جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا، لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائے گا اسے زیادہ تازہ ہوا، زیادہ فرحت اور زیادہ خوشی حاصل ہو گی، لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگا تو اسے پتا چلا کہ بلندی پر جاتے ہوئے اسے نسبتاً کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اس شدید گھٹن سے بچنے کے لیے ہوائی جہازوں میں مصنوعی طور پر آکسیجن پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور تھا نہ آکسیجن اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کا، لیکن قرآن مجید میں یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے:
’’پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جارہا ہے)۔‘‘ (الانعام: 125)
(ماہنامہ چشم بیدار،اپریل2019ء)