حکیم مومن خان مومنؔ کا شعر ہے:
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
حکیم جی اپنے عہد کے مردِ مومن، مردِ حق تھے۔ امیر تحریکِ مجاہدین سید احمد بریلوی شہیدؒ کے مرید۔خیر، ان کی کہانی پھر سہی۔ آج تو آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ مومنؔ کے یارِ طرح دار و زلف بردار کا پاؤں اپنی زلفِ دراز میں پھنسا ہو یا نہ پھنسا ہو، مگر صاحب! ہم خود اپنے دام میں پھنس گئے ہیں۔ جب کہ ہماری زلفیں بھی اِتّی اِتّی سی ہیں۔
پچھلے کالم میں دھیلے، دمڑی، چھدام اورچمڑی کی باتیں ہوئیں تو مالیگاؤں، ضلع ناسک، مہاراشٹر (بھارت) سے شکیل جمیل حسن مومن نے استفسار کیا:’’لفظ دمڑی دام کی تصغیر ہے یا امریکی سکے Dime کی؟‘‘
پہلے تو ہم ڈرے کہ شاید تین چار بھائیوں نے مل کر ایک ساتھ ہم پر دھاوا بول دیا ہے، مگرغورکیا تو پتا چلا کہ جناب شکیل جمیل حسن مومن اکیلے ہی پوچھ رہے ہیں، فردِ واحد ہیں۔ صاحبو! اگر یہ صاحب اپنے اسی نام سے کسی کو نہلا ڈالیں تو بچارا ڈر کے مارے فوراً فوت ہو جائے کہ ’لوجی! چار بھائیوں نے نہلا دیا‘۔ ہم نے کہیں سے سناتھا کہ مہاراشٹر ہی کے مصروف کاروباریوں کی حالت دیکھ کر مثل مشہور ہوئی:
’’یا نہلائے دائی یا نہلائیں چار بھائی‘‘۔
شکریہ حضور کہ آپ نے ہمارے کالم میں آکر چار چاند لگادیے۔ عرض یہ ہے کہ “Dime” تو امریکی نقدی میں دس سینٹ کا سکہ ہے۔ ایک ڈالر کا دسواں حصہ۔اس کی جتنی بھی تصغیر کیجیے اور جتنی بار بھی کیجیے، یہ دمڑی نہیں بن پائے گا، رہے گا کم بخت ڈائم کا ڈائم۔
دَمڑی نہ بن پانے پر ’بننے بنانے‘ سے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا۔
کسی نے بچے سے پوچھا: ’’ڈَینِس میاں! یہ بتائیے کہ تانبے کا تار کیسے بنا؟‘‘
ڈینس میاں امریکی معاشرے کے نہایت بُوجھ بُجھکڑ بچے تھے۔ سو، اپنے مشاہدے کے مطابق جھٹ قیاس کیا:
’’دو یہودی ساہوکاروں کے مابین ایک سینٹ کے سکے پر کھینچا تانی ہو گئی ہوگی‘‘۔
ہمارے ہاں کے ساہوکاروں میں بھی سینیٹ کی ایک سیٹ پرکھینچا تانی ہو جاتی ہے،نتیجۃً ’صداقت و امانت‘ کی صفت تار تار۔
Dime کا تعلق در اصل Decimal سے ہے۔ دسواں حصہ، عشری یا اعشاریہ۔جب کہ دمڑی ایک پیسے کا چوتھائی حصہ ہوتی تھی۔ چار دمڑیوں کا پیسہ بنتا تھا۔آپ کا خیال درست ہے کہ ’دمڑی‘ دام کی تصغیر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چمڑی چام کی تصغیر ہے۔ ’چام‘ چمڑے کو کہتے ہیں۔’دام‘ در اصل اکبر بادشاہ کے زمانے میں تانبے کا سکہ تھا جو روپے کے چالیسویں حصے کے برابر تھا۔مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم کے قول کے مطابق پیسے کے پچیسویں حصے کو بھی ’دام‘ کہا جاتا تھا۔ ہمایوں بادشاہ کے عہد میں نظام سقہ نے اپنی ڈھائی دن کی بادشاہت میں چمڑے پر سونے کی کیلیں جَڑ کر ’چام کے دام‘ بھی چلا دیے تھے۔
رابغ سعودی عرب سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب رقم طراز ہیں:
’’دام بھی ایک سکہ تھا، شیر شاہ سوری کے زمانے میں۔چھدام چھے داموں کے برابر کا سکہ تھا، جو پیسے سے چھوٹا اور دمڑی سے بڑا ہوتا ہوگا۔لفظ دمڑی اسی دام سے آ رہا ہے۔اب بھی قیمت پوچھنی ہو تو دام ہی پوچھتے ہیں۔ دام غالباً یونانی ’ڈریکما‘ (Drachma) سے مشتق ہوگا کہ سکوں کا رواج یونانیوں کے آنے کے بعد زیادہ ہوا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ “I don’t give a damn” میں ’ڈیم‘ اصلاً دام ہی ہے جو بعد میں انگریزی لفظ Damnسے تبدیل ہو گیا۔دام، درہم اور درام سب یونانی لفظ ڈریکما سے مشتق ہیں‘‘۔
ہر چند کہ ’دام‘ نامی سکہ اب رائج نہیں رہا، مگر اپنے دام میں سب کو پھنسا گیا۔ سب کے سب ’’درم و دام کے بندے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ چچا غالبؔ سے بھی شاید کوئی ’بندۂ درم و دام‘ کچھ قرض مانگنے آیا تو چچا نے اُسے اپنا دامن جھاڑ کر دکھا دیا:
درم و دام اپنے پاس کہاں؟
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟
دنیا میں درم و دام کے بندے تو بہت ہیں، مگر کچھ لوگ بندۂ بے دام بھی ہوتے ہیں۔ایسے غلام جنھیں اپنے آقا سے درم و دام کی طلب نہیں ہوتی۔ بے لوث خادم ہوتے ہیں۔ بندۂ بے دام تو سمجھ میں آگیا۔ لیکن جو لوگ کسی کے ’بے دام مرید‘ ہو جاتے ہیں وہ کیسے بنتے ہیں؟ کیا ایسے لوگوں کو پیر صاحب کوئی دام لیے بغیر ہی مرید بنا لیتے ہیں؟
ایوانِ حکومت میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ ’آم کے آم‘ کھا جانے کے بعد ’گٹھلیوں کے دام‘ بھی کھرے کرنے کے چکر میں توشہ خانے کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ ’’دام کھرے کرنا‘‘ محاورہ ہے۔ مطلب ہے کوئی چیز بیچ کر اس کے عوض نقدی لے لینا۔ مگردام کھرے کرنے سے پہلے ’دام لگنے‘ کا مرحلہ آتا ہے۔ پچھلے دنوں بڑے بڑے لوگوں کے بہت بڑے بڑے دام لگے۔ دام کس کے لگتے ہیں؟ میکشؔ بدایونی اپنا ایک تجربہ یوں بیان کرتے ہیں:
مناسب دام لگ جائیں تو خوبانِ پری چہرہ
بدن کے لوچ اور زلفوں کے خم تک بیچ دیتے ہیں
القصہ مختصر ، دام کے دام میں سب پھنس چکے ہیں۔اُس ’دام‘ سے بھی سب ہی آگاہ ہیں جس میں پھنسنا پڑتا ہے اور جس کا مطلب جال یا پھندہ ہوتا ہے۔ اس پر زیادہ گفتگو کیا کریں؟ فضل احمد کریم فضلیؔ کہتے ہیں:
کون آتا نہیں ہے کسی دام میں
میں نے دھوکا اگر اُن سے کھایا تو کیا؟
پرانے بزرگوں کے خطوط میں اور پُرانے بزرگوں کے ناموں کے ساتھ لکھے القاب میں آپ کو ایک لفظ ’دامَ‘ بڑی کثرت سے ملے گا۔ دامَ اقبالہٗ، دامَ ظلہٗ ، دامَ مجدہٗ وغیرہ۔ یہ دامَ عربی سے آیا ہے۔ اس کا مطلب ہمیشگی یا دوام ہے۔ وہی ناصرؔ کاظمی والی خیالی ہمیشگی:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا
’دائم آباد‘ رہنے پر یاد آیا کہ پرانے زمانے کے بزرگ ’زندہ باد‘ کی طرح ایک دعا دیا کر تے تھے’دائم باد‘۔ جو کہ ’’دائم آباد‘ ہی کا مخفف ہے۔ ’دائم باد‘ کا مطلب ہے ’ہمیشہ رہو‘ جو کہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جیسے ہمارے لڑکپن میں بعض بزرگ حُکمیہ انداز یا صیغۂ امر میں ہمیں دعا دیا کرتے تھے کہ ’خوش رہو‘۔ جس پر ہم منہ بسور کر کہا کرتے تھے: ’’جی اچھا!‘‘
اسی ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ نور اللغات والے مولوی نور الحسن نیرؔ مرحوم کی تحقیق کے مطابق یہی ’دائم باد‘ہنددوستان میں آکر ’داماد‘ بن گیا، جس کا سرفراز شاہدمرحوم کو شدت سے انتظار تھا ۔ کہتے تھے:
آ کے داماد نکالے گا اکڑفوں ساری
آدمی مرد کا بچہ ہے سسر ہونے تک