الہان عمر کنٹرول لائن پر امریکہ دوبارہ کشمیر کارڈ کھیلنے کو تیار؟

امریکہ کی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی مسلمان رکن الہان عمر نے دورۂ پاکستان کے اہم مرحلے میں آزاد کشمیر کا دورہ بھی کیا۔ وہ کنٹرول لائن پر آزاد و مقبوضہ علاقوں کو ملانے والے چکوٹھی کے کمان پل پر گئیں اور کئی برسوں سے منقسم خاندانوں کی آمدورفت کے لیے بند پڑے پل کے دروازے کی جالیوں سے مقبوضہ علاقے کو دیکھتے ہوئے ان کی ایک وڈیو بھی سامنے آئی۔ الہان عمر نے صدر آزادکشمیر سلطان محمود چودھری سے ملاقات بھی کی اورمشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے علاوہ مہاجرین کے ایک وفد سے بھی ملیں۔ انہوں نے مہاجرین کشمیر سے بھی ملاقات کی۔ الہان عمر کی آزادکشمیر آمد پر بھارت میں چیخ پکار برپا ہوئی، یوں لگا کہ بھارت کی دُم پر الہان عمر کا پائوں آگیا ہو۔
الہان عمر اس وقت امریکی کانگریس کی دو مسلمان خواتین میں شامل ہیں۔ انہوں نے کانگریس میں اسلاموفوبیا کی روک تھام کے لیے ایک بل بھی پیش کیا ہے۔ الہان عمر کئی مواقع پر کشمیر کے حوالے سے بات کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے بدترین لاک ڈائون کے دوران کشمیر میں مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح امریکہ کے دہلی میں سفیر کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کے حالات کی بہتری کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ الہان عمر کشمیر، فلسطین اور بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر بھی بات کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت الہان عمر سے خار کھاتا ہے۔ اب الہان عمر نے آزادکشمیر اور بالخصوص کنٹرول لائن کا دورہ کرکے بھارت کو مزید مشتعل اور خوف زدہ کیا ہے۔ ایک بھارتی نے ٹویٹ کیا کہ الہان عمر کو بھارت میں نہیںآنے دینا چاہیے۔ دورۂ پاکستان سے پہلے اور بعد ان کے اکائونٹ چیک کیے جانے چاہئیں۔ ایک اور شخص نے لکھا کہ الہان عمر بھارت کے خلاف سازش کررہی ہیں، ان جیسے علیحدگی پسندوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے روکنا چاہیے۔
الہان عمر کا دورۂ آزادکشمیر خاصا معنی خیز ہے۔ گوکہ اس بات کا اندازہ نہیں کہ الہان عمر نے یہ دورہ قطعی طور پر ذاتی حیثیت میں کیا، یا انہیں کسی سطح پر امریکی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ گوکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ الہان عمر نے امریکی حکومت کی نمائندہ کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ مگریہ دورہ اس لحاظ سے ذاتی نہیں ہوسکتا کہ اس وقت امریکہ کی کشمیر پالیسی بڑی حد تک بھارت کی خواہشات کے تابع ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے کلی زیراثر ہے۔ اس ماحول میں ایک مسلمان رکن کانگریس جو پہلے ہی اپنی جرأتِ اظہار کے لیے ہدفِ تنقید ہو، حکومت کی پالیسی سے انحراف کرکے بھارت کو ناراض کرنے کا بڑا قدم نہیں اُٹھا سکتی۔ ہو نہ ہو اس دورے کو امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اس کا تعلق کشمیر کی صورتِ حال سے زیادہ بھارت کی موجودہ پالیسی سے ہے۔ بھارت اس وقت امریکہ کی یوکرین اور روس پالیسی کو من وعن قبول کرنے سے صریح انکاری ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کھل کر روس پر مغربی پابندیوں کا ساتھ دے اور روس سے تیل کی خریداری ختم کرے۔ بھارت اس دبائو کی کھل کر مزاحمت کررہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ اور بھارت میں 2+2مذاکرات کا اہم نکتہ یہی تھا، جس میں ایک طرف امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع تھے، تودوسری جانب ان کے بھارتی ہم منصب تھے۔ اس ملاقات کے بعد امریکہ اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے جو مشترکہ پریس کانفرنس کی اس میں اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان روس پالیسی کے حوالے سے کوئی خاص اتفاقِ رائے نہیں ہوا، کیونکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پریس کانفرنس کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ کو ٹکا سا جواب دیا کہ اگر آپ روس سے بھارت کے تیل خریدنے کی بات کررہے ہیں تو آپ کو اپنا اصل فوکس یورپ پر رکھنا چاہیے جو روس سے ہم سے زیادہ تیل خرید رہا ہے۔ یہ برسرِ محفل امریکہ کو ’’نومور‘‘ کہنے کے مترادف تھا۔ امریکہ کے مخفی دبائو کے باوجود بھارت اس کے قابو میں نہیں آرہا۔ بھارت کو خوف ہے کہ خود کو امریکی جھولی میں ڈالنے سے وہ اپنے علاقائی ہمسایوں کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے گا اور اسے علاقے میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت کو یہ اندازہ بھی ہوگیا کہ اگر اس کے معاملات چین یا روس سے بگڑ گئے تو امریکہ اس کی عملی مدد کو نہیں آئے گا۔ ایسے میں امریکہ بھارت کا بازو مروڑنے کا روایتی انداز اختیار کرنا چاہے گا۔ اس کے لیے بھارت کا نرم پیٹ کشمیر ہے۔ امریکہ کشمیر کی حمایت میں کچھ سرگرمی دکھا کر وہ پرانا کارڈ کھیل سکتا ہے جو سوویت یونین کے انہدام کے وقت کامیابی سے کھیل چکا ہے۔ سوویت یونین کا اتحادی ہونے کی وجہ سے بھارت امریکہ سے تعلقات کے قیام اور اسے اپنے ہاں آزادانہ رسائی دینے سے گریزاں تھا۔ امریکہ نے بھارت کا بازو مروڑنے کے لیے کشمیر کارڈ کو جم کر استعمال کیا۔ امریکی وفود آزادکشمیر کے دورے کرتے رہے، کنٹرول لائن کا جائزہ لیتے رہے۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد میں امریکہ کا ایک خاموش کردار تھا۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر سے ہی امریکہ نے یہ تاثر دیا کہ وہ جلد ہی کشمیر کو ایک خودمختار ریاست بنانے والا ہے۔ امریکہ کا میڈیا اور انسانی حقوق سے وابستہ شخصیات اور ادارے بڑھ چڑھ کر کشمیر کی حمایت میں بولتے رہے۔ بھارت امریکہ کے دبائو میں آکر امریکہ کے مطالبات مانتا چلا گیا تو اسی رفتار سے امریکہ کشمیر سے لاتعلق ہوتا چلا گیا۔ نائن الیون کے بعد تو امریکہ کا کشمیر سمیت آزادی کی تمام تحریکوں سے رویہ معاندانہ اور مخالفانہ ہوگیا۔ یوں امریکہ نے کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک کارڈ کے طور پر کامیابی سے استعمال کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرلیا۔ اب امریکہ دوبارہ کشمیر کارڈ استعمال کرکے بھارت کو روس پالیسی میں تبدیلی لانے پر مجبور کرسکتا ہے۔ عین ممکن ہے امریکہ کی طرف سے کشمیر پر کئی خوش کن اور حوصلہ افزا بیان سامنے آتے رہیں۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے ان بیانات اور سرگرمیوں سے زیادہ خود فریبی کا شکار ہونے سے گریز میں ہی عافیت ہے۔