کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت

ایک جائزہ

محنت اور اجرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اجرت سے مراد کارکنوں کے وہ تمام واجب الادا معاوضے ہیں ،جو نقد کی صورت میں شمار ہوں۔اجرت کسی کارکن کے فی گھنٹہ ،فی یوم ،فی ہفتہ اور فی مہینہ کام کے عوض بھی ہوسکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مزدور اور مالکان کے حقوق و فرائض کو واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر فریق محنت کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کرے۔ اگر اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ شریعت مطہرہ نے صدیوں پہلے ظلم کی چکی میں پسنے والے محنت کشوں کو نہ صرف ان کا جائز حق دیا بلکہ مالکان کو بھی پابند کیا کہ وہ محنت کشوں کو کوئی کمزور تر مخلوق نہ سمجھیں، جب کسی مزدور سے کام لیا جائے تو اس کی جائز اجرت فوراََادا کردی جائے۔
اسی طرح بانی پاکستان قاعد اعظم محمد علی جناح کے بھی جاگیرداری، معیشت اور محنت کشوں کے معاشی حقوق کے بارے خیالات اور نظریات بالکل واضح تھے۔انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے ایک تاریخی خطاب میں واضح طور پر کہا تھا کہ’’ پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی ۔میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چا ہوں گا کہ جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اس قدر بے حس اور خود غرض بنادیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے اور وہ اسلامی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لئے بنایا جا رہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے ‘‘۔ (24،اپریل 1943ء مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے تاریخی خطاب)۔
لیکن افسوس صد افسوس قیام پاکستان کے بعداسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں آج بھی اپنا خون پسینہ بہاکر اپنی روزی روٹی کمانے والے لاکھوں محنت کشوں کا بدترین معاشی استحصال کرتے ہوئے آجران اور مالکان کی جانب سے انہیں ان کی جائزاور منصفانہ اجرت ادا نہیں کی جاتی اوربالادست طبقہ نہ صرف ان کی محنت بلکہ جائزاجرت بھی چوری کرتا ہے۔ اگران کارکنوں کو اجرت دی بھی جائے تو اس قدر قلیل کہ محنت کش کو اپنے معاوضہ کی حقیر رقم دیکھ کردوبارہ پسینہ آجائے۔دیکھا جائے تو وطن عزیز کے ارباب واختیار، سرمایہ دار،سیٹھ صاحبان اور مالکان باہم مل کر اپنے اداروں کی ترقی وترویج میں شب و روز خون پسینہ ایک کرنے والے ان لاکھوںمحنت کشوں کی اجرتیں چوری کر کے نہ صرف عظیم اسلامی تعلیمات بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے فرمان اور مروجہ ملکی قوانین محنت کا صاف صاف منہ بھی چڑارہے ہیں۔لیکن اس طاقت ورطبقہ کے سامنے حکومت، عدلیہ ،سیاسی و مذہبی جماعتیںاورذرائع ابلاغ سب بے بس نظر آتے ہیں۔
اگر اس مسئلہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ملک میں صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر نجی اداروں میں خدمات انجام دینے والے ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکنوں کے لئے منصفانہ اجرتوں اور کم از کم اجرتوں کا تعین ہمیشہ آجران اور کارکنوں کے مابین ایک دیرینہ تنازعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کی ایک جھلک رواں مالی سال کے سالانہ بجٹ میں حکومت سندھ کی جانب سے وفاق اور چاروں صوبوں کے مقابلہ میں صوبہ میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے کم ازکم اجرت 25,000روپے کرنے کے اعلان کے بعد آجر برادری کی جانب سے آنے والے سخت رد عمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس کے باعث ایک سنگین تنازعہ سا کھڑا ہوگیا ہے اوراس کی بازگشت عدالت عالیہ سندھ سے لے کر عدالت عظمیٰ پاکستان تک سنی گئی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے لاکھوں کروڑوںکارکنوں اور ملازمین کی اجرتوں کے معاملہ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تومحض اپنے سالانہ بجٹ میں کم از کم اجرت کی مد کو مدنظر رکھتے ہوئے محض دکھاوے کے طور پر اعلان کرتے ہیں اب آجران اور مالکان حکومتوں کے اس فیصلہ پر عمل پیرا ہوں یا نہ ہوں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اس تشویشناک صورت حال کے باعث ملک کے صنعتی ،کاروباری اور دیگرشعبوں میں حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرتوں کا اعلان ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
اسی طرح کی مثال پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی دیکھنے میں آئی، جہاں اگرچہ کارکنوں کے لئے کم از کم اجرتوں کا قانون 1948ء میں منظور کیا گیا تھا۔لیکن گزشتہ برس جب دہلی حکومت کی جانب سے کارکنوں کی کم از کم اجرت میں اضافہ کے خلاف ملک کی 44آجر انجمنوں نے مشترکہ طور پردہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کردی تھی۔ جس پر عدالت نے دہلی حکومت کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی کارکنوں اور ملازمین کے حقوق کی محافظ دہلی حکومت بھی اس معاملہ پر آخر دم تک ڈٹی رہی اور اس نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔جس پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے بالآخر دہلی حکومت کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے اس کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم اجرت کے حق میں فیصلہ صادر کردیا تھا۔لیکن ہمارے ہاں کم از کم اجرت کا معاملہ ہنوز طے طلب ہے۔
اسی طرح ملک کے سابقہ مشرقی حصہ اور اب عوامی جمہوری بنگلہ دیش میں حکومت کی جانب سے تمام آجران اور مالکان کے لئے کم از کم اجرت کی ادائیگی لازمی قرار دی گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں آجران اور مالکان مستوجب سزا ہیں۔بنگلہ دیش میں تمام شعبوں کے کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت 1500ٹکہ ماہانہ مقرر ہے۔جبکہ گارمنٹس کارخانوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے اس کی شرح 5,300ٹکہ ماہانہ مقرر ہے ۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ محنت (ILO)کے مطابق کم از کم اجرت سے مراد ایسا سب سے کم از کم معاوضہ ہے جو کوئی آجر قانونی طور سے اپنے ملازمین کو ادا کرسکتا ہے اوراس سے کم معاوضہ پر کوئی کارکن اپنی مزدوری فروخت نہیں کرسکتا۔20ویں صدی کے اواخر میں مغربی دنیا کے بیشتر ممالک نے کارکنوں کی کم از کم اجرت کے تعین کے لئے قانون سازی متعارف کرائی تھی۔ کیونکہ کم ازکم اجرتوں کے نفاذ کے بعد مزدور اخراجات میں اضافہ کے باعث اکثر صنعتی اور کاروباری ادارے کم از کم اجرت قانون سے گریز کرتے ہوئے اپنے اداروں میں عارضی کارکنوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن دنیا بھر میں کارکنوں کی کم ازکم اجرتوں کی قانون سازی کے بعد تمام صنعتی اور کاروباری اداروں کے کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت کی ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے۔
اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ملک میں کارکنوں کے لئے اجرتوں کی ادائیگی کے لئے چار مختلف قوانین موجود ہیں ۔ جن میں صنعتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے اجرتوں کاقانون مجریہ1936ء ، کوئلہ کی کانوں میں خدمات انجام دینے والے کان کنوں کی اجرتوں کے تعین کے لئے قانون مجریہ1960ء کم از کم اجرت کا قانون مجریہ1961ء اورغیر ہنر مند کارکنوں کی اجرت کا قانون مجریہ1969ء شامل ہیں۔لیکن یہ قوانین وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ملازمین اور زراعت کے پیشہ سے وابستہ کارکنوں پر لاگو نہیں ہوتے ۔ البتہ کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت کے قانون مجریہ1961ء کا اطلاق ملک کے تمام صنعتی، کاروباری، تجارتی،تعلیمی،طبی،رفاہی، اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں اور ملازمین پر ہوتا ہے۔
کم از کم اجرت قانون مجریہ1961ء کے تحت ملک میں صوبائی سطح پر کم از کم اجرت بورڈ تشکیل دئیے گئے تھے۔ جس میں سہ فریقی بنیاد پر حکومت، آجران اور کارکنوں کو نمائندگی حاصل تھی۔یہ بورڈ ملک کی معاشی صورت حال، کارکن کی قوت خرید اور اس کے کام کے لحاظ سے کارکنوں کی کم از کم اجرتوں کی شرح مقرر کرنے کے لئے سفارشات مرتب کرنے کا مجاز ہیں۔8،اپریل 2010ء میں آئین پاکستان میں ہونے والی 18ویں آئینی ترمیم سے قبل محنت کا شعبہ وفاق کے تحت قائم تھا۔لہذا ملک بھر میں وفاق کے تحت غیر ہنر مند کارکنوں کے لئے یکساں شرح سے کم از کم اجرتیں مقرر کی جاتی تھی۔لیکن اس آئینی ترمیم کے نتیجہ میںآئین پاکستان میں درج مشترکہ فہرست (Concurrent list) کے خاتمہ کے بعدصوبوں کی خودمختاری کے نام پرشعبہ محنت سمیت دیگر کئی شعبے بھی صوبوں کے سپر کردئیے گئے تھے ۔جس کے بعد وفاق کا دائرہ اختیار وفاقی علاقہ اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور اس کے بعدچاروں صوبوں نے اپنے سالانہ بجٹ میں اپنی اپنی صوابدید کے مطابق کم از کم اجرتوں کے تعین کا آغاز کردیا۔جس کے باعث وفاق اور چاروں صوبوں کی جانب سے علیحدہ علیحدہ شرح سے کم از کم اجرت کا تعین کرنے باعث بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس وقت وفاق کے تحت کم از کم اجرت کی شرح20ہزار روپے اورصوبہ پنجاب میں20ہزار، صوبہ سندھ میں25ہزار، صوبہ خیبر پختونخوا میں21ہزار اور صوبہ بلوچستان20ہزار روپے میں مقرر کی گئی ہے۔
اگرہم کم از کم اجرتوں کے حوالہ سے تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو کم از کم اجرت کے ابتدائی قوانین کا سراغ انگلستان میں1349ء کے آرڈیننس آف لیبر کے آغاز سے ملتا ہے۔ جب انگلستان میں قرون وسطیٰ میں شاہ ایڈورڈ سوم نے انگلستان کے مزدوروں کے لئے زیادہ سے زیادہ اجرت طے کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔شاہ ایڈورڈ سوم جو بادشاہت کے ساتھ ایک دولت مند زمیندار بھی تھا اور اپنے امراء کی طرح اپنی زرعی اراضی پر خدمات کے لئے دوسروں پر انحصار کرنے والا تھا۔اسی دوران1348ء کے موسم خزاں میں جب سیاہ طاعون کی موذی وباء نے انگلستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں انگلستان کی ایک بڑی آبادی لقمہ اجل بن گئی تھی۔چنانچہ اس جان لیوا وباء کے باعث انگلستان میں مزدوروں کی شدید قلت پیدا ہونے اور اجرتوں کی شرح بلند ہونے کے باعث شاہ ایڈورڈ سوم کو اجرتوں کی حد نئے سرے سے طے کرنا پڑی تھی۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں1351ء میںاس آرڈیننس میں ترامیم کرکے اورایک نیا قانون مزدوراں متعارف کراکے مقررہ شرح سے زائد اجرتوں کی ادائیگی پر جرمانوں میں اضافہ کردیا گیا تھا۔
اسی طرح دنیا میں انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے کارکنوں کی قوت خریدبرابری (Purchasing Power Parity) کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم اجرتوں کا نظام متعارف کرانے کے لئے باقاعدہ طور سے قانون سازی کی تھی۔لیکن جب حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرتوں کے قانون کے نفاذ کے بعد صنعتی اور کاروباری اداروں میں مزدور کی لاگت میں اضافہ ہونے لگا تو اس صورت حال کے پیش نظر بیشتر صنعتی اور کاروباری ادارے کم از کم اجرتوں کے قوانین سے بچنے کے لئے آزاد ٹھیکے داروں اور عارضی ملازمین (Gig Workers) کے ذریعہ اپنا کام چلانے لگے تھے ۔یورپی خطہ میں کارکنوں کے لئے کم از کم اجرتوں کی تحریک کا باقاعدہ آغازپہلی مرتبہ بیگار خانوں (Sweatshops) میں کام کرنے والے کارکنوں کا معاشی استحصال روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔کیونکہ آجران کا خیال تھا کہ ان کے پاس بیحد کمزور اورانتہائی غیرمعیاری ماحول میں کام کرنے والے ان کارکنوں کے ساتھ معاوضوں کی غیر قانونی سودے بازی کرنے کی قوت موجود ہے۔ابتداء میں کارکنوں کے لئے کم از کم اجرتوں کے تعین کا مقصد اضافی کام (Over time) انجام دینے والے ااور کم آمدنی والے خاندانوں کی مالی امداد کے طور پر اختیار کی گئی تھیں۔ کارکنوں کی کم از کم اجرتیں مقرر کرنے کے لئے قومی قوانین سب سے پہلے 1890ء میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں منظور ہوئے تھے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پہلی مرتبہ 25، جون 1938ء میں صدر فرینکلن روزویلٹ کے دستخطوں سے کم از کم اجرتوں کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت تمام اقسام کے کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت25سینٹ فی گھنٹہ مقرر کی گئی تھی۔ جبکہ اس وقت امریکہ میں کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت7.23ڈالر فی گھنٹہ مقرر ہے۔مغربی دنیا میںتمام اقسام کے کارکنوں کے معاشی تحفظ کے لئے منصفانہ اجرتوں کو مصارف زندگی (cost of living)اور ہنر کی بنیاد پر اجرتوں (siklled base wages) کے تصور کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
1919ء میں قائم ہونے والا اقوام متحدہ کا واحد سہ فریقی ادارہ عالمی ادارہ محنت(ILO) اپنی187 رکن ریاستوں کی حکومتوں، آجران اور کارکنان کو معیار محنت ،پالیسیاں مرتب کرنے اور تمام مرد و خواتین کے لئے مہذب کام کے فروغ کے لئے پروگرام تشکیل دینے کی غرض سے کوشاں ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے مقاصد کے مطابق کم از کم اجرت کامقصد کارکنوں کو ان کی محنت و مشقت کے عوض بلا جواز اور غیر منصفانہ قلیل اجرت سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ عالمی ادارہ معیشت اورترقی کے ثمرات کو سب کے لئے منصفانہ اور یکساں حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمت کرنے والے تحفظ کے ضرورت مند تمام کارکنوںکی کم از کم گزر بسر کے لئے اجرتوںکی جائز ادائیگی یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں عالمی ادارہ محنت نے اپنے رکن ممالک میں کارکنوںکے لئے کم از کم اجرتوں کا ڈھانچہ تیار کرنے کی غرض سے 1928ء نمبر26 اور1970ء نمبر131 کے تحت دو عہد و پیمان (Conventions) منظور کئے تھے۔
اگر ہم27رکن ریاستوں پر مشتمل یورپی یونین کے ممالک کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OECD) کے رکن ممالک میںسال2020ء میں آسٹریلیا اپنے کارکنوں کو12.9امریکی ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ کے حساب سے دنیا بھر کے ممالک میں سر فہرست تھا۔ جبکہ رکن ممالک میں سب سے کم معاوضہ روسی فیڈریشن میں2.6امریکی ڈالرفی گھنٹہ معاوضہ مقرر تھا ۔اگرچہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے فی گھنٹہ اجرت کے قوانین تو پہلے ہی سے موجود ہیں۔ لیکن اب مغربی یورپی ملک وفاقی جمہوریہ جرمنی نے پوری یورپی یونین کے عام کارکنوں کے لئے مشترکہ کم از کم اجرت کے ایک مشترکہ قانون کو اپنا ہدف بنالیا ہے۔ جس کے لئے اب جرمنی کی جانب سے اس پورے بلاک کی سطح پر مشترکہ کم از کم اجرت کے نفاذ کے لئے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جرمن وزیر روزگار اور محنت بوہیرٹس ہائیل نے کہا کہ یورپ کے اقتصادی اتحاد سے دیگر ممالک کی طرح جرمنی نے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن اس مثبت نتیجہ کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ یونین کے رکن ممالک میں عام کارکنوں کو اپنے ملک سے جاکر دوسری ریاستوں میں کام کرسکنے کا جو حق حاصل ہے ،اسے آج بھی بہت زیادہ حد تک کارکنوں کے معاشی استحصال کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔
جرمن وزیر روزگار و محنت ہائل نے مزید کہا کہ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ یورپی یونین کی رکن تمام ریاستوں میں سماجی سطح پر ایک طرح کی کم از کم فی گھنٹہ اجرتوں کا ایک ایسا مشترکہ قانون نافذ کیا جائے جو کارکنوں کے اس معاشی استحصال کا راستہ روک سکے اور یورپی کارکنوں کو، چاہے وہ کسی بھی رکن ملک میں کام کر رہے ہوں ان کی محنت کا ہمیشہ ایسا مالی معاوضہ ملے ،جو صحیح معنوں میں منصفانہ ہو۔ایک جرمن روزنامہ کو دیئے گئے انٹرویو میں جرمن وزیر روزگار و محنت بوہیرٹس ہائیل نے کہا کہ ہم جلد ہی یونین کی دیگر رکن ریاستوں کے ساتھ مل کر کم از کم اجرتوں کا ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش کریں گے جو یورپی کارکنوں کے لئے ان کی کم از کم فی گھنٹہ قانونی اجرتوں کا تعین کرتے ہوئے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے اور ان کی خوشحالی اور بقاء کی ضمانت دے سکے۔ جرمن وزیر روزگار و محنت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپی یونین کو مضبوط اور متحدصرف اسی صورت میں رکھا جاسکتا ہے کہ جب ہم سماجی سطح پر بھی اس اتحاد کا عملی مظاہرہ کریں،اس سماجی اتحاد کی منزل صرف امن کو یقینی بنانے اور عام شہریوں اور کارکنوں کے لئے سماجی خوشحالی کی ضمانت کے ذریعہ ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح ریاستہائے متحدہ مریکہ کی ریاست نیویارک کے قانون برائے مزدور کے مطابق ہرایک شخص کو کم از کم اجرت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ قطع نظراس کے کہ اس کی ملازمت کیا ہے یا ملازم اورمزدور کون ہے۔ریاست نیو یارک کے محکمہ محنت کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہفتہ میں40گھنٹے سے زائد کام کرتے ہیں تو،اس اضافی وقت کے لئے جس میں وہ کام کر رہے ہیں تو انہیں اس کی اضافی اجرت ملنی چاہئے۔ ۔اس قانون کی روشنی ریاست نیویارک میں کم از کم اجرت اور اضافی کام (Over Time)کے مزدور قوانین تمام ملازمین اورمزدوروں پر لاگو ہوتے ہیں، خواہ ان کی ملازمت کسی بھی نوعیت کی ہو۔ریاست نیو یارک کے قوانین محنت کے تحت کارکنوں کو انجام دیئے گئے کام کے ہر گھنٹے کے عوض کم از کم اجرت کی ادائیگی لازمی ہے۔جس میںمقررہ شفٹ سے پہلے اور اس کے بعد انجام دیا گیا کام اور کام کے دن کے دوران گھر سے کام کی جگہ اور کام کی جگہ سے گھر تک سفر کرتے ہوئے گزرنے والا وقت بھی شامل ہے۔آجران اورمالکان کو ان کارکنوں کی کم از کم اجرتوں سے ماسوائے کارکنوں کے فوائد کی قانونی کٹوتیوں صحت بیمہ، پنشن کنٹری بیوشن وغیرہ کے کسی قسم کی کٹوتیوں کا اختیار نہیں ہے۔ان قانونی کٹوتیوں کے لئے بھی کارکنوں کی جانب سے تحریری رضامندی ضروری ہے۔اسی طرح مالکان اپنے ملازمین کو ان کی کم از کم اجرتوں کی ادائیگی کا تحریری نوٹس اور اجرت کا ماہانہ گوشوارہ دینے کے بھی قانونی طور سے پابند ہیں۔مالکان کی جانب سے اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں متاثرہ کارکن کو اس کے مالی نقصان کی تلافی کے ساتھ ساتھ10,000 امریکی ڈالر مالیت کا مالی ایوارڈ بھی مل سکتا ہے۔
اگرمتعلقہ آجر کی جانب سے کسی ملازم یا مزدور کی مقررہ اجرت کی چوری کرتے ہوئے انہیں کم از کم اجرت اور اضافی وقت میں کام کرنے کا معاوضہ ادا نہیں کیا جائے تو ایسے ملازمین اپنی دادرسی کے لئے ریاست نیویارک کے محکمہ محنت کے مفت مددگار نمبر 888-469-7365 پر کال کرکے اپنا دعویٰ دائر کرسکتے ہیں۔ریاست نیویارک میں مختلف شعبوں کے کارکنوں کی اجرت کی کم از کم شرحوں کی معلومات www.labor.ny.gov/minimumwageپر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں کارکنوں کے کام کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری سطح پر مجاز ادارے قائم ہیں۔ جن میں ملازمت کی شرائط، کام کے طریقے،آجر کی جانب سے ملازم کی منشاء کے بغیر کام لینے، اوقات کار کے تعین،فی گھنٹہ کام کے معاوضوں ، اضافی کام(Over Time) کا معاوضہ،حق تلفی، کسی تنازعہ اور شکایت کی صورت میں متاثرہ ملازم محکمہ محنت کی ہاٹ لائن پر کال بھی کرسکتا ہے اور محکمہ کی جانب سے اس اطلاع کو صیغہ راز میں رکھاجاتا ہے۔ اسی طرح متاثرہ ملازم کسی قسم کی حق تلفی کی صورت میں اپنی شکایت کی دادرسی کے لئے محکمہ محنت کے دفتر میں ذاتی طور پیش ہوکر بھی ریاست سے اعانت طلب کرسکتا ہے۔
دنیا بھر میں اجرتوں اور کم از کم اجرتوں پر نظر رکھنے والی ہالینڈ کی عالمی تنظیمWageindicators.orgنے دنیا بھر کے تقریبا200ممالک کے جائزہ کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کے16ممالک میں کم از کم اجرت کی شرح کا قانون نہیں ہے ،75ممالک میں یکساں طور پر کم از کم اجرتوں کی شرح مقرر ہے ۔جبکہ دیگر93 ممالک میں مختلف شرح کے مطابق کم از کم اجرتیں مقرر ہیں۔ اسی طرح دنیا کے13ممالک میں کم و بیش ایک سو مختلف شعبوں کے کارکنوں کے لئے کم از کم اجرتوں کی صراحتی شرحیںمقرر کی گئی ہیں۔
ملک میں اجرتوں کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ملک کے لاکھوں کارکنوں اور ملازمین کے لئے تسلی بخش اور منصفانہ اجرتوں کا ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی ، صنعتی امن برقرار رکھنے اور اس دور کے معاشی تقاضوں کے مطابق کارکنوں کی باعزت اور پر وقار گزر و بسر کے لئے ماضی کے تنازعات اور تلخیوں کو یکسر فراموش کرکے ایک منصفانہ معاوضہ کا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔