ابر آلود سیاسی افق

شہباز حکومت اور سانپ سیڑھی کا سیاسی کھیل

تحریکِ عدم اعتماد کے سارے عمل کے دوران جو دھول مٹی اڑی تھی، تین ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی تک بیٹھ نہیں رہی، اگرچہ حکومت کھو جانے پر تحریک انصاف کے ردعمل میں کچھ کمی واقع ہوچکی ہے، تاہم ملک کا سیاسی افق ابھی تک ابر آلود ہے۔ یہ مطلع کب تک صاف ہوگا اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک انصاف اس وقت اپوزیشن جماعت کے طور پر دوکام کررہی ہے، پہلا یہ کہ جس قوت کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی اسی سے دوبارہ رشتہ جوڑ لیا ہے اور بات چیت شروع کردی ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔ یہ ٹاسک پرویز خٹک کو سونپا گیا ہے۔ دوسرا حربہ یہ ہے کہ حکومت پر نفسیاتی دبائو بڑھاتی چلی جائے گی۔ یہ حکمت عملی اس کی انتخابی مہم کا حصہ بھی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ تھا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اب یہ بیانیہ عمران خان نے اپنا لیا ہے۔ عمران خان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ’’سازش اور مداخلت‘‘ کے بیانیے کو ایک حد سے زیادہ نہ لے کر چلیں۔ اس مشورے کے بعد تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں ’’امریکی غلامی سے آزادی‘‘… ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘…’’کرپٹ اشرافیہ اور 30 سال سے آزمائے ہوئے لوگ نامنظور‘‘ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ اسے ایک اہم کیس کا بھی سامنا ہوسکتا ہے، اس ضمن میں عارف نقوی کیس بہت اہمیت کا حامل ہے۔ عارف نقوی تحریک انصاف کی مالی معاونت کرنے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا 70فیصد سے زائد خرچ انہوں نے ہی اٹھایا تھا۔ اِن دنوں عارف نقوی مسائل کا شکار ہیں۔ وہ جب دیوالیہ ہوئے تو عمران خان نے بھی ان کے ساتھ مراسم ختم کر لیے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ’’امریکی سازش‘‘ کا جو بیانیہ اپنایا ہے، بعض لوگ اسے عارف نقوی کے اس کیس سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ امریکی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عارف نقوی نے گروپ کے فنڈز میں رقم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو دی، چنانچہ عمران خان نے پیش بندی کے طور پر امریکی سازش کا بیانیہ اپنا لیا ہے، تاکہ جب امریکہ کی طرف سے ان کا نام اس کیس میں لیا جائے تو وہ پہلے سے اس کے خلاف تیار ہوں اور اسے اپنے خلاف امریکی سازش کی اگلی کڑی قرار دے سکیں۔
دوسری جانب ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ 13 جماعتی اتحاد حکومت میں آکر آگ میں جھلس رہا ہے، تاہم شہبازشریف حکومت آہستہ آہستہ ٹیک آف کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سفارتی خط کا دوبارہ جائزہ لیا گیا، اور اعلامیہ جاری ہوا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی بلکہ خط دراصل ایک مراسلہ ہے اور سازش سے اس کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ اعلامیہ دراصل شہبازشریف حکومت کی ضرورت کم اور دفتر خارجہ کی ضرورت زیادہ تھا کہ ہماری سفارتی ڈپلومیٹک کور مراسلہ ایک جلسے میں لہرائے جانے پر تحفظات ظاہر کرچکی تھی، اور حکومت یہ بات باور کرا چکی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی تمام جمہوری ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی آئینی عمل کے تحت واقع ہوئی ہے، اسی لیے عالمی برادری نے اسے تسلیم کیا ہے اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں دلچسپی لی ہے۔ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے بعد سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کا مطالبہ کررہی ہے جب کہ جانتی ہے کہ کمیشن صرف وفاقی حکومت ہی بنا سکتی ہے، سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ عمران خان کے پاس کمیشن بنانے کا اختیار تھا مگر انہوں نے یہ اختیار استعمال ہی نہیں کیا، عین آخری لمحے ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا مگر انہوں نے کمیشن کی سربراہی لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ انکار کیوں ہوا ہے؟ بہرحال اب قومی سلامتی کمیٹی نے جس میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی، وزیر مملکت برائے امور خارجہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں افواج کے سربراہان، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور اعلیٰ سول و فوجی حکام شریک ہوئے، اور سابق سفیر اسد مجید خان نے کمیٹی کو اپنے ٹیلی گرام کے مندرجات اور پس منظر کے بارے میں بریفنگ دی، کمیٹی کو کلیدی سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر دوبارہ آگاہ کیا کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ان تمام امور کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے مواد اور کمیونی کیشن کی جانچ کے بعد اپنے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کردی۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا یہ مؤقف بالکل درست نظر آتا ہے کہ سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے سامنے لایا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے صراحت کی ہے کہ سفیر اسدمجید خان نے قومی سلامتی کمیٹی کو سائفر ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بریف کیا اور اپنے پیشہ ورانہ جائزے سے آگاہ کیا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے علی الرغم عدالتی کمیشن کے ذریعے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا ہے۔
تحریک انصاف امریکی غلامی سے نجات کا جو نعرہ لگا رہی ہے لوگ اس نعرے کے پیچھے ہیں اور عوام میں اس کی بدترین حد تک ناقص کارکردگی پر بات نہیں ہورہی۔ اسی لیے وہ ناقص کارکردگی کا حساب دینے کے بجائے اسی بیانیے کو آگے بڑھائے گی۔ مسلم لیگ (ن) اس کا توشہ خانہ کیس ا چھالے گی۔ تحریک انصاف کے مقابلے میں دوسری حقیقت یہ ہے کہ عمران حکومت کی معاشی بدحالی اور بڑھتی مہنگائی کا بوجھ شہباز حکومت کے کندھے پر آگیا ہے۔ شہبازشریف حکومت تیرہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے، اسے سب سے بڑی آزمائش پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی طر ف سے ہے، دیگر گروپس کے اپنے اپنے مسائل اور مطالبات ہیں، جنہیں پورا کرنا کسی بھی حکومت کے بس کا کام نہیں۔ پیپلزپارٹی یہ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اسے پنجاب میں داخل ہونے کے لیے جگہ فراہم کرے، صدرِ مملکت اور گورنرز کے علاوہ اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کے آئینی عہدوں پر تقرری کے لیے پیپلزپارٹی کی حمایت کرے اور آئندہ انتخابات میں پنجاب میں قومی اسمبلی کے کم از کم بیس حلقے اس کے لیے خالی چھوڑ دے، اور جواب میں مسلم لیگ(ن) سندھ کی جانب نہ دیکھے بلکہ سندھ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے فری رکھا جائے۔ بلاول بھٹو اور نوازشریف کی لندن میں ہونے والی ملاقات کا بنیادی ایجنڈا یہی تھا۔ لندن میں بلاول نوازشریف ملاقات کا سارا جوہری نچوڑ یہی ہے کہ اگلا دور پیپلزپارٹی کا ہوگا، مسلم لیگ(ن) اس کے بدلے میں اپنے لیے سیاسی رعایتیں حاصل کرے گی اور اگلے پانچ سال کے لیے انتظار کرے گی، کیونکہ فی الحال مسلم لیگ(ن) کے لیے قبولیت کی سند ملنا مشکل ہے۔ جے یو آئی تیرہ جماعتی اتحاد کی ایک اہم جماعت ہے، یہ ڈپٹی اسپیکر شپ اور چار وزارتیں لینے کے بعد بھی مزید چاہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی صدر مملکت کے عہدے کے امیدوار ہیں۔ حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں متحدہ، بی این اپی اور ’باپ‘ پیپلزپارٹی کے ساتھ مستقبل کی سیاسی حکمت عملی طے کر چکی ہیں، لہٰذا یہ شہباز حکومت کے ساتھ سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتی رہیں گی، اور شہبازشریف کا سارا وقت کسی نہ کسی اتحادی کو منانے میں گزر جائے گا۔ مسلم لیگ(ن) بھی اپنی حکمت عملی طے کررہی ہے، اس کے فیصلے نوازشریف کے بعد مریم نوازشریف کے ہاتھ میں ہیں۔ مریم نواز یہ سمجھتی ہیں کہ شہبازشریف کی وزارتِ عظمیٰ اور سیاست نوازشریف کی مرہونِ منت تو ہے تاہم وہ ایک طاقت ور گھاٹ کا پانی پینے کے بھی خواہش مند رہتے ہیں، لہٰذا وہ چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) جب فیصلہ کرے تو اپنی قیمت بھی وصول کرے، اسی لیے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو سیاسی جگہ دینے کے لیے مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز رضامند نہیں ہوں گی۔
آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی بلاول اور آصف علی زرداری کے پیچھے کھڑی ہے، اور مسلم لیگ(ن) شہبازشریف کے بجائے مریم نواز کے پیچھے کھڑا ہونا چاہتی ہے، وہ فکرمند ہے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ن) سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستیں مانگ لیں تو مسلم لیگ(ن) کا حجم پنجاب میں سکڑ سکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں مریم نواز گروپ کابینہ میں اپنے حصے سے بھی مطمئن نہیں ہے، لہٰذا وہ حکومت پاکر بھی غیر مطمئن ہے، اس لیے یہ گروپ سعودی عرب میں اپنی پارٹی کی اہم مشاورت میں بہت ٹف لائن لے گا۔ مسلم لیگ(ن) میں یہ گروپ سمجھتا ہے کہ حکومت شہبازشریف کا امتحان اور بہت بڑی آزمائش ہے، یہ آزمائش شہبازشریف نے خود خریدی ہے، اور اب وہ بندھے ہوئے ہاتھوں اور کاندھوں پر اتحادیوں کا بوجھ اٹھائے اور وکٹری اسٹینڈ سے دور کھڑے نظر آرہے ہیں۔
حکومت کو آئندہ 3 ماہ میں ادائیگی میں توازن کے بحران سے بچنے کے لیے 12 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں، اور آئندہ 7 برسوں میں 10سے 11 ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے علاوہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی قرضہ لینا ہوگا، لہٰذاآئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام بحال ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے موجودہ بیرونی قرضے 102 ارب ڈالر ہیں جن میں 50ارب ڈالر صرف پی ٹی آئی حکومت نے لیے ہیں۔ اب ملک میںغربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے گھمبیرمسائل کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں رہا، اب حکومت جانے اور مہنگائی۔ تحریک انصاف تو صرف سیاست کرے گی، ذمہ داری اب مسلم لیگ(ن) کے کندھے پر ہے جسے پیٹرول کے نرخ نہ بڑھانے پر دو ماہ میں 96ارب کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے اور یہ رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے دوگنا ہے۔ معاشی خلا اور زرمبادلہ کی کمی دور کرنے کے لیے چین اور سعودی عرب سے ایک بار پھر امید لگائی جارہی ہے، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون ختم کیا جارہا ہے۔ عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی خودمختاری کا سودا کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک ریٹائرڈ ہونے والے ہیں اور ان کی خدمات مزید درکار نہیں، اگر حکومت آئی ایم ایف کی گود سے نکال کر اسٹیٹ بینک کی قومی خود مختاری بحال کردیتی ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔