ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ و بقا کاراستہ کیا ہے؟
سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والا بھارت آج انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لگتا ہے ریاست کا نام ہندوستان ہونے کی وجہ سے مودی حکومت اسے صرف ہندوئوں کا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے۔ وہاں اب غیر ہندو، خاص طور پر مسلمان بن کر جینا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمان ہر عنوان سے نشانے پر ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی طور پر ماضی کے مقابلے میں تیزی سے انہیں بے وقعت اور نفرت انگیز بناکر گن گن اور چن چن کر ان کی شناخت ختم کی جارہی ہے، ان کو ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واقعات اور اقدامات ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور روزانہ ہی مسلمان کسی نہ کسی بہانے ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔ مودی حکومت نے اپنے مسلم کُش اقدامات کے تسلسل میں نئی دہلی میں روہنگیا اور بنگلادیشی تارکین وطن مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو مسمار کرنے کے بعد اپنے نئے اقدام میں دارالحکومت کے 40 گاؤں کے مسلم نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے دہلی کے صدر ادیش گپتا مسلمان دشمنی پر مبنی مہم ’’بلڈوزر‘‘ چلا رہے ہیں جس میں روہنگیا اور بنگلادیش سے آئے مسلمان تارکین وطن کی دکانوں اور املاک کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کیا جارہا ہے۔ ادیش گپتا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال سے ایسے 40 گاؤں کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جن سے اسلام یا مسلمانوں کا تعلق ظاہر ہوتا ہو۔ بی جے پی رہنما نے ان ناموں کو دورِ غلامی کی یادگار قرار دیا۔ اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی نے معروف شہر الہٰ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگراج رکھ دیا تھا۔ بی جے پی رہنما کا مؤقف تھا کہ الہٰ آباد کا پرانا نام پریاگراج ہی تھا جسے دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کی ہی خبر ہے کہ ہندوستان کے مرکزی تعلیمی نظام سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے 23-2022ء سیشن کے لیے چند اہم موضوعات کو ہٹادیا ہے جن میں ’مغل دربار‘ سمیت فیض احمد فیض کے اشعار پر مبنی دو پوسٹر بھی شامل ہیں۔ یہ تبدیلی دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تاریخ اور سیاست کی درسی کتابوں میں کی گئی ہے۔ اخبار ”دی ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق گیارہویں اور بارہویں کے نصاب سے غیر وابستہ تحریک، سرد جنگ کا زمانہ، افریقی اور ایشیائی خطے میں اسلامی سلطنت کا عروج، مغل دربار کے کرانیکل، اور صنعتی انقلاب جیسے اہم موضوعات نکال دیے گئے ہیں۔ جبکہ دسویں جماعت کے نصاب سے فیض احمد فیض کی دو نظموں کے چند سطور پر مبنی پوسٹرز کو حذف کردیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ”سوشل میڈیا پر اس حوالے سے معروف صحافی اور مصنف ساگریکا گھوش نے فیض احمد فیض کی انڈیا کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”وقت کس طرح بدلتا ہے۔ سی بی ایس ای نے اپنے نصاب سے فیض کی نظموں کو ہٹادیا“۔ 1981ء میں اٹل بہاری واجپائی نے فیض احمد فیض کا گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ وہ ان کی شاعری کے بڑے پرستار تھے۔ اُس وقت کسی کو بھی سرحد پار کی آواز کی تعریف کرنے پر ”ملک دشمن“ نہیں سمجھا گیا۔ اس سے قبل 2017ء میں بھی مہاراشٹر کے کئی اسکولوں میں مغلوں کی تاریخ کو نصاب سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا تھا اور ان کے بجائے نصاب مکمل طور پر چھترپتی شیواجی پر مرکوز کردیا گیا تھا۔ مودی کی بی جے پی حکومت کی سیاست کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر مبنی رہی ہے۔ گجرات میں مسلم کُش فسادات اور بابری مسجد مسمار کرنا بھی اسی کے کھاتے میں ہے۔
اور یہاں بات صرف گاوں کے نام اور نصاب میں تبدیلی تک محدود نہیں ہے، بلکہ بھارت کے خطرناک جلاد ہندوؤں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے، اور اب تو ہندو رہنما مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرکے سرِعام جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ حالیہ واقعے میں ایک انتہاپسند ہندو رہنما نے مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کرنے کی دھمکی دی ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ریاست یو پی کے شہر سیتاپور سے وائرل ہوئی، اور اس کے بعد اہم بات یہ ہے کہ ہندو رہنما کی دھمکی پر ہندو عوام کی جانب سے خوب داد بھی دی گئی اور اس رہنما کی حمایت کی جاتی رہی۔ کم و بیش اسی دوران ایک اور ہندو پجاری یاتی نار سنگھ آنند سرسوتی نے دہلی میں ایک اور تقریر کی جس میں اس نے ہندوؤں سے کہا کہ وہ اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھا لیں۔
یہ سب باتیں میڈیا رپورٹ کا حصہ ہیں۔ اب مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کے حملے انڈیا میں ”معمول“ بنے ہوئے ہیں اور ریاست سرپرست بنی ہوئی ہے۔ اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ شہریت کے متنازع قانون کے موقع پر ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملے کیے، گھروں اور مساجد کو جلایا گیا، جس میں 50 سے زیادہ مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
حجاب والا واقعہ تو کل کی بات ہے، ریاست کرناٹک میں حجاب پہن کر کالج جانے والی طالبہ کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان کو اپنے کالج میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور زعفرانی شالیں لہراتے سیکڑوں طالبِ علموں کا گروہ جے شری رام کے نعرے لگاتا انھیں ہراساں کرتا رہا، جس کے جواب میں وہ طالبہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتی ہے اور مقامی زبان میں کہتی ہے ”کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟“
اس سے قبل جون 2021ء میں ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے علاقے غازی آباد میں ایک معمر مسلمان شخص کے ساتھ تشدد کا واقعہ پیش آیا، جس میں ملزمان نے اس کی داڑھی کاٹی اور زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے۔ اُس وقت وائرل ہونے والی ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ چند نوجوان تھپڑوں اور ڈنڈوں سے اس بوڑھے شخص پر تشدد کررہے ہیں جو اُن کے آگے ہاتھ جوڑتا نظر آتا ہے، جبکہ دوسری ویڈیو میں وہ کٹی ہوئی داڑھی میں اپنی روداد بیان کررہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا گیا تھا، لیکن ہندوستان کے شدت پسند ہندوئوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مودی اور ان کی حکومت پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اسی طرح ستمبر 2021ء میں روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک اندوہناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خوف زدہ مسلمان بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی جنہیں ہندو انتہا پسند گھیر کر تشدد کررہے تھے۔ اس انتہائی تکلیف دہ منظر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک 45 سالہ رکشہ ڈرائیور کو انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور ان کی چھوٹی سی بچی انتہا پسند ہندوؤں سے اپنے باپ کو بچانے کے لیے داد فریاد کررہی تھی۔ ہندو انتہا پسند، رکشہ ڈرائیور کو ہندوستان زندہ باد، جے شری رام اور جے رام کے نعرے لگانے پر مجبور کررہے تھے۔ پھر بات یہاں نہیں رکی تھی، اس کے چند روز بعد ہی مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں چوڑیاں فروخت کرنے والے ایک مسلمان کی ویڈیو سامنے آگئی جس کو ہندوؤں کا ایک ہجوم مُکّے، گھونسے اور لاتیں مار رہا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جب انڈیا میں کورونا پھیل رہا تھا تو مودی حکومت کے وزرا اور پارٹی کے ارکان سمیت ہندو رہنماؤں نے دلی میں ایک مذہبی اجتماع میں شریک ہونے والے مسلمانوں پر ”کورونا جہاد“ کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد ”روٹی جہاد“ کی باتیں بھی کی گئیں، جس میں کہا گیا کہ مسلمان باورچی روٹیوں پر تھوک رہے ہیں تاکہ ہندوؤں میں کورونا پھیل جائے۔ اسی طرح یہ تو عام سی بات ہے کہ ہندو مسلمان مردوں پر ہندوؤں کی عورتوں کو ورغلا کر شادی کرنے کا الزام لگاتے ہیں تاکہ انھیں مسلمان کرلیا جائے۔ اس مودی دہشت گردی میں مسلمان خواتین بھی نشانے پر ہیں اور گزشتہ جولائی میں درجنوں مسلمان خواتین کو ایک ویب سائٹ پر ”برائے فروخت“ قرار دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح مسلمانوں کو پاکستانی کہہ کر بھی عموماً تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ وہاں ہجوم کے ہاتھوں حملوں کے کئی واقعات بھی عام سی ہی بات ہے۔ کسی پر کوئی بھی الزام لگادیا جائے اور یہ بہت آسان ہے، مثلاً چلتے پھرتے کام کرتے کسی بھی مسلمان پر لڑکی چھیڑنے کا الزام لگادیا جاتا ہے اور ہجوم تشدد کرتا ہے۔ یہ تو بی بی سی نے لکھا تھا کہ ”سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کیا جاتا ہے، افواہ پھیلائی جاتی ہے اور لوگوں کو بہانہ بناکر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ فلاں بچہ چور گروپ سے ہے، تو فلاں گائے کی اسمگلنگ کررہا تھا۔“ یہ تو اپریل 2018ء کی بات ہے، جبکہ آج معاملہ اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ انڈیا کے شمالی شہر لکھنؤ میں ایک نوجوان ابھیشیک مشرا نے ٹیکسی بک کرائی اور جب معلوم ہوا کہ ڈرائیور مسلمان ہے تو اپنی بکنگ کینسل کرا دی۔ اس پر اُس کا کہنا تھا کہ ”میں اپنا پیسہ جہادیوں کو نہیں دینا چاہتا، لہٰذا بکنگ کینسل کرادی۔ ہوسکتا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور یہ پیسہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو بھیجتا ہو یا بھیجنا چاہتا ہو، یا ان کے لیے انڈیا میں نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کررہا ہو۔“ یہ واقعات دیگ کے چاول کے چند دانے ہیں۔
یہ 2019ء کی بات ہے، فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائٹ نے انڈیا میں نفرت پر مبنی جرائم کے بارے میں بتایا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے 90 فیصد افراد مسلمان تھے، اور آج 2022ء میں بھی مسلمان ہی نشانے پر ہیں۔ 2018ء میں ہندوستان میں شائع ہونے والی ایک کتاب ”مدرنگ اے مسلم“ میں مصنفہ نازیہ ارم نے لکھا تھا کہ ”انڈیا اور پوری دنیا میں بڑھنے والے اسلاموفوبیا کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کو اُن کے مذہب کی وجہ سے زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔“ وہ اس کتاب کو لکھنے کے لیے ملک کے 12 شہروں میں گئیں جہاں وہ 145 خاندانوں سے ملیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دہلی کے 25 بڑے اسکولوں میں پڑھنے والے 100بچوں سے بات بھی کی تھی۔ نازیہ ارم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ”اپنی ریسرچ کے دوران میں حیران رہ گئی، اور میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان بڑے بڑے اسکولوں میں ایسا ہورہا ہوگا۔“
آپ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کتنے منظم طریقے سے ہمہ پہلو، ہمہ جہت ان کو نشانہ بنانے اور نسل کُشی پر کام ہورہا ہے۔ ارم نے کتاب میں لکھا: ”بچوں سے پوچھا گیا کہ
٭کیا تم مسلمان ہو؟ میں مسلمانوں سے نفرت کرتا ہوں۔
٭ کیا تمہارے پاپا گھر پر بم بناتے ہیں؟
٭کیا تمہارے پاپا طالبان ہیں؟
٭کیا تم پاکستانی ہو؟
٭کیا تم شدت پسند ہو؟
٭اسے غصہ مت دلاؤ، وہ تمہیں بم سے اڑا دے گا۔“
ارم نے لکھا اور بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ ”کھیل کے میدان، کلاس اور اسکول بس تک میں مسلمان بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں دوسرے بچوں سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔ انہیں پاکستانی، آئی ایس آئی(،بغدادی اور شدت پسند کہہ کر بلایا جاتا ہے۔“
اپنی کتاب میں انھوں نے کچھ بچوں کی زبان سے بتائی گئی باتیں لکھی ہیں۔ پانچ سال کی ایک بچی اس بات سے خوف زدہ ہے کہ مسلمان آرہے ہیں اور وہ اسے مار ڈالیں گے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ خود ایک مسلمان ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ”جب پانچ اور چھ برس کے بچے کہتے ہیں کہ انہیں پاکستانی یا شدت پسند کہا جارہا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ اسکولوں سے کیا شکایت کریں گے؟“
ہندوستان کی صورت حال تصور سے زیادہ خراب ہے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور ان کو نشانہ بنانے کے ہزاروں واقعات ہیں جن پر کئی ہزار صفحوں کی کتاب صرف واقعات کو مرتب کرنے سے بن سکتی ہے۔ مسلمان وہاں کس مشکل اور تکلیف میں ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں مسلمانوں کی نسل کُشی جاری ہے جس کی آزاد ذرائع تصدیق کرتے ہیں، اور ابھی حال ہی میں امریکی ادارے جینو سائیڈ واچ کے بانی ”نسل کُشی کے دس مراحل‘‘ کا نظریہ پیش کرنے والے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا ہے کہ: ”بھارت میں مسلمان نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔“ انہوں نے بھارت کے لیے ”جینوسائیڈ ایمرجنسی الرٹ‘‘ بھی اعلان کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ پروفیسر اسٹینٹن نے مودی کے ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ قریبی روابط پربھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس جب سے قائم ہوئی ہے اُس وقت سے نفرت پھیلا رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک نازی تنظیم ہے اور درحقیقت ہٹلر کی تعریف و توصیف کرتی ہے۔
اس حوالے سے معروف بھارتی مصنفہ اور متعدد ناولوں کی انعام یافتہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے بھی مارچ 2020ء میں کہہ چکی ہیں کہ ”مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کُشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔“ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ نسل کُش میڈیا بنا ہوا ہے اُن جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کررہا ہے۔“
معروف دانشور اور کالم نگار شاہنواز فاروقی کا ہندوستان اور ہندو مذہب اہم موضوع ہے۔ وہ اس صورت حال کو تاریخ کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کُشی کوئی نئی بات نہیں۔ قائداعظم سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آپ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کس طرح کے تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں؟ قائداعظم نے کہا: جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں، یعنی پُرامن تعلقات۔ لیکن ہندوستان کی سیاسی قیادت نے تقسیمِ برصغیر کے وقت تشدد کی آگ کو بھڑکا دیا، چنانچہ ہندوئوں اور اُن کے بازوئے شمشیرزن سکھوں نے مل جل کر 10 لاکھ مسلمان مار ڈالے، اور 80 ہزار مسلم خواتین کو اغوا کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom کے 30 سال بعد سامنے آنے والے حصے میں لکھا ہے کہ دلی میں مسلم کُش فسادات شروع ہوئے تو بااثر مسلمان بھی ان کی زد میں آنے لگے، مولانا کے بقول انہیں جگہ جگہ سے فون آنے لگے کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کروں۔
مولانا کے بقول انہوں نے نہرو سے کئی بار مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کرنے کو کہا، مگر نہرو نے ہر بار ایک ہی جواب دیا کہ میں وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کہہ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کرو مگر وہ کچھ کرتے ہی نہیں۔ نہرو گاندھی کے بعد ہندوستان کے سب سے اہم رہنما تھے۔ سردار پٹیل کی یہ جرأت نہیں تھی کہ نہرو اُن سے کچھ کرنے کے لیے کہتے اور وہ اسے نظرانداز کردیتے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ خود نہرو بھی مسلمانوں کی نسل کُشی چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے قتلِ عام کا سلسلہ 1947ء تک محدود نہ رہا۔ ہندوئوں نے گزشتہ 74 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرائے ہیں، جن میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ہیں۔ اب بھارت میں وہ وقت آگیا ہے کہ انتہا پسند ہندو بین الاقوامی برادری سے کوئی خوف محسوس کیے بغیر کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہندو اٹھیں اور لاکھوں مسلمانوں کو مار ڈالیں۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے باوا آدم یا بنیاد گزار ہیں، مگر گاندھی کے زیراثر ایک ایسا وقت آیا کہ انہوں نے اردو کے بجائے ہندی میں لکھنا شروع کردیا۔ آج ہندوستان میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان باور کرایا جارہا ہے۔ اردو الفاظ محکمۂ پولیس کی زبان و بیان سے نکالے جارہے ہیں۔ ایک کمپنی نے رواج کے لفظ کو اپنے اشتہار میں استعمال کیا تو ہندوئوں نے ہنگامہ کردیا اور کمپنی کو اپنا اشتہار واپس لینا پڑا۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل اردو سے واقف ہی نہیں، وہ صرف ہندی جانتی ہے۔“
اس سوال کے جواب میں کہ اس صورت حال میں ہندوستان کے مسلمان کیا کریں اور ان کے پاس کیا راستہ ہے؟ تو شاہنواز فارقی کا کہنا تھاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس بقا و سلامتی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں۔ اپنے دائرے میں تعلیم اور ہنر کو فروغ دیں اور ہندو انتہا پسندوں کی مزاحمت کریں۔ یہ مشکل راستہ ضرورت ہے لیکن یہی مسلمانوں کی بقا و سلامتی کا راستہ ہے۔ بلاشبہ بھارت کے مسلمان ایک اقلیت ہیں مگر وہ کوئی معمولی سی اقلیت نہیں ہیں جسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ بھارتی مسلمانوں کی تعداد 25 کروڑ ہے۔ 25 کروڑ لوگوں کو نہ مارا جاسکتا ہے، نہ بھگایا جاسکتا ہے۔ مسلمان متحد ہوکر اور علم و ہنر سے آراستہ ہوکر مزاحمت کریں گے تو بہت بڑی خبر سنیں گے اور دنیا کے لیے اس خبر کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔