دفتر خارجہ نے افغانستان کی طالبان حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنائے۔ دفتر خارجہ میں افغان ناظم الامور کو طلب کرکے شکایت کی گئی کہ افغان سرحد سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد سرحد عبور کرکے پاکستان کی حفاظتی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں، ان حملوں میں ہمارے متعدد فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دہشت گردوں کی طرف سے سرحد عبور کرکے حملے کرنے کے حوالے سے افغان حکومت سے کئی بار شکایت کی گئی لیکن یہ حملے بند نہیں ہوئے۔ دوسری طرف طالبان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف فضائی حملوں کا الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خوست اور کنڑ میں حملے کیے گئے۔ پاک فوج کی طرف سے سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے حملوں سے تحفظ کی کارروائیوں میں شہادتیں ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ پہلی بار نہیں کہ طالبان حکومت سے شکایت کی گئی ہو، مگر اُدھر سے ابھی تک یہ کارروائیاں جاری ہیں۔ طالبان حکومت کو شکایت دور کرنے کے لیے اپنا اختیار استعمال کرنا ضروری ہے۔ بہتر ہوگا کہ دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر براہِ راست مذاکرات کیے جائیں تاکہ ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھا جاسکے اور مشترکہ طور پر ان سے نبٹنے کی کاوش کی جاسکے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت اور ان کی وزارتِ خارجہ کی نئی ٹیم کے لیے افغانستان میں طالبان کی اسلامی امارت کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ایک بہت بڑا چیلنج رہے گا۔ نئی وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر تجربہ کار تو ہیں لیکن ان کے لیے طالبان حکومت سے تعلقات میں بہتری لانا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالتے ہیں یا حنا ربانی کھر ہی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں گی۔ ویسے تو نئی حکومت بننے کے بعد بھی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں، لیکن طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا پاکستان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ پاکستان میں نئی حکومت ایسے وقت میں بنی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر ہونے والے تشدد کے حالیہ واقعات نے کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ 14 اپریل کو سرحد پار سے ایک حملے میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت سے متعلق فوج کے شعبہ اطلاعاتِ عامہ کے بیان کے ایک دن بعد طالبان حکومت نے کابل میں پاکستانی سفیر منصور خان کو طلب کرکے کنڑ اور خوست صوبوں میں پاکستانی طیاروں کی مبینہ بمباری پر احتجاج کیا۔ افغان حکام کے مطابق ان حملوں میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بے گھر ہونے والے افراد کے ایک کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور خواتین اور بچوں سمیت 40 ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا۔ ٹی وی چینلوں کے مطابق سیکورٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں ٹی ٹی پی کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم سرکاری طور پر پاکستان نے حملوں کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حالیہ ایک بیان میں سرحد پار سے پاکستانی فورسز پر حملوں کا ذکر اور مذمت تو کی گئی لیکن طیاروں کی مبینہ بمباری کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے اسلام آباد میں طالبان کے ناظم الامور سردار احمد شکیب کو طلب کرکے سرحد پار حملوں اور اس سے پہلے بلوچستان میں 7اپریل کو پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر پر افغان سائڈ سے فائرنگ کے واقعے پر بھی پاکستان نے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق ایک گولی ہیلی کاپٹر کو لگی تھی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر میں بلوچستان کے کئی اعلیٰ فوجی حکام سفر کررہے تھے جو ریکوڈک منصوبہ دیکھنے جارہے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرحد پار سے کارروائیاں ہی حالیہ کشیدگی کا بنیادی سبب ہیں۔ ٹی ٹی پی کی شکل میں خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور اس مسئلے کا حل بہت مشکل ہے۔ پاکستان کے لیے یہ چیلنج اس لیے بڑا ہے کیونکہ افغان طالبان افغانستان میں پاکستان مخالف مسلح گروپوں کی موجودگی اور کارروائیوں سے متعلق دعووں سے بالکل بھی متفق نہیں۔ افغانستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے 19 اپریل کو اپنی ایک رپورٹ میں کچھ سوال اٹھائے ہیں۔ سرکاری ذریعہ ابلاغ باختر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسلامی امارت ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مسئلے کے اس حل کی حمایت کرتی ہے جو پاکستانی عوام اور خطے کے مفاد میں ہو، لیکن ہوائی حملے، میزائل حملے اور افغان مہاجرین پر سیاسی مقاصد کے لیے دباؤ افغان عوام کے جذبات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس سے پاکستان کو احتراز کرنا چاہیے۔ پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مسائل اور غلط فہمیوں کو تعمیری مذاکرات سے حل کرنا چاہیے تاکہ خطے میں امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ خوست میں بمباری سے پاکستان اور طالبان حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے جس نے طالبان حکومت کو بھی ایسی حالت میں مزید ایک مشکل میں ڈال دیا ہے جب وہاں خراب اقتصادی حالت، امریکی پابندیوں، بین الاقوامی تنہائی اور سیکورٹی مسائل طالبان کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔19 اپریل کو کابل میں ہزارہ کمیونٹی کے اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان مشکل حالات میں طالبان کو مزید مشکل میں ڈالنا پاکستان کی اپنے اس دیرینہ مؤقف سے روگردانی تصور کی جائے گی کہ دنیا افغانستان کوانسانی بحران سے بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو طالبان حکومت سے بہت احتیاط سے چلنا پڑے گا۔ طالبان حکومت کو بھی پاکستان میں حالیہ دنوں میں بڑھتے حملوں کے نتیجے میں جانی ضیاع پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں، طالبان کی ہر وقت تردید والی پالیسی پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ امریکہ، چین، روس، ایران اور مرکزی ایشیائی ممالک کی افغان سرزمین پر شدت پسندوں کی موجودگی سے متعلق تشویش موجود ہے۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ معاہدے کے تحت بھی طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو۔ طالبان رہنماؤں کے صرف بیانات کافی نہیں، اگر اقوام عالم کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات کے ساتھ چلنا ہے تو دوسروں کی تشویش پر توجہ دینی پڑے گی۔ طالبان کو ایک شکایت پیدا ہوئی جس کی وجہ بمباری کا واقعہ ہے۔ افغان سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس واقعے کے باوجود مسائل کے حل کے لیے دو طرفہ ڈائیلاگ کا راستہ تجویز کیا گیا۔ طالبان حکومت کے وزیراعظم (رئیس الوزرا) ملا حسن نے وزیراعظم شہبازشریف کے نام ایک پیغام بھیجا کہ شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور ترقی، خوشحالی اور اچھے تعلقات کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔ طالبان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے پاکستان کو بھی حالات کی نزاکت اور طالبان حکومت کی مشکلات کو دیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔