ایک پیج میں دراڑ کیسے آئی؟

2015ء کے بعد سے پاکستان کے سول او رفوجی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر کو دیا گیا ایک پیغام یہ تھا کہ افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان جو کرسکتا تھا‘وہ کر دکھایا۔یہ کہا گیا کہ ہم ملک کو دوسروں کی خوشنودی کی خاطر دوبارہ آگ میں نہیں جھونک سکتے‘ نیز یہ کہ ہمارے فوجی جوان اور افسران مسلسل جنگ سے تھک چکے ہیں‘ مطلب یہ تھا کہEnough is Enough یعنی بہت ہوچکا۔ اسی طرح سے سول ملٹری قیادت نے اندرون اور بیرونِ ملک یہ پیغام بھی تسلسل کے ساتھ دیا کہ مسلسل جنگ کے باعث ‘امریکہ کی شراکت میں پاکستان نے زبردست جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں اور اس کے باعث ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔پیغام کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ باعزت ‘ مساوی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے اوریہ کہ امریکہ اور چین کے درمیان ایک بار پھر ایسا ہی کردار ادا کرسکتا ہے جو پاکستان نے 1971ء میں امریکی وزیر خارجہ کو خفیہ انداز میں اسلام آباد سے بیجنگ بھجوانے میں ادا کیا تھا۔یاد رہے کہ1971ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا ایک خفیہ لیکن تاریخ ساز دورہ کیا تھا۔
ہمیں بار بار یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں قانون اور آئین کا احترام یعنی رُول آف لاء مقدم ہونا چاہئے اور یہ کہ پاکستان کی اشرافیہ قانون کی حکمرانی میں یقین ہی نہیں رکھتی یعنی بالکل ایسے ہی کہ ٹریفک سارجنٹ تمام لوگوں کو ٹریفک قوانین کی تلقین کرے اور خود دائیں بائیں ہر قسم کے الٹے سیدھے موڑ کاٹتا رہے‘اپنی سہولت کے مطابق۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران ہمیں بار بار باور کروایا گیا کہ آصف زرداری اور شریف خاندان تکبر اور نخوت سے بھر پور اور بدعنوان ترین سیاستدان ہیں‘انہوں نے ملک کو لوٹا ہے اور اس ملک میں سیاست ایک کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ہمیں بار بار یہ بھی بتایا گیا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے قوانین کو بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں سیاسی مصلحت کے تحت کرنا پڑتی ہیں۔ (وزیراعظم) شہبازشریف اور اسحاق ڈار سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض سے اورنج لائن بنا کر یہ قرض کیسے اتاریں گے‘ مگر جواب ندارد۔اسحاق ڈار کو اعدادو شمار کی ہیرا پھیری کا بھی طعنہ دیا گیا مگرجن کے لیے یہ شعبدہ بازی ہوتی رہی ان کا کیا احتساب ہوا؟
قوم کو بار بار یہ بھی باورکرایا گیا کہ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو تمام اداروں اور افراد کو آئین اور قانون کے تابع رہ کر کام کرنا پڑے گا مگر جب آلِ شریف کی باری آئی تو کوئی بیماری کے بہانے لندن روانہ ہوگیا اور باقی ضمانتوں پر آزاد گھومتے اور ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگلتے رہے۔قانون حرکت میں نہ آیا‘عدلیہ حرکت میں ضرور آئی مگر وہ بھی رات بارہ بجے۔ہمیں یہ بھی باور کرایا گیا کہ ملک میں مسلح جتھوں یا پرائیویٹ ملیشیا کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر ملک کا امیج بہتر کرنا ہے اور ایک نارمل ملک بننا ہے تو تمام ملیشیاگروپوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔مگر معلوم نہیں کہ ملّی مسلم لیگ اور ٹی ایل پی کہاں سے آٹپکی ‘ معلوم نہیں کیوں 2017ء سے 2022ء تک یہی گروہ مسلسل ہر حکومت کو بلیک میل کرتے رہے ‘ مگر کیوں؟
ایک اور اہم پیغام جو عسکری اور سول اداروں کے ذریعے عوام اور دنیا تک پہنچایا گیا وہ تھا پشتون تحفظ موومنٹ(PTM) کے رہنماؤں محسن داوڑ ‘علی وزیر اور منظور پشتین کے حوالے سے۔ سرکاری معلوماتی مشینری کے ذریعے عوام کو باورکرایا گیا کہ یہ لوگ ریاستی اداروں کے خلاف ہیں‘ ملک کے مفادات سے بے نیاز ہو کر افغانستان کے (سابق صدر) اشرف غنی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ ان کی ملک دشمن سرگرمیوں کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔
محسن داوڑ نے تو حال ہی میں 15 یا16 اپریل کو اس بنیاد پر دفاعی اداروں پر تنقید کی کہ مشرقی افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کیوں کی گئی۔سابق وزیراعظم عمران خان بھی تو کشمیرمیںدہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اقتصادی ترقی کے لیے چینی ماڈل اپنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی باتیں کرتے رہے ہیں‘ ملک میں رول آف لاء یعنی قانون کی حکمرانی اورامیر غریب کے لیے ایک ہی قانون اورچھوٹے اور کم آمدنی والے شہریوں کے لیے صحت کارڈ اور احساس پروگرام کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اقتصادی ‘ سٹرکچرل اصلاحات پر زور دیتے رہے ہیں ‘ اقتصادی اشاریے یعنی برآمدات‘ ترسیلات ِزر ‘ حکومتی محصولات اور آئی ٹی کی برآمدات‘ ریکارڈ انداز میں بہتر ہوئے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ ایک پیج میں رخنہ کیسے اور کیوں پڑ گیا؟
سابقہ حکومتوں کی کرپشن اور بد انتظامی پر تو سب متفق تھے۔ پاکستان کی خود مختاری کے لیے مالی خود مختاری اور اقتصادی ترقی کی ضرورت پر تو سب کا اتفاق پایا جاتا تھا یا پھر فرق خودداری کے ساتھ اپنی ترجیحات خود متعین کرنے اور ہاتھ باندھ کر جوہری پروگرام سے دستبرداری اور بھارت اور امریکہ کے ساتھ غیر مشروط ہاں میں ہاں ملانے میں ہے؟
سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی ایک اعلیٰ شخصیت کی حالیہ گفتگو نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔ مختلف ذرائع سے پہنچنے والے اطلاعات کے مطابق عمران خان ضدی تھے‘ سولو فلائٹ پر تھے‘ علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانے سے گریزاں تھے‘ جس کے باعث قومی اداروں نے نیوٹرل پوزیشن اختیار کرلی‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ عمران خان کے خلاف چارج شیٹ تو آگئی لیکن قارئین نہ بھولے کہ چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ‘ ندیم بابر‘ رزاق داؤد‘ جہانگیر ترین اور ڈاکٹرعشرت حسین تو وہ شخصیات تھیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ پاور سٹرکچر کا مستقل حصہ ہیں؛ یعنی اسٹیٹس کو کے ارکان ہیں اور یہی سارے لوگ عمران خان کو تحفے میں ملے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سویلین حکومت مکمل آزاد ہے لیکن ملک کے چیدہ چیدہ صنعتکار اور کاروباری حضرات اپنے ٹیکس معاملات کے لیے کہیں اور کیوں جاتے رہے اور وہاں ان کی میزبانی بڑی خوشی سے کی گئی۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد امریکی سازش کا حصہ تھی یا نہیں مگر ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ قوم کے ساتھ منافقت بھری سیاسی مصلحتوں کے تحت جھوٹ بولنے کا سلسلہ جو قائداعظم کی وفات کے بعد سے شروع ہوا وہ تا حال جاری ہے۔ اس نظام کے شراکت دار‘ قطع نظر گزشتہ حکومت کی نالائقیوں اور ہٹ دھرمی کے‘ بری طرح ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ کاش کہ بےگناہی کے باوجود 20‘ 20 برس تک جیلوں میں سڑنے والوں کے لیے بھی عدالتیں نصف شب کو کھلتیں۔ کاش ایک مرتبہ فراڈ اور کرپٹ قرار دیے جانے والے وزیر اور وزیراعظم ہوتے ہوئے دوسرے ملکوں سے تنخواہ وصول کرنے والوں پر پارلیمان کے دروازے مستقل بند رہتے۔ مگر جناب وہ ایک اور دنیا کے باسی ہیں۔ اس ملک کے اصل حکمران جو غریب عوام کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔ جھوٹ منافقت اور موقع پرستی ایسے استعارے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ـ(امتیاز گل،روزنامہ دنیا،19اپریل2022ۓء)