میاں شہباز شریف کا دورئہ کوئٹہ چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ کا سنگ بنیاد

وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف کے دورئہ کوئٹہ سے محض چند گھنٹے قبل (22 اپریل) آواران میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملے میں پاک فوج کے میجر شاہد بشیر جاں بحق اور ایک سپاہی زخمی ہوا۔ گویا بلوچستان کے اندر امن کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور حلقوں نے اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں نہیں نبھائیں، بلکہ بعض سیاسی لوگ و گروہ پالیسی کے تحت مثبت قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں جو کسی نہ کسی طور حکومتوں اور سرکاری فوائد و مراعات سے بھی مستفید ہورہے ہیں۔ اگر وہ ان واقعات کو فی الواقع سنگین خرابی سمجھتے ہیں تو بدیہی طور پر اس تخریب و بگاڑ سے نمٹنا تنہا فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کا کام نہیں۔ اس آفت و ابتلا سے سیاسی جماعتیں اور سماج نبرد آزما ہوں تو حل کی راہ میں ضرور رہنمائی حاصل ہوگی۔ کوئی اگر دہشت گردی اور مسلح سیاست کی من مانی تشریح کرتا ہے تو یقینی طور پر حالات مزید خرابی اور تباہی کی طرف جائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر سردار اختر مینگل کا بھائی کالعدم لشکر بلوچستان کے عنوان سے بلوچ نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی راہ دکھاتا ہو، انہیں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی تبلیغ کرتا ہو، اور دوسری جانب اختر مینگل پارلیمانی سیاست کرتے ہوں، مقتدرہ کے ساتھ مل کر صوبے میں کبھی ایک حکومت کے خلاف، تو کبھی دوسری حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا حصہ بنیں، یا کبھی اس ہدایت و گٹھ جوڑ کے تحت تحریک انصاف کی حمایت اور حکومت کی تشکیل میں ساتھ دیں اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کے چیئرمین کے لیے میر حاصل بزنجو پر فوقیت دیں تو یقیناً تضادات اور خرابیاں ہی جنم لیں گی۔ محمود خان اچکزئی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو اپنے لوگ کہہ دیا ہے۔ خیبر پختون خوا میں محسن داوڑ، افراسیاب خٹک اور منظور پشتین وغیرہ کے بیان و کلام میں بھی جھول آچکا ہے، یعنی ان کے نزدیک اگر بلوچستان یا جنوبی و شمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحدی منطقوں میں پاکستانی فورسز کے افسران اور سپاہیوں پر حملے ہوں، انہیں مارا جائے تو بادی النظر میں وہ درست ہے۔ البتہ اگر فورسز یا ادارے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو وہ غلط و نامنظور ہوتی ہے۔ دراصل ان سیاسی و گروہی تضادات نے مسائل کو گمبھیر بنایا ہوا ہے۔ لازمی بات ہے کہ ریاست مخالف سرگرمیاں ہوں گی تو اس کا ردعمل بھی شدید ہوگا۔ گرفتاریاں ہوں گی، آپریشن ہوں گے، لوگ اٹھائے جائیں گے۔ یقیناً دوسری جانب اگر ریاست کی پالیسی اور حکمت عملی ناموزوں ہوگی تو ہر دن پچھلے سے بدتر بنتا جائے گا۔
وزیراعظم شہبازشریف 23اپریل کو ایک روزہ دورے پر کوئٹہ آئے۔ مولانا اسعد محمود اور سردار اختر مینگل ان کے شانہ بشانہ تھے۔ ان کے سامنے لاپتا افراد کا مسئلہ پیش کیا گیا۔ وزیراعظم نے بااختیار لوگوں کے سامنے اس مسئلے کو اٹھانے کی یقین دہانی کرائی۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے انہوں نے بھی سردار اختر مینگل کو یہی کہا کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کرائیں گے۔ لیکن ظاہر ہے جب تک صوبے میں مفاہمت کے لیے کام نہیں ہوگا، تب تک یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اب اسے کیسے حل کرنا ہے اس پر صوبے اور ملک کے سیاسی بڑے مل بیٹھ کر راہ نکالنے کی جستجو و سوچ بچار کریں۔ اختر مینگل اگر اپنے بھائی جاوید مینگل کو لاتے ہیں تو ہوگا یہ کہ بلوچ نوجوان موت و اذیت کا راستہ ترک کریں گے، اور پہاڑوں پر جانے کے بجائے سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں گے۔
یہ بات یقینی ہے کہ اگر کل کلاں سیاسی فضا تبدیل ہوتی ہے تو سردار اختر مینگل بھی پہل کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ دلیل یہی ہوگی کہ میاں شہبازشریف نے لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں کیا۔
ادھر مقتدرہ تمام تر مہربانیوں اور نوازشات کے باوجود حقیقی عوامی آواز پیدا نہیں کرسکی ہے۔ اردگرد ایرے غیرے ہوں گے تو ریاست کا سچ بھی باور نہ کیا جائے گا۔ ان ایروں غیروں کا کام بس بم دھماکوں اور فورسز پر حملوں کے خلاف مذمتی بیانات تک محدود ہے۔ بعض تو اس سے بھی پہلوتہی کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا گیا۔ اس ضمن میں عبدالقدوس بزنجو، جے یو آئی، پشتون خوا میپ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی وغیرہ کا ساتھ دیا گیا۔ لہٰذا اب تک کا نتیجہ بتاتا ہے کہ یہ تبدیلی نہ ہی نیک نامی کا باعث بنی ہے اور نہ ہی ریاست کے مؤقف و بیانیے کو تقویت ملی ہے۔ ان کی پوری توجہ اپنے اہداف اور مفادات کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہے۔ چیف سیکریٹری مطہر نیاز رانا کا تبادلہ اس بنا پر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بعض غیر قانونی کام نہ ہونے دیے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی ظہور آغا کی بطور گورنر تعیناتی ان کے لیے سبکی کا موجب بنی ہے۔ ظہور آغا نے جاتے جاتے صوابدیدی فنڈز کے 20 ملین روپے پر ہاتھ صاف کیا۔ بلوچستان کے اندر فورسز کی تعیناتی بڑی تعداد میں کی گئی ہے۔ فرنٹیئر کور کو شمال اور جنوب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی بلوچستان کے اندر دو آئی جی ایف سی تعینات ہیں۔ اسی طرح انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی آسانی کے لیے صوبے کے دو حصوں کے لیے الگ الگ قائم ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ حملہ آوروں کے لیے وسیع اور دور دراز ریگستانوں، میدانوں، پہاڑی سلسلوں و علاقوں میں تعینات اہلکاروں کو ہدف بنانا مزید سہل بن گیا ہے۔
غرض ہونا یہ چاہیے کہ آئندہ مصنوعی قیادت و نمائندوں کے بجائے اقتدار سیاسی جماعتوں کے حوالے کیا جائے اور پھر وفاق و ریاست ان سے بازپرس کرے۔ صوبہ آئینی ضمانتوں کے تحت خودمختار بنایا جائے۔ صوبے کے وسائل خطے اور عوام پر خرچ ہونے دیے جائیں، ان کے روزگار پر ڈاکا ڈالنا بند کیا جائے، صوبے کو ترقی کی حقیقی شاہراہوں پر گامزن ہونے دیا جائے۔ بدامنی کے نام پر صوبے کو دسترس میں لینے اور امن اور مفاہمت کے لیے دکھاوے اور سطحی جنبش کے بجائے حقیقی قدم اٹھائے جائیں۔ بلاشبہ جب مفاہمت اور اعتماد کی فضا بنے گی تو لاپتا افراد جیسے مختلف النوع سنگین مسائل خودبخود حل ہوں گے۔ بدقسمتی سے اس تناظر میں امید افزا پیش رفت کے امکانات نہیں پائے جاتے۔ رہی بات سیاسی تبدیلی کی، تو مرکز اور صوبے کا مخلوط حکومتی منظرنامہ آئندہ بھی بلیک میلنگ کا رہے گا۔
میاں شہبازشریف نے چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ این 25کو چار رویہ کرنے کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ منصوبہ ڈیڑھ سال میں مکمل کیا جائے گا جس پر 200 ارب روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ جام کمال دور میں منظور و ٹینڈر ہوا تھا۔ ہونا یہ چاہیے کہ یہ، اور صوبے کے دوسری شاہراہیں مزید چوڑی کردی جائیں جس سے سفر میں آسانی اور حادثات میں کمی آئے گی۔ تاہم سردست چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ کی تعمیر و توسیع صوبے کے لیے غنیمت ہے۔