند کی جاتی ہے۔ عاجزؔ منگی کی شاعری کو پڑھا جائے تو لگتا ہے کہ وہ عصرِ حاضر کا بہت گہرا شعور رکھتے ہیں جس کی جھلک ان کی سندھی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
ایک عام فرد آج کل کے ابتر حالات میں جس اضطراب، بے چینی، احساسِ کمتری، عدم تحفظ سے دوچار رہتا ہے عاجز منگی نے اس کی ترجمانی بڑی خوب صورتی سے اپنی شاعری کے توسط سے کی ہے:
مہانگائی و دو ماری ہانی ہر غریبن کی
تلوار جہاں لٹکیل انسان لگن تھا
ڈینھن کٹجیو وبجھی رات کٹھجی یہ تھی
بے وسی زندگی مان برگھٹجی نہ تھی
دل اندر باہ بھڑکا ڈی تھی مگر
شاعری پر آہا ہان لکجی نہ تھی
وہ اعلیٰ انسانی اوصاف اور اقدار کو پسند کرتے ہیں۔
دوستی نہ توڑ جی
کجھ وڈی نظر کجی
وقت مہ جو ساتھ ڈی
اہڑو ہمسفر کجی
وہ چھوٹی بحر کے اشعار میں بڑی بات کہنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی ساری شاعری ان کے فنِ شاعری پر دسترس کا مظہر ہے۔ الیکشنی بھوتار اور وڈیرے ہمیشہ الیکشن کے موقع پر اپنے علاقے اور حلقے میں دکھائی دیتے ہیں، اور اس کے بعد بے چارے عوام اُن کی شکل دیکھنے تک کو ترس جاتے ہیں۔ عاجزؔ منگی اس پر یوں اظہارِ برہمی کرتے نظر آتے ہیں:
بھوتارن کی ووٹ نہ ڈی کو
قوم مہ اھڑی جان آن جی
صدائوں ڈکھن جون اج بلند تھین تھیون
سدائیں رہن تھا سجن نہیں آسرا
مقدر مہ فاقہ ئی فاقہ پکیل آہن
گھبی لاء کٹیا تہ آہن کشالا
انہوں نے قبائلی جھگڑوں، دشمنیوں اور دیگر عوامی مسائل و مصائب کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پیار و محبت کے کومل جذبات کو بھی بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس لیے انہیں نفیس اور کومل جذبات کا شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نظم کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت اچھے غزل گو شاعر بھی ہیں۔ ان کی شاعری روزنامہ کاوش، روزنامہ ہلال پاکستان، روزنامہ عوامی آواز، روزنامہ جاگو، روزنامہ سوبھ، روزنامہ عبرت حیدرآباد سمیت دیگر سندھی اخبارات میں چھپتی رہتی ہے۔ سندھی کے معروف ماہانہ، ہفتہ وار رسائل و جرائد میں بھی ان کی نظمیں اور غزلیں بہ کثرت اشاعت پذیر ہوتی رہتی ہیں جن میں ماہانہ نئین زندگی حیدرآباد، ماہانہ امرتا، ماہنامہ لوک میگزین، ماہنامہ ادب سمیت متعدد رسائل شامل ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’عشق جی اصل گالھ نہ کر‘‘ جو نیاز مسرور بدوی کے ساتھ مرتب کردہ ہے، چھپ چکی ہے۔ دیگر کتب عدم وسائل کی بنا پر اشاعت کی منتظر ہیں۔
ادبی خدمات سرانجام دینے پر انہیں 2018ء میں سندھی ادبی سنگت شاخ لکھی غلام شاہ کی جانب استاد قمر کھوسو ایوارڈ سمیت دیگر اسناد بھی مل چکی ہیں۔ 2016ء میں انہیں بہترین پرائمری استاد شکارپور کا ایوارڈ بھی عطا کیا جاچکا ہے۔ 2017ء میں انہیں چار سو سالہ جشن شکارپور ایوارڈ، مہران ادبی سنگت شکارپور اور یادگاری شیلڈ سندھی ادبی سنگت سندھ کی جانب سے دی جاچکی ہے۔
پسندیدہ شخصیت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
پسندیدہ کتاب: شاہ جو رسالو
پسندیدہ شاعر: شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ
رنگ: سفید
مشروب: شربت صندل
موسم: بہار
کھانا: بریانی
پتا: نیو گلستان کالونی، ہکڑو محلہ، شکارپور