مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک یادگار مضمون
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد (آئی پی ایس) پاکستان کا ایک مؤقر ادارہ ہے اس کے ہاں سے شائع ہونے والا نہایت عمدہ مجلہ ’’نقطہ نظر‘‘ پانچ سال کے تعطل کے بعد دوبارہ شائع ہونے شروع ہوا ہے، اس کے 38 شمارے پہلے شائع ہوئے اور اب تین شمارے نمبر39، 40 اور 41 شائع ہوئے ہیں، یہ ایک ایسا مجلہ ہے جس کا مطالعہ معلومات، نقد، تحقیق سے مالا مال کردیتا ہے، اس کے مدیر ڈاکٹر سفیر اختر ہیں، اس کے شمارہ 40 میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک خط اور ایک مضمون شائع ہوا ہے جو پہلے روزنامہ نوائے وقت میں طبع ہوا تھا۔یہ اہم اور قیمتی مضمون تاریخ پاکستان کے حوالے سے اہم دستاویز اور اپنے مندرجات کے حوالے سے تازہ ہے۔ پاکستان میں حق و باطل کی فکری و سیاسی کش مکش کے طالب علموں اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کو ڈاکٹر سفیر اختر کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مولانا مودودیؒ کے ایک اہم مضمون کو محفوظ کردیا۔ اس یادگار مضمون کا انتخاب ملک نواز احمد اعوان نے کیا ہے۔ اس مضمون کا تعارف کراتے ہوئے مدیر ’’نقطہ نظر‘‘ اسلام آباد ڈاکٹر سفیر اختر لکھتے ہیں۔
’’روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ (لاہور، راولپنڈی) نے 14 اگست 1976ء کی اشاعت میں سید مودودیؒ کا ایک مکتوب اور ایک دوسری تحریر شائع کی تھی۔ ذیل میں پہلے ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ کا شذرہ اور پھر بالترتیب سید مودودیؒ کا مکتوب اور مذکورہ تحریر نقل کی جاتی ہے، جو تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی کے حوالے سے خود بول رہی ہے یعنی ہر لحاظ سے Self-explanatory ہے‘‘۔ (ادارہ)
شذرہ۔ ادارہ ’’نوائے وقت‘‘
پچھلے دنوں ’’نوائے وقت‘‘ کے کالموں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے بارے میں ایک بحث جاری ہوگئی تھی، جس کے سلسلہ میں ہمیں بہت سے خطوط ، موافق اور مخالف۔ موصول ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ تو شائع ہوگئے، لیکن بیشتر مراسلات کی اشاعت نہیں ہوسکی۔ بعض خطوط میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ اس سلسلہ میں براہ راست مولانا سے استفسار کرلیا جائے، چنانچہ ہم نے ایک مکتوب کے ذریعہ مولانا سے گزارش کی کہ وہ دو عنوانات (1)’’قائداعظم اور میں‘‘ (2)’’تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی‘‘ میں سے کسی ایک پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ اس سلسلہ میں مولانا نے ایک خط اور ایک مضمون کی صورت میں جو کچھ ارسال فرمایا ہے وہ ہدیہ قارئین ہے۔ (ایڈیٹر)
مکتوب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
مدیر ’’نوائے وقت ‘‘کے نام
یکم اگست 1976ء
محترم و مکرمی! السلام علیکم
عنایت نامہ مورخہ 30 جولائی ملا۔ میں اگرچہ بیماری کے باوجود اپنا تمام وقت اور اپنی ساری قوتیں سیرت پاک کی تکمیل میں صرف کررہا ہوں اور حتیٰ الامکان دوسری مصروفیتوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن آپ کی فرمائش پر ’’تحریک پاکستان اور جماعت اسلامی‘‘ کے زیر عنوان ایک مختصر مضمون ارسال کروں گا۔ جہاں تک دوسرے موضوع ’’قائداعظم اور میں‘‘ کا تعلق ہے، اس پر کچھ لکھنا میں مناسب نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ ایک طرح سے شخصی بحث ہوجاتی ہے، تاہم آپ کی معلومات کے لیے اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد جب سے میں نے ملکی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی تھی، میرے دل میں مسلمانوں کے لیڈروں کا احترام سب سے زیادہ تھا، ان میں سے ایک قائداعظم مرحوم بھی تھے، میں نے ہمیشہ ان کو ایک بااصول، راست باز اور مضبوط سیرت و کردار کا مالک انسان سمجھا اور 1920ء سے 1948ء تک کبھی میرے دل میں ان کے متعلق یہ بدگمانی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف بھی کوئی بات کہہ سکتے ہیں۔ رائے کا اختلاف تو بڑے سے بڑے آدمیوں سے بھی ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ زندہ ہوں یا اپنے رب کے پاس جاچکے ہوں۔ اس قسم کا اختلاف مجھے جس کسی سے بھی ہوا ہے، میں نے دلیل اور شائستگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کو مخالفت کا ہم معنی سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ جس کی رائے سے میں اختلاف کرتا ہوں، اس کو بدنیت اور غیر مخلص سمجھتا ہوں، دراصل ایک بے بنیاد سوء ظن ہے۔ قائداعظم مرحوم کے متعلق مجھے کبھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے معاملے میں مخلص نہ تھے، البتہ ان کے ’’پسماندگان‘‘ کے متعلق مجھے یہ شبہ ضرور ہے کہ وہ ان کی ہم نوائی میں مخلص نہ تھے اور یہ شبہ ان حضرات کے ان اعمال کی بنا پر ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ کرتے رہے۔ ان پر تنقید کے معنی قائداعظم پر تنقید کے نہیں ہیں اور نہ ان کے عدم اخلاص کا شکوہ قائد کی ذات تک پہنچتا ہے۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
’’اگرچہ قیام پاکستان کے 29 سال بعد اس موضوع پر لکھنے کی کوئی ضرورت میں محسوس نہیں کررہا تھا، مگر جناب ایڈیٹر ’’نوائے وقت‘‘ کی فرمائش پر یہ سطور لکھ رہا ہوں‘‘۔
اصل موضوع پر کلام کرنے سے پہلے اس تاریخی پس منظر کو پیش کرنا ضروری ہے، جس میں جماعت سلامی وجود میں آئی تھی۔ 1920ء سے 1929ء تک ایک صحافی کی حیثیت سے میں ہندوستان کے سیاسی حالات اور ان میں مسلمانوں کی حیثیت کا بغور مطالعہ کرتا رہا تھا۔ اس مطالعہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچایا کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم فرض کرکے یہاں برطانوی حکومت کے زیر اثر جو جمہوری نظام بنایا جارہا ہے، اس میں مسلمانوں کے لیے کسی حیثیت سے بھی کوئی خیر نہیں ہے اور اس نظام میں ان کو خواہ کیسے ہی آئینی تحفظات دے دیئے جائیں، غیر مسلم اکثریت کا غلبہ ان کے لیے درحقیقت کسی تحفظ کو بھی مفید اور موثر نہ رہنے دے گا۔ میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ کچھ آئینی تحفظات حاصل کرکے انگریزی حکومت کے بل بوتے پر جینا سراسر نادانی ہے، کیونکہ انگریزوں کو ہمیشہ یہاں نہیں رہنا ہے۔ ملک آخر کار آزاد ہوکر رہے گا اور آزاد ہندوستان میں غیر مسلم اکثریت کی حکمرانی مسلمانوں کے دین، اخلاق، تہذیب، تمدن، معاشرت اور معیشت سب کو تباہ کرکے رکھ دے گی، یہاں تک کہ ان کا الگ امتیازی وجود تحلیل ہوکر رہ جائے گا۔
اس زمانے میں اور اس کے بعد چند سال تک اسلام کا جو مطالعہ میں نے کیا، اس کی مدد سے میں یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ مسلمانوں کے اس حالت کو پہنچنے کی وجہ کیا ہے اور اس گرداب سے وہ کس طرح نکل سکتے ہیں، اس مسئلہ پر میں نے جتنا بھی غور کیا، اتنا ہی مجھے یقین حاصل ہوتا چلا گیا کہ ہندوستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں مسلمان جس زوال و انحطاط اور مغلوبی و محکومی کے شکار ہیں اس کی واحد وجہ ان کا اپنے اس مشن کو بھول جانا ہے جو کتاب اللہ کی حامل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیرو امت ہونے کی حیثیت سے ان کے سپرد کیا گیا تھا، اور اب اس حالت سے ان کے نکلنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ پھر سے اس مشن کے علمبردار بنیں، مگر اصل سوال عمل کا تھا، کہ یہ کام ہو تو کیسے؟ میں دیکھ رہا تھا کہ عام مسلمان دین کے عاشق تو ضرور ہیں مگر ان کو جانتے اور سمجھتے نہیں ہیں۔ تعلیم یافتہ اور بااثر طبقے صرف دین سے ناواقف ہی نہیں، وقت کی غالب تہذیب کے افکار و نظریات اور طورطریقوں سے بری طرح متاثر بھی ہیں اور مذہبی لوگوں میں دین کا تصور بس نماز، روزہ سے اور چند مذہبی رسوم تک محدود ہیں۔ اس حالت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ سارے مسلمان اس مشن کو سمجھ بھی لیں اور اس کے علم بردار بھی بن کر اٹھ کھڑے ہوں۔ عملاً اگر کچھ ممکن تھا تو یہ کہ اسلام کو بحیثیت ایک جامع اور ہمہ گیر نظام زندگی کے پیش کیا جائے، اس کے ایک ایک پہلو کو معقول طریقے سے واضح کیا جائے، دماغوں کی ان تمام الجھنوں کو صاف کیا جائے جو غیر اسلامی علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے غلبہ سے پیدا ہوگئی ہیں۔ اسلامی نظام کے برحق اور غیر اسلامی نظاموں کے باطل ہونے کو بدلائل ثابت کیا جائے اور باطل کو مٹا کر حق کو عملاً قائم کرنے کی سعی و جہد کا جذبہ دلوں میں ابھارا جائے۔ یہی کام تھا جسے میں نے 1933ء میں شروع کیا، جبکہ رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت میرے ہاتھ میں آئی۔ میرے پیش نظر یہ تھا کہ جب پڑھے لکھے لوگوں کی ایک تعداد ان خیالات کو قبول کرکے اس نصب العین کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہوجائے تو انہیں منظم کرکے اور ان کی اخلاقی و ذہنی تربیت کرکے اسلام کو بحیثیت نظام زندگی قائم کرنے کی باقاعدہ تحریک کا آغاز کردیا جائے۔
یہ کام بھی جاری تھا کہ 1937ء میں وہ تمام خطرات سامنے آگئے جن کے وقوع میں آنے کا اندیشہ تھا۔ برعظیم ہند کے تمام لوگوں کو ایک قوم فرض کرکے غیر مسلم اکثریت کو حکمران بنانے کا عمل شروع ہوتے ہی اس کے فطری اور منطقی نتائج اندیشوں سے گزر کر حقیقت کی صورت میں نمودار ہونے لگے۔ مسلمانوں کے جداگانہ قومی وجود اور ان کی اپنی مستقل تہذیب کی نفی کی جانے لگی۔ غیر مسلم اکثریت نے ان پر اپنی زبان، تہذیب اور رسوم کو مسلط کرنا شروع کردیا اور مسلمانوں سے اجتماعی طور پر کوئی معاملہ کرنے کے بجائے ان کے افراد کو براہ راست مخاطب کرکے ہندوستانی قومیت میں جذب کرنے کی کوشش بڑے پیمانے پر کی جانے لگی، جس میں بدقسمتی سے علما کا ایک گروہ بھی شریک ہوگیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ اقامت دین کی تحریک کے لیے جس قوم سے اولیں کارکن بہم پہنچنے کی امید کی جاسکتی تھی، اسی کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے، اس لئے میں نے اپنی اصل دعوت کا کام پہلے سے زیادہ تیز کردینے کے ساتھ ساتھ وطنی قومیت میں مسلمانوں کے جذب ہونے کو روکنے کی کوشش بھی شروع کردی۔ اسی مقصد کے لیے میں نے ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس کا پہلا حصہ 1937ء اور دوسر ا1938ء میں شائع ہوا۔ پھر ’’مسئلہ قومیت‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب لکھی، جو پہلے 1939ء میں اور پھر کچھ مزید اضافوں کے ساتھ جنوری 1941ء میں شائع ہوئی۔ (اب یہ تینوں کتابیں ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان، حصہ اول‘‘ کے نام سے ایک ہی جلد میں جمع کردی گئی ہیں) ان تینوں کتابوں میں یہ حقیقت دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کی گئی تھی کہ مسلمان کسی وطنی قومیت کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ وہ الگ ایک قوم ہیں، جس کا عقیدہ و ایمان، جس کے افکار و نظریات، جس کے اصول اخلاق و تہذیب اور جس کے نظام زندگی میں سے کوئی چیز بھی ان عناصر کے ساتھ میل نہیں رکھتی جو ہندوستان میں آباد ہیں۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ ’’وطنی قومیت‘‘ کے جھوٹے، بے اصل اور پُر فریب نام سے غیر مسلم اکثریت کی جو نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہو گی، وہ ان کے لیے کس قدر تباہ کن ہو گی۔
یہی وہ زمانہ تھا جس میں مسلم لیگ کانگریس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک زبردست عوامی قوت کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ابھری، وطنی قومیت کا طلسم ٹوٹ گیا، مسلمان اس کے فتنے سے بچ گئے اور ان کے اندر یہ جذبہ شدت کے ساتھ پیدا ہو گیا کہ ہندوستان میں ان کی قومیت کے امتیازی وجود کو ایک آزاد مستقل حیثیت حاصل ہونی چاہیے، لیکن یہ طے ہونا ابھی باقی تھا کہ اس کی عملی شکل کیا ہو۔ مختلف لوگ اس کے بارے میں مختلف تجویزیں پیش کر رہے تھے، جن میں تین متبادل تجویزیں میری بھی تھیں، جو میں نے 1938ء میں پیش کیں۔ ایک پرجوش تحریک آگے بڑھ رہی تھی اور مسلمانوں کاقومی مقصد بتدریج ایک شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ مارچ 1940ء میں وہ تقسیم ہند کی تجویز پر مرتکز ہو گیا۔ ابتداً اس تجویز میں ’’پاکستان‘‘ کا نام شامل نہ تھا، مگر یہ نام پہلے ہی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا، اس لیے آپ سے آپ زیرتجویز ملک پر یہی نام چسپاں ہو گیا اور اس طرح یہ تحریک ’’تحریک پاکستان‘‘ بن گئی۔
اس تحریک کے آغاز ہی سے عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی تمنائوں کا مرکز ’’پاکستان‘‘ ایک اسلامی مملکت ہو گا، جس میں اسلام کا قانون جاری ہو گا اور اسلامی تہذیب زندہ کی جائے گی۔ اسی لیے ان کا نعرہ یہ تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہٰ الا اللہ‘‘۔ مسلم لیگ کے لیڈر بھی اپنی تقریروں میں یہی خیال ظاہر کر رہے تھے اور سب سے بڑھ کر خود قائداعظم مرحوم و مغفور نے مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کا دستور قرآن ہو گا۔
اس مرحلے پر یہ بتانا میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ایک اسلامی ریاست کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کس قسم کے رہنما اور کارکن درکار ہوتے ہیں۔ اس کو قائم کرنے کی تحریک کس طرح برپا ہوتی ہے اور اس کے لیے کام کرنے والی جماعت کے اوصاف کیا ہوتے ہیں۔ 1939ء سے 1941ء تک میں مسلسل اس موضوع پر مضامین لکھتا رہا، جن کا مجموعہ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم‘‘ کے نام سے اسی زمانے میں شائع ہو گیا تھا، اور اب وہ ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان، حصہ دوم‘‘ کے نام سے ازسرنو شائع کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ میں یہ سمجھتا تھا کہ ان مضامین اور اس کتاب سے اس تحریک کا رخ نہ بدل سکے گا، جو پوری قوت سے ملک کے گوشے گوشے میں چل رہی تھی، لیکن چونکہ میں علیٰ وجہ البصیرت یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس طرز کی تحریک کے نتیجے میں قومی ریاست تو بن سکتی ہے، اسلامی ریاست نہیں بن سکتی۔ اس لیے میں نے بروقت اپنی بے لاگ رائے پیش کر دینا اپنا فرض سمجھا، قطع نظر اس سے کہ میری رائے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کیسے وجود میں آئی۔ یہ بات میں ابتدا ہی میں بیان کر چکا ہوں کہ برسوں کے غوروفکر اور مطالعہ کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا تھا، اس کی بنا پر میں نے 1933ء میں اپنا کام ہی یہ مقصد سامنے رکھ کر شروع کیا تھا کہ جب کچھ لوگ سوچ سمجھ کر پوری سنجیدگی کے ساتھ اسلامی نظام زندگی کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے تو میں ان کو ایک جماعت کی صورت میں منظم ہوکر کام کرنے کی دعوت دوں گا۔ یہ مقصد جسے میں اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا چکا تھا، اس زمانے میں بھی کبھی میری نگاہ سے اوجھل نہیں ہوا، جب میں ’’سیاسی کشمکش‘‘ کے تینوں حصے اور ’’ مسئلہ قومیت‘‘ لکھنے میں مشغول تھا۔ اس پورے زمانے میں اسلامی نظام کے ہر پہلو کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا رہا کہ غیر اسلامی نظام کے غلبے کی حالت میں اس نصب العین کےٍٍ لیے کام کرنے کے طریقے کیا ہیں، اور اس کے لیے کس قسم کی ذہنی و اخلاقی تیاری اور کیسی تنظیم درکار ہے۔ 1941ء کے وسط تک پہنچتے پہنچتے مجھے معلوم ہواکہ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس نصب العین اور اس طریق کار سے متفق ہیں، چنانچہ میں نے ان کو اگست 1941 ء میں لاہور آنے کی دعوت دی۔ 75 اصحاب ملک کے ہر حصے سے تشریف لے آئے اور پورے غوروخوض کے بعد ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کر دی گئی، جس کا مقصد یہ قرار دیا گیا کہ:
’’انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں سمیت جن میں فکر ونظر، عقیدہ و خیال، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت، معیشت و سیاست، قانون و عدالت، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات تک سب ہی معاملات شامل ہیں، خدا کی بندگی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قانون حیات پر قائم کیا جائے۔‘‘
اس نصب العین کے ساتھ یہ جماعت کسی دوسری جماعت کی حریف یا مدمقابل کی حیثیت سے قائم نہیں کی گئی تھی، بلکہ اس کا حریف ہر غیر اسلامی نظام تھا جو خدا کی اطاعت سے منحرف ہو، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو، اور اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دلیل و اخلاق اور منظم جدوجہد کے ذریعے سے ایسے ہر نظام کی جگہ اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ خیال کرنا کہ اس جماعت کا قیام مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے اور تحریک پاکستان کے خلاف ایک دوسری تحریک اٹھانے کے لیے کیا گیا تھا، محض ایک بے جا بدگمانی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس نصب العین کے لیے کام کرنا میں نے اس وقت شروع کیا تھا، جب پاکستان کا نام بھی کسی نے نہ سنا تھا اور مسلم لیگ کوئی عوامی طاقت بن کر نہ اٹھی تھی۔ جماعت کی تشکیل و تنظیم کے لیے میں صرف اس بات کا منتظر تھا کہ ملک میں کچھ لوگ اس کام کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ کر میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں، وہ جب بھی تیار ہو جاتے، جماعت قائم ہو جاتی، خواہ پانچ برس پہلے ہوتی، یا پانچ برس بعد، بلکہ اگر آج تک بھی کوئی نہ ملتا تو میں تنہا اس راہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں لگا رہتا۔
علاوہ بریں یہ بدگمانی صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی، جب کہ جماعت نے تحریک پاکستان کے خلاف کوئی مہم چلائی ہوتی یا کوئی جلسہ کیا ہوتا یا کوئی قرارداد پاس کی ہوتی، یا اس کے اجتماعات میں مخالفانہ تقریریں کی گئی ہوتیں، لیکن اگست 1941ء سے اگست 1947ء تک جماعت کی پوری کارروائیوں میں ایسی کسی چیز کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ بس یہ کہ ہم نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اسے اگر کوئی شخص مخالفت سمجھتا ہے تو غالبا وہ اس نظریے کا قائل ہے کہ’’جو ہمارے ساتھ نہیں، وہ ہمارا مخالف ہے‘‘۔ اور اگر کوئی اسے ہماری غلطی قرار دیتا ہے تو اس کو اپنی رائے کا اختیار ہے۔ بہرحال ہم نے جس وقت یہ کام شروع کیا تھا، اس وقت اسے برحق سمجھتے تھے اور آج اس وقت سے زیادہ برحق سمجھتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ یقین ہے کہ جماعت کی تشکیل و تنظیم اور تربیت کا کام عملا ممکن ہو جانے کے بعد اگر ہم اس کی بنا نہ ڈالتے تو ایک گناہِ عظیم کے مرتکب ہوتے۔
البتہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام شروع کرنے کے بعد بھی تحریک پاکستان میں حصہ لیا جا سکتا تھا، پھر ایسا کیوں نہ کیا گیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی زمین میں اسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے جو جماعت قائم کی گئی ہو، اس کی تنظیم اور ذہنی و اخلاقی تربیت ایک بالکل جداگانہ نوعیت کا کام تھا، جو ایک طوفان خیز عوامی تحریک کے ساتھ چلتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر آغاز ہی میں ہم ایسی کسی تحریک میں شامل ہو جاتے تو ہمارے لیے کسی طرح یہ ممکن نہ ہوتا کہ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ذہن کو پراگندہ ہونے اور ان کے اخلاق کو عوامی سطح تک گر جانے اور تنظیم کے بجائے بدنظمی میں مبتلا ہونے سے بچا سکتے۔
قیام جماعت کے بعد سے تقسیم ہندتک چھے سال کی مدت میں جو لوگ ہمارے رفیق کار بنے ان کی جملہ تعداد صرف 625 تھی۔ جب ملک کی تقسیم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی جماعت تقسیم ہو گئی۔ ارکان میں سے 385 پاکستان میں تھے یا ہجرت کر کے آگئے تھے اور 240 ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں رہ گئے۔ اس طرح ایک جماعت کی تین جماعتیں بن گئیں: (1) جماعت اسلامی پاکستان۔ (2) جماعت اسلامی ہند۔ (3) جماعتِ اسلامی مقبوضہ کشمیر۔ ان سب کی تنظیمیں الگ الگ ہو گئیں اور ان کے درمیان کوئی رابطہ باقی نہ رہا تھا، لیکن سب کا نصب العین ایک ہی رہا۔ پاکستان کی طرح ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کی جماعتیں بھی آج تک اسلامی نظام زندگی ہی کے قیام کی کھلم کھلا دعوت دے رہی ہیں، اس کی تبلیغ کر رہی ہیں اور عملا اس کے لیے جدوجہد کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ اسی چھے سال کی ابتدائی تنظیم و تربیت کا ثمرہ ہے کہ تینوں علاقوں کی حکومتیں نہ جماعت اسلامی کو مٹانے میں کامیاب ہو سکیں، نہ اس کے کارکنوں کو کام کرنے سے روک سکیں، نہ انہیں خرید سکیں، نہ ان کو ڈرا دھمکاکر دبا سکیں، نہ انہیں فریب دے کر اپنے دام میں پھانس سکیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر (جس میں علما کے مختلف گروہ اور کمیونسٹ اور قادیانی اور منکرین حدیث بھی پوری پوری قوت سے ان کے مددگار بنے رہے) ان کے کام کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اب اگر میں یہ پوچھوں تو اس کا ٹھنڈے دل سے جواب دیا جائے کہ جماعت اسلامی کے تحریک پاکستان میں شریک ہونے کے بعد بھی کیا یہ ممکن تھا کہ ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں اسلامی نظام زندگی کی علم برداری کا وہ فریضہ اتنے بڑے پیمانے پر انجام دیا جا سکتا جو جماعت وہاں 29 سال سے انجام دے رہی ہے؟ 625 آدمیوں کے شریک نہ ہونے سے پاکستان کا قیام تو نہ رک سکتا تھا، مگر ان کے اس تحریک میں شریک ہو جانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ ان دونوں علاقوں میں جماعت کی حیثیت مسلم لیگ کی حیثیت سے کچھ بھی مختلف نہ ہوتی۔
(بہ شکریہ: ’’نقطہ نظر۔ شمارہ 40، ایڈیٹر ڈاکٹر سفیر اختر)